کوئٹہ: جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج جاری

61

کوئٹہ پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی کیمپ آج 5206 ویں روز جاری رہا۔

اس موقع پر بی این پی کے سی سی ممبر شمائلا اسماعیل اور ایڈویکیٹ محمد امین مگسی نے کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جنگ زدہ بلوچ سرزمین پر بھی دیگر لمحات کی طرح دشمن نے ظلم و جبر بدخواہوں کی زہرافشانیوں اور پرامن جدجہد کے متوالوں کی تحریک کو جاری رکھنے کے عزم کے ساتھ 5206 پانچ ہزار دوسو چھ دن کی طویل مدت کے باوجود ظلم جبر کشت خون اور پرآشوب اور کٹھن اور قہر بھرے حالات میں تنظیم کے لواحقین نوجوان صحافی ڈاکٹرز سیاسی کارکن نے تمام تر ڈر اور خوف سے بالاتر ہو کر دشمن اور اسکی حواریوں کی غلط فہمی دور کردی ہے جو یہ چومگوئیاں کرتے نہیں تھکتے تھے۔

انہوں نے کہا کہ وی بی ایم پی کے تنظیم کو یہ اعزاز حاصل ہےکہ وہ 2009 میں اپنے قیام سے لیکر اج تک پرامن غیرجانبداری میں قلیدی قردار ادا کرتے ہوئے لواحقین اور پرامن جدجہد میں روح رواں کے طور پر ابھر کر سامنے آئی ہے۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ آج دنیا اب پوری طرح واقف ہو چکی ہے آج دنیا انکی ایجنسیوں کو ایک ملک کے ذمہ داروں کی حیثیت سے نہیں بلکہ محکوم بلوچ قوم کی نسل کشی ڈیتھ اسکورڈ اور دنیا میں دہشتگردی کا بازار گرم کرنے والے نیٹ ورک کے دوسرے روپ کے طور پر جانتی ہے۔ اس لئے پاکستان کے خفیہ ادارے بلوچ فرزندوں کی جبری اغوا اور مسخ لاشیں پھینکنے میں ملوث ہونے سے اپنی ایجنسیوں کو بری الذمہ قرار دےکر ان کے جرائم پر پردہ ڈال کر عالمی برادری کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی کوشش میں لگنے ہوئے ہیں۔ مگر ریاست پاکستان کے وزیراعظم نے بلوچستان میں اپنی ایجنسیوں کو بلوچ نسل کشی قتل غارتگری چوری ڈکیتی اور جبری اغوا میں کھلی چھوٹ دینے کا اعتراف کرکے یہ بات خود بخود عیاں کردی کہ بلوچ قوم پر ظلم جبر کے قہر ڈھانے میں کوئی ایک ادارہ ملوث نہیں بلکہ ریاستی مشینری سرگرم ہے۔