بلوچوں کا مسئلہ کیا ہے؟ ۔ حکیم واڈیلہ

615

بلوچوں کا مسئلہ کیا ہے؟ 

تحریر: حکیم واڈیلہ

دی بلوچستان پوسٹ

کیوں بلوچ ہمیشہ ناراض رہتے ہیں؟ کیوں بلوچوں کی زبان پر ہمیشہ یہ شکوہ رہتا ہے کہ انہیں انکے حقوق نہیں ملتے؟ کیوں بلوچ ہمیشہ احتجاج کرتے نظر آتے ہیں؟ کیوں بلوچ سیاسی ؤ مسلح مزاحمت کرتے ہیں؟ کیوں بلوچ یہ کہتے سنائی دیتے ہیں کہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالیاں کی جارہی ہیں؟ کیوں بلوچ ہمیشہ جبری گمشدگیوں کی داستانیں سناتے ہوئے اپنے پیاروں کی بازیابی کا مطالبہ کرتے ہیں؟

کیوں بلوچ یہ کہتے نہیں تھکتے کہ پاکستانی فوج، فرنٹئیر کور، سی ٹی ڈی، آئی ایس آئی اور ایم آئی سمیت دیگر سیکورٹی ادارے اور نیم فوجی دستے بلوچستان میں فوجی آپریشنز سمیت دیگر انسانیت کو شرمسار کردینے والی جرائم میں ملوث ہیں؟ کیوں بارہا بلوچستان سے یہ صدائیں بلند کی جاتی ہیں کہ بلوچستان کے وسائل وہاں کے معدنیات سمیت بلوچوں کے ساحل سے پنجاب اور اسلام آباد فاہدہ اٹھارہا ہے، جبکہ بلوچ عوام انتہائی غربت اور کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں؟

کیوں بلوچ ہمیشہ پاکستانی ریاست اور عوام کو فلسطین اور کشمیر میں ہونے والی مظالم کیخلاف آواز اٹھاتے وقت یہ طعنہ دیتے ہیں کہ بلوچستان میں جاری نسل کشی اور انسانی حقوق کی پامالیوں میں ملوث ریاست اور ان جرائم پر مجرمانہ خاموشی اختیار کرنے والی اس ریاست کی عوام پر یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ کسی دوسرے ریاست کو انسانی حقوق کی پامالیوں پر جوابدہ ٹھہرائیں یا انسانی حقوق کے دفاع سمیت قومی آزادی اور حق خود ارادیت کا پرچار کریں؟

مندرجہ بالا سوالات اور ایسے بہت سے دیگر سوالات اکثر ؤ بیشتر پاکستانی عوام، سیاست دانوں، صحافیوں، انسانی حقوق کے علمبرداروں، شاعروں، ادیبوں، دانشوروں، اداکاروں، موسیقاروں، کھلاڑیوں اور تقریباً زندگی کے ہر ایک شعبے سے تعلق رکھنے والے انسان سے سُننے کو ملتے ہیں۔ اکثر افراد تلخ لہجے اور الزامات کے بوچھاڑ کرتے ہوئے یہ سوالات کرتے ہیں تو چند ایک افراد نرم لہجہ اور شائستہ زبان استعمال کرتے ہوئے انہی سوالوں کو دہراتے ہیں۔ اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ بلوچستان کے حالات اور واقعات سے پورا پاکستان یا یوں کہیں کہ پنجاب واقفیت نہیں رکھتاہے۔ اس کی بہت سی وجوہات ہوسکتی لیکن جو سب سے بڑی وجہ ہے وہ ہے عدم دلچسپی۔

پنجاب جو کہ پاکستانی سیاست اور اقتدار کا مرکز ہے، جہاں سے پاکستانی سول اور فوجی بیوروکریسی حکومت، عوام، عدلیہ اور میڈیا کی بھاگ دوڑ سنبھالی جاتی ہے۔ انکی نظروں میں بلوچستان کے عوام، وہاں کے لوگ، وہاں بسنے والی بلوچ قوم، انکی زبانیں، انکی شناخت، انکے رسم ؤ رواج، انکا تہذیب کچھ بھی معنی نہیں رکھتا۔ وہ بلوچوں کی زندگی، موت، خوشی، غم انکے حصول تعلیم، ترقی ؤ آزادی سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتے۔ انکی دلچسپیاں صرف اور صرف بلوچستان کی سرزمین سے ہے۔ جہاں سینکڑوں کی تعداد میں معدنیات زیر زمین موجود ہیں تو وہیں ایک ایسا اہم ساحل بھی دستیاب ہے، جو خطے میں پیدا ہونے والی کسی بھی سیاسی حالت میں انتہائی اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔

حقیقت تو یہ ہے کہ بلوچ قوم پاکستانی ریاست سے کوئی امید یا آس لگائے نہیں بیٹھے بلکہ وہ اپنی سرزمین، اپنے وطن، اپنی تاریخی ؤ جغرافیائی حیثیت کی بحالی اور کھوئی ہوئی آزادی کو پھر سے حاصل کرنے کی جدوجہد کررہے ہیں۔ بلوچوں کی سرزمین بلوچستان جس پر گزشتہ پچھتر سالوں سے پاکستانی ریاست نے بزور طاقت اور شمشیر قبضہ جمائے رکھا ہے۔ بلوچ اس قبضے، اس یلغار، اس غلامی کی زنجیروں کو اکھاڑنے کی جدوجہد کررہے ہیں۔

بلوچستان جہاں گزشتہ دو دہائیوں سے ایک سیاسی ؤ مصلح جنگ جاری ہے، اس جنگ کا بنیادی مقصد بلوچستان کی مکمل آزادی اور پاکستانی ریاست اور اس کی فوج کا بلوچستان سے مکمل انخلاء ہے۔ بلوچ قوم اپنی آزادی کی جدوجہد کو مصلح جدوجہد کے ساتھ ساتھ سیاسی طور پر بھی آگے بڑھا رہے ہیں۔ جس کا واضح مقصد بلوچستان کی آزادی کے پیغام کو بلوچ عوام ؤ دیگر محکوم ؤ مظلوم اقوام سمیت اقوام عالم تک پہنچا کر بلوچستان کی آزادی کے جائز اور بنیادی ڈیمانڈ کے تحت مہذب دنیا کو یہ یاد دلانا ہے کہ بلوچستان میں جاری اس جدوجہد کا واضح اور بنیادی مقاصد کیا ہیں، اور ساتھ ہی مہذب دنیا کو انکی زمہ داریاں بھی یاد دلانا ہیں۔

بلوچ قوم کی سیاسی اور مصلح جدوجہد سے خائف ہوکر پاکستانی ریاست نے انہی غیر انسانی اقدام کا سہارہ لیا جو ایک انسانیت سے عاری ریاست سے امید کی جاسکتی ہیں۔ پاکستانی ریاست نے بلوچ قومی آزادی کے فلسفہ پر یقین رکھنے والے سیاسی کارکنان کو اپنی بربریت کو نشانہ بنانا شروع کیا، جو تحریر ؤ تقریر کی سیاست پر یقین رکھتے ہوئے بلوچستان کئ آزادی کی مانگ کررہے تھے۔ پاکستانی ریاست نے بلوچ سیاسی کارکنان کو حراست میں لیکر انہیں عدالت میں پیش کرکے انہیں سیاسی قیدیوں جیسا ٹریٹمنٹ دینے کے بجائے انہیں جبری گمشدگیوں کا نشانہ بنایا، انہیں ٹارچر سیلوں میں رکھا، ان پر انسانیت سوز تشدد کی، انکی مسخ شدہ لعشیں پھینکیں، انکے لعشوں پر تیزاب اور چونا پھینکا تانکہ انکی لعشیں پہچانی نہ جاسکیں۔ بلوچستان میں ایک تشدد کا نہ رکھنے والا سلسلہ شروع کیا جس میں سیاسی کارکنان اور مصلح تنظیموں کے اہلخانہ سمیت علاقہ مکینوں کو اجتماعی سزاؤں کا یہ سوچ کر نشانہ بنایا گیا کہ ان مظالم سے، ان سنگین انسانی حقوق کی پامالیوں سے بلوچ تحریک برائے آزادی کو ختم کیا جاسکتا ہے یا انتہائی کمزور کیا جاسکتا ہے۔

پاکستانی ریاست اور فوج کی پلاننگ اور انکے مظالم نہ صرف بلوچ عوام میں انکے خلاف مزید نفرت پیدا کرنے کا سبب بنا، بلکہ بلوچ عوام اور نوجوانوں میں اپنی سرزمین سے مزید محبت اور بلوچ قومی آزادی کے جدوجہد پر پختہ یقین رکھنے کا بھی سبب بنی۔ آج بلوچستان کی عوام میں پاکستانی ریاست اور اسکی فورسز کیخلاف نفرت انتہاء کو پہنچ چکی ہے۔ بلوچ قوم اس بات کا بخوبی ادراک رکھتی ہے کہ پاکستانی ریاست کا بلوچوں سے رشتہ ایک قابض اور مقبوضہ کا ہے۔ جہاں قابض مقبوضہ سرزمین پر لوٹ مار کا بازار گرم رکھ کر وسائل کی غیر قانونی طور تقسیم کرکے مقبوضہ سرزمین کے عوام کو یہ احساس دلانے کی کوشش کرتا ہے کہ ان میں سیاسی اور سماجی طور اس قدر شعور ہی نہیں کہ خود اپنی مستقبل کا فیصلہ کرسکیں، خود اپنی سرزمیں پر حکمرانی کرسکیں، خود اپنے وسائل اور معدنیات سے اپنی قوم کا مستقبل سنوار سکیں۔ اس کوشش کا مقصد صرف اور صرف غلامی کو مزید طول دینا ہوتا ہے۔

بلوچ قوم پاکستانی ریاست کی مکاریوں اور اس کے علاقائی نمائندگان کے کرتوتوں سے بخوبی واقف ہیں، اور وہ جانتے ہیں کہ بلوچستان کا مسئلہ، بلوچوں کا مسئلہ صرف اور صرف بلوچ سرزمین پر پاکستانی ریاست کا غیر قانونی قبضہ ہے، جہاں ایک تاریخی طور پر آزاد اور خودمختار قوم بلوچ قوم کو غلام بن کر رہنے پر مجبور کیا جارہا ہے۔ اور اس مسئلے کا حل، بلوچ قومی سوال کا حل طلب جواب صرف اور صرف بلوچستان کی مکمل آزادی میں پوشیدہ ہے۔ ایسی آزادی جو بلوچوں کی انکے سرزمین پر ایک خوشحال، پر امن اور پر سکون زندگی کا ضامن ہو۔ جہاں کسی بھی انسان کی سیاسی، سماجی، ذاتی، مذہبی اور قومی آزادی سلب نہ کی جائیں اور تمام انسان اپنی مرضی کے مطابق بغیر کسی روک ٹوک اور خوف کے اپنی زندگی گزارسکیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔