سی پیک و ریکوڈک جیسے منصوبوں کیلئے مقامی باشندوں کو بے دخل کیا جارہا ہے – این ڈی پی

130

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کا بارویں مرکزی آرگنائزنگ باڈی اجلاس زیر صدارت مرکزی آرگنائزر شاہ زیب بلوچ ایڈوکیٹ بمقام مرکزی سیکٹریٹ شال میں منعقد ہوا جس میں مرکزی سیکٹری رپورٹ، رپورٹ برائے متفرق کمیٹیاں، عالمی و علاقائی سیاسی صورتحال، تنظیمی امور اور آئندہ لا ئحہ عمل کے ایجنڈے زیر بحث رہے۔

اجلاس کا آغاز شہدائے بلوچستان کی یاد میں دو منٹ کی خاموشی سے کیا گیا جس کے بعد پہلے ایجنڈے کا باقائدہ آغاز کرتے ہوئے ڈپٹی آرگنائزر سلمان بلوچ نے سیکٹری رپورٹ پیش کر کے گزشتہ کارکردگی کو مرکزی ممبران کے سامنے پیش کیاجبکہ دوسرے ایجنڈے میں مختلف کمیٹیوں نے اپنے رپورٹ پیش کئے اور تنقید برائے تعمیر کے ایجنڈے میں تعمیری تنقید کیا گیا۔

رہنمائوں نے مختلف ایجنڈوں پر اظہار خیال پیش کرتے ہوئے کہا کہ ماہِ اگست میں بالآخر پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (PDM)کی حکومت اپنے میعاد کو پورا کرتے ہوئے پارلیمنٹ کو تحلیل کرکے نگران حکومت کے حوالے کرجاتے ہیں،اور اسٹبلشمنٹ کے وفادار شخصیات انوار الحق کاکڑ کو نگران وزیر اعظم اور سرفراز بگٹی کو نگرانِ وزیر داخلہ بنایا جاتا ہے۔ان دونوں شخصیات کا تعلق بلوچستان سے ہیں اور دونوں بلوچستان عوامی پارٹی کے حقیقی بانیوں میں شمار ہوتے ہیں جبکہ بلوچستان میں ریاست کے اہم ترین ستون ہیں۔نگران حکومت قائم ہونے کے ایک ماہ بعد ستمبر میں سپریم کورٹ کے نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ بن جاتے ہیں جن کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے۔صادق سنجرانی جو پہلے سے ہی سینٹ کے چیئرمین ہیں اوراُن کا تعلق بھی بلوچستان سے ہے۔ان اہم ترین ریاستی عہدوں میں فائز شخصیات کے ہونے کے باوجود بلوچستان کے عوام کی زندگی میں کوئی موثر تبدیلی نہیں آئی۔آج بلوچستان کے عوام کسپمرسی کے زندگی گزار رہیں ہیں۔تعلیم وصحت جیسی بنیادی ضرورتوں سے عوام محروم ہیں،روزگار نہ ہونے کے وجہ سے نوجوان مایوس ہورہے ہیں،جبکہ چائنہ پاکستان اقتصادی راہداری اور ریکوڈک جیسے منصوبوں کے ذریعے ترقی کے دعویدار حکمران بلوچ سرزمین کو لوٹنے کیلئے قدیم مقامی باشندوں کو اُنکی آبائی زمینوں سے بیدخل کرنے کے لئے ریاستی طاقت کو بے دریغ استعمال کررہے ہیں۔نئے نئے قوانین بناکر ادارہ جاتی نظام کے ماتحت سرکاری مشنریوں کو بلوچ ساحل و سائل کے لوٹ مار کا ھدف دے دیا گیا ہے۔گوادر کے انٹرنیشنل ائیر پورٹ کو “فیروز خان نون”کے نام سے منسوب کرنا اور بلوچستان کے معدنیات کو ہر طرح سے لوٹنے کے لئے عالمی استعماری کمپنیوں کو متوجہ کرنا ریاستی نوآباد یاتی پالیسوں کی واضح ثبوت ہیں۔اس سارے صورتحال کو عملی جامعہ پہنانے کے لئے نگران وفاقی و صوبائی حکومت اور سینٹ و عدلیہ میں متذکرہ شخصیات(انوارالحق کاکڑ، سرفراز بگٹی، صادق سنجرانی اور فائزعیسیٰ) کا اعلیٰ عہدوں پر آنا کوئی اچھونبے کی بات نہیں ہے کیونکہ روز اول سے پالیسی یہی رہا ہے کہ مقامی لوگوں کا استحصال ایسے افراد سے کرایا جائے جوکہ ریاست کو بلوچستان کے اندر جائز و ناجائز ہر طرح کے معاملات میں مکمل معاونت فراہم کراسکیں۔

انہوں نے کہاکہ عام انتخابات برائے 2024؁ء کا باقاعدہ اعلان چیف جسٹس فائز عیسیٰ کے مداخلت کے بعد بالآخر صدر پاکستان اور چیف الیکشن کمشنر نے مشترکہ اعلامیہ میں 08فروری 2024؁ء کو کرانے کا نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے اور پاکستان کے ملکی سیاسی جماعتوں نے زور و شور سے الیکشن کے تیاریاں بھی شروع کردی ہیں۔ جس میں بلوچستان کے اندر ریاستی حکمت ءِ عملی واضح طور پر نظر آرہی ہیں،جسکوبظاہر تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔”پہلے” حصے میں محکمہ شماریات کے ذریعے بلوچستان کی آبادی 15مئی 2023؁ء کو دو کروڑ آٹھ لاکھ(2,8000000) بتایا گیا تھا،جسے بعد میں گھٹا کر 07اگست 2023؁ء کو مردم شماری گزٹ نوٹیفیکشن کے ذریعے ایک کروڑ اڑتالیس لاکھ،چرانوے ہزار اور چارسو (1,48,94,400)کردیا گیا ہے۔”دوسرے” حصے میں سابق وزیر اعظم نواز شریف جوکہ مسلم لیگ (ن) کے صدر بھی ہیں،اُنکو اسٹیبلیشمینٹ کے طرف سے گرین سگنل کا ملنا ظاہر کرتا ہے کہ آنے والی وفاقی حکومت انکی ہوگی۔اس لئے اب باقاعدہ نوازشریف کا اکتوبر کے ماہ پاکستان واپس آنا اور عدالتوں سے ریلیف ملنے کی وجہ سے بلوچستان کے موسمی سیاست دانوں نے نواز شریف کی بلوچستان آمد پر ایک بڑے تعداد میں مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کرنا شروع کردیا ہے،اور بظاہر محسوس ہورہا ہے کہ بلوچستان کی آئندہ صوبائی حکومت مخلوط ہوگی جسکی سربراہی مسلم لیگ (ن) کی جماعت کرے گی، اب “تیسرے “اور سب سے اہم حصے کی تفصیلی وضاحت کرنا ضروری ہے کیونکہ پہلے اور دوسرے حصے کی کڑیوں کا باالواسطہ تعلق اسٹیبلیشمینٹ کے پالیسیاں سوئم جز سے جڑے ہوے ہیں،وہ یہ کہ پاکستان کی معاشی کیفیت کرپشن اور نا اہل بیوروکریسی کے سبب بد ترین حالات سے گزرہے ہیں اور عالمی تنظیموں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ(I.M.F)اور ورلڈ بینک سمیت بیرون ملک کمپنیوں اور دوست ممالک سے بھاری سود کے مدِ میں ماضی کے مختلف ادوار میں قرض لیا گیا ہے جسکے سبب اُنکی ادائیگی نہ کی گئی توریاست کا شیرازہ بکھرنے کا خطرہ سنگین شکل اختیار کرتے ہوئے ملک کے اندر بدترین افراتفری پھیل سکتا ہے۔اس لئے اسٹیبلیشمینٹ کی واضح پالیسی ہے کہ بلوچستان میں موجود معدنی وسائل کو بیرون ملک کمپنیوں اور پاکستان کے دوست ممالک کو بیچ کر ملکی قرضوں کی شدت کو کم کیا جائے،اسی لئے یہ کام مسلم لیگ (ن) کے سربراہ نواز شریف سے بہتر اور کوئی نہیں کرسکتا کیونکہ وہ ایک بااثر پنجابی سیاست دان ہونے کے ساتھ ساتھ ایک کامیاب سرمایہ دار بھی ہیں اور بیرون ملک اثاثاجات ہونے کے وجہ سے اُنکے تعلقات بھی ہیں،اس لئے اب بظاہر لگ رہا ہے کہ بلوچستان کے معدنی و سائل کو لوٹنے کے لیے باقائدہ نوازشریف کو اب اسٹیبلیشمینٹ نے ذمہ داری سونپ دی ہے،اور اسی عہد کی وجہ سے نواز شرف کو ملکی اعلیٰ عدلیہ سے اب ریلیف ملنا شروع ہوچکا ہے،اور نگران حکومت کے جانب سے بھی عدالتوں میں نواز شریف کے خلاف نہ کوئی ثبوت پیش کی جارہی ہے اور نہ ہی کوئی اعتراض اُٹھایا جارہا ہے جبکہ سینٹ چیئرمین صادق سنجرانی بیرون ملک کمپنیوں کو بلوچستان میں معدنیات نکالنے کے لئے مختلف اجلاسوں کی صدارت کرتے ہوئے اُن کو مدعو کررہے ہیں۔لہٰذا واضح دیکھا جاسکتا ہے کہ اسٹیبلیشمینٹ بلوچستان کے اندر اپنے وفاداروں کے ذریعے ٹاؤٹ ان متذکرہ لوگوں (انوارالحق کاکڑ، سرفراز بگٹی، صادق سنجرانی اور فائزعیسیٰ) اور اُن جیسوں کو استعمال کررہی ہے۔

انہوں نے کہاکہ بلوچستان کے عوام کی اکثریت دیہی آبادی پر مشتمل ہیں اور حالیہ اقوام ءِ متحدہ کے رپورٹ کے مطابق ایک مربع کلومیٹر پر 43افراد موجود ہیں۔زیادہ تر لوگوں کا ذریعہ معاش کاشتکاری اور ساحلی علاقوں میں ماھی گیری سے منسلک ہیں۔سرحدی علاقوں میں موجود ایک کثیر تعداد باڈر کے آر پار جاکر اپنے معاش کیلئے بندوبست کرتے ہیں۔اس سب میں حکمران طبقے کی ضرورت ہوتی ہے کہ بلوچستان کے معاشی بہتری کے لئے منڈیوں کا اہتمام کرے تاکہ تیار شدہ فصلوں اور سمندر سے ملنے والی مچھلیوں کی رسائی عام لوگوں تک پہنچائی جاسکے اور کسانوں،زمینداروں اور ماھی گیروں کے لئے بہترین آمدنی کا انتظام ممکن ہوں۔ لیکن بدقسمتی سے اس کے برعکس حکمران اپنے نا اہلی کا ثبوت دیتے ہوئے ان محنت کش طبقوں کے لئے اب تک کوئی کارآمد نظام دینے میں مکمل نا کام ہوچکے ہیں،جس کے سبب نہ ان کو کاروبار کے لئے پنجاب کے کسانوں کی طرز پر “سبسڈی” دی جاتی ہے اور نہ ہی مناسب” بجلی”۔ جبکہ منڈیوں میں موجود دلال ان محنت کشوں کے خون پسینے کا سارا فائدہ لے جاتے ہیں اور کاشتکار اور ماھی گیر کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔اس لئے زمیندار ایکشن کمیٹی نے بلوچستان میں پچھلے دو ماہ سے مسلسل احتجاج کا راستہ اختیار کیئے ہوئے ہیں لیکن ان زمینداروں،کسانوں اور ماھی گیروں کی داد رسی کرنے والا حکمران طبقے میں کوئی موجود نہیں ہے۔

انہوں نے مزید کہاکہ اس سارے صورتحال کا تجزیہ کرتے ہوئے بلوچ کے آواز کو سرکارکی جبر و تشدد اور تقسیم کی پالیسیوں کے تحت دبا یا جارہاہے،جس میں انسانی حقوق کی بدترین پامالیاں شامل ہیں۔جبکہ اب ایک نئی لہر میں اضافہ ہوا ہے کہ باقائدہ نصیر آباد،وڈھ اور دشت گوران سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں قبائلی تصادم شدت اختیار کرتا جارہا ہے جسکی وجہ سے مقامی لوگ نقل مکانی کررہے ہیں اور حکمرانوں کی بے حسی کے سبب بلوچستان کے یہ مفلوک الحال مخلوق در بدر کی زندگی گزار نے پر مجبور ہوگئے ہیں۔ملکی جماعتوں کے پاس بھی کوئی سیاسی روڈ میپ نہ ہے تاکہ بلوچستان کو ان بحرانی حالت سے نکالا جاسکے جبکہ بلوچ قوم پر ست سیاسی جماعتیں بھی بے بس نظر آرہے ہیں کیونکہ ریاست نے طاقت کے سر چشمے کوعوام کی بجائے اسٹیبلیشمینٹ کو بنادیا ہے جو کہ اپنے محدود سوچ کے باعث کبھی بھی اپنے ادارے سے باہر نکل کر اجتماعی اُصولوں پر گامزن جمہوری اُصولوں کو نہیں مانتے ہیں اوریہی وجہ ہے کہ ہر زمانے میں ریاست سولین و ملٹری ڈکٹیٹر شپ کے زد میں رہا ہے۔پارلیمنٹ کی مثال اب صرف ایک شناختی مہرکی ہے جسے محکوم اقوام کو گمراہ کرنے کیلئے اور اُن کے جدوجہد کو مفلوج کرنے کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔
پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی بے لگام ہوتی جارہی ہے اور ریاست کے پاس کوئی چارہ نہیں بچا ماسوائے اس کے کہ بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے سخت ترین شرائط کو مانا جائے،اب پس ءِ پردہ وہ شرائط کیا ہیں وہ کسی کو معلوم نہیں لیکن واضح طور پر دیکھا جاسکتا ہے کہ ریاست نے عالمی معاشی تنظیموں کے سامنے گھٹنے ٹھیک دیئے ہیں،اور آئی ایم ایف کے کہنے پر آئے دن نگران حکومت مہنگائی میں مزید شدت لارہے ہیں۔پچھلے دنوں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان معاہدہ طے ہوگیا ہے،جسکے نتیجے میں پاکستان کو (70)ستر کروڈ ڈالر ملیں گے،نگران حکومت تو دعویٰ کررہی ہے کہ ان رقم کے آنے سے ایکسچینج مارکیٹ ریٹ (پر دباؤ کم ہوگا اور آئندہ چند ماہ میں مہنگائی میں کمی کا امکان کا بھی بتایا جارہا ہے۔لیکن حقیقت پوری دنیا جانتی ہے کہ ریاستی معیشت ایک ایسی جمود کی طرف گامزن ہے جسے کوئی بڑا معجزہ ہی بچاسکتا ہے۔لہٰذا ریاست کے معاشی زوال تیزی سے بڑھتا جارہا ہے اور ملکی حالات بھی اب افراتفری کے جانب جاچکے ہیں۔آئے دن ریاست کے اداروں اور عام عوام پر مذہبی رجعت پسند تنظیموں کے حملے بڑھتے جارہے ہیں،نگران حکومت نے ان حملوں کے پیچھے پاکستان میں مقیم غیر ملکی تارکین وطن بالخصوص افغانوں کو موردِ الزام ٹھہرایا ہے،جہاں اب ریاست اپنی پوری قوت کو استعمال کرکے یکم نومبر2023؁ء سے زربردستی غیر رجسٹرڈ اور رجسٹرڈ افغان باشندوں کو نکال ر ہے ہیں، جبکہ اقوام متحدہ ان غیر ملکی تارکین وطن کے نہ نکالنے پر پاکستان پر دباؤ بڑھاتا جارہا ہے اور افغان حکومت کے ساتھ بھی ریاست کے تعلقات بگڑتے جارہے ہیں۔ہندوستان ازل سے ہی ریاست مخالف رہا ہے جبکہ چائنا کے ساتھ ریاستی دوستی کا دعویٰ ایک طرف جبکہ دوسری طرف امریکہ کے ایماء پر چائنہ کے ساتھ دوستی کے نام پر دغا کرنا روز کا معمول بنتا جارہا ہے جس کے باعث چائنہ نے بھی CPECپر توجہ نہ ہونے کے برابر کردی ہے اور گرم پانی کے رسائی کے لئے چائنہ نے افغان طالبان حکومت کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے لئے باقائدہ افغانستان میں سفارت کاری کیلئے چائینیز ایمبریسی قائم کردیا ہے،جس کے ذریعے وہ افغانستان سے ہوتے ہوئے ایران کے بلوچ شہر بندر عباس تک اقتصادی راھداری بنانے کا منصوبہ بنارہے ہیں۔اگر ایسا ہوجاتا ہے تو چائنہ کو سی پیک کی ضرورت نہیں ہوگا جسکا با الواسطہ اثرات پاکستان کے معیشت پر مزید پڑیں گے۔
عالمی سیاسی صورتحال پہلے سے “یوکرین۔روس” جنگ کے وجہ سے بگڑھ چکا ہے جس میں امریکہ سمیت یورپی یونین ایک ساتھ ملکر روس کے خلاف عالمی سیاسی محاذ آرائی میں مصروف ہیں جبکہ یوکرین پر انسانی
حقوق کے پامالیوں پر روس کے خلاف اقوام متحدہ میں سراپا احتجاج ہیں،لیکن امریکہ اور یورپی یونین کی منافقت بھی پوری دنیا کے سامنے آشکار ہوچکا ہے جب فلسطین کی مذہبی سنی رجعت پسند تنظیم حماس نے
07اکتوبر2023؁ء کو غزہ پٹی سے اسرائیل پر تین طرف سے حملے کرکے پانچ ہزار سے زائد” راکٹ۔میزائل” داغے،جسکے بعد اسرائیل ایک بدمست ہاتھی کی طرح فلسطین کے معصوم اور بے گناہ شہریوں پر بدترین ظلم کی ایک نئی داستان رقم کرتے ہوئے اب تک بین الاقوامی رپورٹ کے مطابق 26ہزار میزائل غزہ پٹی اور مغربی کنارے ویسٹ بینک پر داغ چکے ہیں،اسکے علاوہ اسرائیل فوج نے شمالی غزہ کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کرکے فلسطین کے عوام کو زبردستی بے دخل کررہا ہے اور اپنے بربریت کو بڑھاتے ہوئے غزہ پٹی میں موجود فلسطین کی شہریوں کے مواصلاتی نظام،ہسپتالوں،تعلیمی اداروں اور رہائشی جگہوں کو مکمل برباد کردیا ہے۔ رپورٹس کے مطابق اس ڈیڑھ ماہ میں اب تک 11ہزار کے قریب عام بے گناہ شہری مارے جاچکے ہیں،جن میں بچوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔اسرائیلی بر بریت کے خلاف (57)ستاون مسلم ریاستوں کے تنظیم ـ ــــ ’’ او آئی سی‘‘ نے 12نومبر 2023؁ء کو ریاض میں اجلاس مقرر کرکے حسب روایت خود کو مذمت تک محدود رکھا ہے،اور یہ واضح ہے کہ مسلم ریاستوں نے اپنے مفادات کو دیکھتے ہوئے منافقانہ طرز ءِ عمل اختیار کیئے ہوئے ہیں جوکہ مسلم ریاستوں میں عوامی صفحوں کے اندر مذہبی شدت پسندی کو فروغ دے گا جوکہ کسی بھی طرح عالمی امن کے لئے مناسب نہیں ہے کیونکہ اسرائیل جو خود مذہب کی پیداوار ریاست ہے اور جسکے باعث وہ اپنے صہیونی عزائم کو تکمیل دیتا جارہا ہے اور ایسے صورتحال میں اسرائیل کو فسطائیت سے نہ روکا گیا تو ہوسکتا ہے کہ دنیا ایک نہ ختم ہونے والی جنگ کے طرف مبذول ہوجائے گا اور آج تک انسانوں کو ملنے والی تہذیبوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔

انہوں نے کہاکہ اسلامی کانفرنس اور عرب لیگ کے اجلاسوں کا جونتیجہ نکلا وہ واضح طور پر گیدڑوں کا جھنڈ ثابت ہوچکا ہے جوکہ “نشستدً،گفتندً اور برخاستندً “ے سوا کچھ نہیں تھا۔ او آئی سی کے اجلاس میں غزہ اور مغربی کنارے بے گناہ نہتے فلسطینی شہریوں کی ہلاکت پر صرف تنقید اور اشک شوئی کی گئی جبکہ پس ءِ پردہ دوران ءِ اجلاس بھی عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق اسرائیل کو امداد پہنچانے کے لئے سعودی عرب میں موجود امریکہ کے اسلحہ سے بھرے جہاز “تل ابیب”میں اُتر رہے تھے جبکہ امریکہ یمن کے “حوثی”میزائلوں سے اسرائیل کو بچانے کے لئے سعودی عرب کے سرحد پر ڈیفنس شیلڈ قائم کررہا تھا۔اسی طرح متحدہ عرب امارات سعودی عرب سے بھی دو ہاتھ آگے ہے جوکہ مسلسل امریکی امداد کو اسرائیل پہنچا رہا ہے۔یہی حال ترکی کے وزیر اعظم طیب اردگان،ایران اور آزر بائیجان کے ہیں جوکہ خود کرد، بلوچ،علوی اور آرمینائی اقوام پر بدترین ظلم ڈھا رہے ہیں اور دوسری طرف منافقانہ طرزِ رویہ اختیار کرتے ہوئے خود کو اسرائیل کے خلاف مذمتی بیانات تک محدو د رکھے ہوئے ہیں جبکہ آج بھی ان ممالک کے تجارتی اور سفارتی تعلقات (باالخصوص ترکی،آذر بائیجان) اسرائیل کے ساتھ قائم ودائم ہیں۔ترکی جونیٹو کارکن ہے اور امریکہ کا وفادار بھی ہے اور انکے مرضی کے بغیر وہ ایک قدم بھی نہیں اُٹھا سکتا۔ترکی کی کمزوری کرد اور علوی جوکہ شیعہ مسلک سے ہیں جن کی آبادی نصف حصہ ہیں،ترکی نے طاقت کے زور پر ان علاقو ں اور وسائل پر قبضہ کررکھا ہے،اُسے خدشہ ہے کہ اگر امریکہ ناراض ہوا تو ترکی علاقوں میں موجود کردکے قومی آزادی میں شدت پیدا ہوسکتی ہے۔ یہی صورتحال پاکستان کا بھی ہے جوکہ بلوچ،پشتون اور سندھی اقوام کے محکومی کو برقرار رکھنے کے لئے امریکہ اور عالمی طاقتوں کو خوش رکھنے کے لئے ترکی کے طرزءِ پالیسی پر قائم ہیں۔ یہاں ایک اہم عالمی تبدیلی دیکھنے کو مل رہاہے کہ چائنہ،شمالی کو ریا اور روس نے کھل کر اسرائیل جارحیت پر اظہار کررہے ہیں اور فلسطینی عوام کے خلاف بے گناہ شہریوں کے ھلاکتوں پر سیکورٹی کونسل میں قرار داد بھی پیش کرتے آرہے ہیں،جسے مسلسل امریکہ اور برطانیہ کررہے ہیں۔
سائنسدانوں نے بھی انتباہ کردیا ہے کہ عالمی رجہ حرارت میں اضافے کی رفتار بڑھ گئی ہے،اور 2024؁ء زیادہ بدترین سال ثابت ہوگا۔رواں دہائی کے دوران ہی درجہ حرارت صنعتی عہد سے قبل (یعنی سولویں صدی) کے مقابلے میں 1.5ڈگری سینٹی گریڈ کی سطح سے اُوپر چلا جا ئے گا۔سائنسدانوں نے بتایا کہ خام ایندھن کو جلانے کا سلسلہ جاری ہے اور اس کے نتیجے میں زمین مزید گرم ہونے والی ہے۔اگر دنیا نے خود کو اس سنجیدہ مسئلے کے طرف راغب نہ کیا تو سمندری سطح میں اضافہ ساحلی شہروں کے لئے تباہ کن ثابت ہوگا۔ماحولیاتی تبدیلی ایک عالمی مسئلہ ہے جسکو ایمرجنسی بنیادوں پر حل طلب کرنے کی ضرورت ہے،ہر سال پورے دنیا میں صنعتوں باالخصوص سیمنٹ اور اسٹیل کے فیکٹریوں،گاڑیوں،جہازوں (ہوائی وبحری) اور’’ فوزیل فیولـ‘‘ کے ذریعے بجلی پیدا کرکے آب و ہوا میں 52بلین ٹن ــ ’’ گرین ہائوس گیس‘‘چھوڑرہے ہیں اور ان نکلنے والے ایندھن میں خطرناک کاربن ہے جوکہ باقاعدہ پلاسٹک کے تھیلیوں اور سامان بنانے والے اشیاء میں بھی موجود ہیں،اگر دنیا سیاسی عالمی چپقلیش میں اسی طرح مصروف رہا تو دنیا عالمی ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث 2050؁ء تک ایک خطرناک موڑ پر کھڑا ہوگا،جسے واپس کرنا شدید انسانوں کے لئے نا ممکن ہو۔ جبکہ آخری ایجنڈے میں حالات حاضرہ کو مد نظر رکھتے ہوئے مختلف فیصلے لئے گئے۔