پاکستان آبادکاری کے ذریعے بلوچستان کی ڈیموگرافی کو تبدیل کرنا چاہتی ہے۔ ڈاکٹرنسیم بلوچ

212

بی این ایم کے چئیرمین ڈاکٹر نسیم بلوچ نے کہا کہ پاکستان بلوچستان پر اپنے جبری قبضے کو طول دینے کی کوشش میں ہے۔اس کے لیے وہ وہ بلوچستان کی ڈیموگرافی کو آبادکاری کے ذریعے تبدیل کرنے کی کوشش کررہا ہے۔قابض ریاست بلوچستان میں وسائل کی لوٹ مار میں تیزی پیدا کر رہی ہے تاکہ خود کو مستحکم کرکے اپنے قبضے کو برقرار رکھ سکے اور بلوچوں میں آزادی کی طلب اور احساس کو ختم کرسکے۔

ان کا خیالات کا اظہار انھوں نے یوم تجدید عہد بلوچستان کی مناسبت سے بلوچ نیشنل موومنٹ یوکے چیپٹر کی طرف سے منعقدہ پروگرام میں کیا۔ہر سال 11 اگست کو بلوچستان کی برطانوی قبضے سے آزادی کی یاد میں یوم تجدید عہد بلوچستان منایا جاتا ہے۔ اس دن بلوچ قوم اپنی کھوئی ہوئی آزادی کو یاد کرتے ہوئے اس کو حاصل کرنے کی عہد کی تجدید کرتی ہے۔

مذکورہ پروگرام میں ڈاکٹرنسیم کے علاوہ بلوچ مورخ ڈاکٹرنصیر کو بھی اس دن کے تاریخی پس منظر پر خطاب کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔

ڈاکٹر نسیم نے مزید کہا پاکستان بلوچستان پر اپنے قبضے کو دوام بخشنے کے لیے بلوچ قوم کو تعلیم اور ترقی کے میدان میں پسماندہ رکھ کر مذہبی انتہاء پسندی کو توسیع دینے کی کوشش کررہا ہے تاکہ بلوچ کی آنے والی نسلیں تعلیم سے بے بہرہ ہوں ، ذہنی اور شعوری نشونماء سے محروم رہ کر آپسی اختلافات کا شکار رہیں اور پاکستانی عزائم کے خلاف کھڑے نہ ہوسکیں ۔بلوچوں کو آپس میں الجھانے کے لیے ریاست قبائلی تنازعات کو بھی ہوا دے رہی ہے۔

ڈاکٹر نسیم بلوچ نے بلوچستان میں سیاسی سرگرمیوں پر قدغن پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اپنے وجود سے لے کر آج تک ریاست پاکستان بلوچ قوم کی سیاسی شعور اور جدوجہد سے خائف رہی ہے۔اس لیے اس نے بلوچستان پر قبضے سے لے کر آج تک ہزاروں بلوچ سیاسی کارکنوں اور رہنماؤں کو قتل کیا، اور ہزاروں جبری جبری لاپتہ کیے ہیں۔بلوچ قوم دوست سیاسی پارٹیوں پر پابندی لگا چکی ہے۔ تاہم وہ بلوچ قوم کے سیاسی سفر کو نہیں روک سکی ہے اور بلوچ پہلے سے زیادہ منظم انداز میں اپنے منزل کی جانب رواں دواں ہیں۔

انھوں نے کہا کہ اپنے مظالم کے باوجود پاکستان بلوچوں کے دلوں سے آزادی کی تڑپ کو ختم نہیں کرسکا اور بلوچ قوم کی طرف سے مسلسل مسلح اور سیاسی مزاحمت کا سامنا ہے۔

اس موقع پر ڈاکٹر نصیر دشتی نے گفتگو کرتے ہوئے کہا 11 اگست کی تاریخ بیان کرنے سے پہلے اس کے پس منظر میں جانا ہوگا کہ ہمیں 11 اگست کو آزادی حاصل کرنے کی ضرورت کیوں پڑی اور ہمیں کن مقاصد کے تحت برطانیہ عظمیٰ نے اپنی غلامی میں دکھیلا اور برصغیر سے برطانوی انخلاء کے بعد کن عزائم کے تحت برطانیہ کی شہہ پر بلوچستان کو نومولود ملک پاکستان کے قبضے میں دیا گیا۔

انھوں نے کہا انیسویں صدی کی ابتدائی دہائیوں میں دنیا پر چند طاقتوں کی اجارہ داری تھی جن میں دو عالمی طاقتیں برطانیہ اور روس سرفہرست تھیں جبکہ فرانس اور اسپین بھی عالمی طاقتوں میں شامل تھیں مگر ان کی اجارہ داری مغرب میں لاطینی امریکہ اور براعظم افریقہ تک تھیں جبکہ برطانیہ کا قبضہ براعظم آسٹریلیاء سے لے کر براعظم امریکہ اور ایشاء میں ہندوستان ان کی اہم کالونی اور منڈی تھی، دوسری طرف روس وسطی ایشیا میں اپنے قبضے کو وسعت دے رہا تھا۔

ڈاکٹر نصیر دشتی نے بلوچستان پر برطانوی قبضے کی پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ ابتداء میں ہندوستان میں برطانیہ نے اپنی سرحد کو دریائے سندھ تک رکھا مگر مغرب میں روسی توسیع پسندانہ عزائم، وسطی ایشاء کی روسی قبضے میں چلے جانے، ہندوستانی سرحد سے چند سو کلومیٹر کے فاصلے پر آنے اور اپنی سب سے منافع بخش کالونی ہندوستان کو کسی ممکنہ روسی حملے سے محفوظ رکھنے کے لیے انھوں نے اپنی فارورڈ پالیسی بنائی جس کے تحت انھوں نے افغانستان کو اپنی کالونی بنانے اور ایک کٹھ پتلی حکمران کے تخت نشین کرانے کے لیے کوششیں شروع کی تاکہ افغانستان کو بطور ایک بفر اسٹیٹ استعمال کیا جاسکے۔اسی مقصد کے تحت انھوں نے افغانستان پر پشاور اور بلوچستان کے راستے یلغار کرکے وہاں قبضہ کیا اور کٹھ پتلی حکمران شاہ شجاع کو دوست محمد کی جگہ حکمران بناکر واپس آگئے جبکہ ایک معمولی سی واقعے کو بہانہ بناکر انگریزوں نے ریاست کلات پر حملہ کرکے خان کلات کو سینکڑوں ساتھیوں سمیت قتل کردیا جس سے بلوچستان کی غلامی کے تاریک دن شروع ہوگئے۔

انھوں نے کہا اسٹریٹجک اہمیت کی وجہ سے انگریزوں نے افغانستان سے متصل بلوچستان کے علاقوں کو برٹش بلوچستان کے نام پر الگ کرکے براہ راست اپنی تسلط میں رکھا جبکہ باقی ماندہ ریاست کلات کو ایک ماتحت ریاست کے طور پر کٹھ پتلی خوانین کلات کے ذریعے چلایا گیا جو مستونگ معاہدے کے بعد اپنی داخلی اور خارجی معاملات چلانے کے لیے تاج برطانیہ کے محتاج تھے۔

ڈاکٹر نصیر دشتی کے مطابق بلوچستان کے مستقبل کو دوسرا جھٹکا اس وقت لگا جب روس میں لینن اور بالشویک پارٹی کی قیادت میں مزدور دوست سوشلسٹ انقلاب برپا ہوا جس کی وجہ سے برطانیہ سمیت دیگر ممالک میں مزدوروں کو ایک امید کی کرن نظر آئی اور انھوں نے اپنی کوششوں کو مزید تیز کردیا۔ اسی سوشلسٹ انقلاب کی خوف سے برطانیہ نے برصغیر سے انخلاء سے پہلے اسے تقسیم کرنے کا خفیہ پلان بنایا۔ اسی پلان کے مطابق انھوں نے مسلمانوں کے لیے ایک الگ آزاد ملک پاکستان بنانے کا فیصلہ کیا تاکہ وہ سوویت روس اور بائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی ریاست ہندوستان کے درمیان بفر اسٹیٹ کا کام کرسکے اور سوویت پھیلاؤ کو روکا جاسکے۔

ڈاکٹر نصیر دشتی نے 1947 کے واقعات پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ جب انگریزوں نے ہندوستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا تب خان آف کلات جو ایک نااہل حکمران تھا کو دیگر بلوچ رہنماؤں نے قائل کیا کہ انگریز واپس جارہے ہیں اس لیے ان سے بلوچستان کی آزادی بات کریں۔بلوچ سیاسی شخصیات کے اصرار پر خان آف کلات نے محمد علی جناح کو اپنا وکیل چنا تاکہ وہ بلوچستان کا مقدمہ لڑسکے، مختلف کوششوں کے نتیجے میں 3 جون پلان کے تحت اور انگریزوں کی اجازت سے خان آف کلات نے ریاست قلات کی آزادی کا اعلان کردیا تاہم وہ برٹش بلوچستان کے علاقے انگریز سے وا گزار کرانے اور بعد میں پاکستان میں شامل ہونے سے نہ روک سکے۔

انھوں نے کہا ریاست کلات 11 اگست کو آزاد ہونے کے بعد مشکل سے نو مہینے آزاد رہنے کے بعد انگریزوں کے خفیہ مقاصد اور ان کی مدد سے نومولود ریاست پاکستان کے قبضے میں چلا گیا جبکہ نااہل خان آف کلات نے کسی بھی سطح پر اپنے ریاست کو بچانے کی کوشش کی نہ انھوں نے اپنے بھائی آغا عبدالکریم خان اور اس کے ہمنواؤں کی مدد کی جو ریاست کلات پر جبری قبضے کے خلاف مزاحمت کرنا چاہتے تھے۔