نیو کاہان کی تاریخ بلوچ مزاحمت کی تاریخ ہے۔ نیو کاہان کانفرنس

285

نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی شال زون کی جانب سے 21 اگست 2023 بروز پیر کو نیو کاہان میں “نیو کاہان کانفرنس” کا انعقاد کیا گیا جس میں نیو کاہان کی زمینوں پر قبضہ ،بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی، اسکولوں کی غیر فعالی اور انسانی حقوق کی پامالیوں کے عنوان شامل تھے جس میں اسٹیج سیکریٹری کے فرائض این ڈی پی شال زون کے آرگنائزنگ کمیٹی ممبر شہزاد بلوچ نے سرانجام دیا۔ اس کانفرنس میں نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی آرگنائزر شاہ ذیب بلوچ ایڈوکیٹ، عمران بلوچ ایڈوکیٹ، آفتاب ایڈوکیٹ، ڈاکٹر صبیحہ بلوچ اور نبی بخش مری کو مدعو کیا گیا تھا جبکہ اہلیان نیو کاہان سمیت مختلف طبقہ فقر کے لوگوں نے شرکت کیا۔

کانفرنس میں مقررین نے اپنے خیالات ک اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں انسانی وجود کو برقرار رکھنے کے لئے بے شمار کانفرنس کا انعقاد کیا گیا ہے سینکڑوں عالمی تنظیموں کا وجود انسانی حیثیت کو برقرار رکھنے کی جدوجہد میں ہیں۔ خود ریاست پاکستان کا آئین بھی ان آرٹیکلز پر کاربند رہنے کا درس دیتا ہے۔ ان آئین کے مطابق ہر انسان کو زندہ رہنے کا حق ہے ۔ یہی آئین ریاست کو ہر انسان کے لئے میٹرک تک تعلیم مفت دینے کا پابندکرتا ہے۔ان کے مطابق جبری گمشدگی اور غیر قانونی گرفتاری کو غیر آئینی اور غیر انسانی عمل قرار دیا ہے اور پابند کرتا ہے کہ گرفتاری کے چوبیس گھنٹے کے اندر عدالت میں پیش کر کے دفع کا موقع دیاجائے۔ بغیر وارنٹ چادر و چار دیوالی کی پامالی سمیت ہر طرح کی گرفتاری پر کو بھی غیر انسانی عمل قرار دیا ہے اور آئین کے مطابق ایسے عمل کرنے والے پر 1 سال قید کی سزا بھی مقرر ہے۔ بولنے اور اظہار خیال کی آزادی بنیادی انسانی حقوق میں شامل میں مگر بلوچ کے لئے تمام آرٹیکلز محض ردی کے برابر ہیں یعنی ریاست نے بلوچ کو انسانی حقوق سے بر ملا بے دخل کر کے اس کے انسانی حیثیت کو ختم کر دیا ہے۔

مقررین نے علاقائی مسائل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پچھلے 33 سالوں سے نیو کاہان کے باسی یہاں زندگی گزار رہے ہیں مگر یہاں اسکول، ہسپتال، پینے کا پانی اور گیس نہ ہونے کے برابر ہے، انتظامیہ بنیادی سہولیات دینے کے بجائے یہاں کے باشندوں کو مختلف ہتھکنڈوں سے ڈرا دھمکا کر زمینوں پر قبضہ کرنا چاہتا ہے، لیکن اہلیان نیو کاہان یہ عہد کر چکے ہیں کہ اپنے خون کے آخری قطرے تک اپنی زمین کی حفاظت کریں گے۔ یہ مسئلہ صرف مری اور نیو کاہان کا نہیں بلکہ پوری بلوچ قوم اور بلوچستان کا ہے، ریاستی اداروں کو صرف یہی زمین چاہیے جہاں نواب مری کا قبر ہے، اس بات سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ریاست کی مانگ صرف یہ زمین نہیں بلکہ نیو کاہان میں جو نظریہ دفن ہے اس کو ختم کرنا ہے۔ اب یہ ہماری قومی زمہ داری ہے کے اس زمین کی حفاظت کریں اور ہم سب کو مل اس کے لئے جدو جہد کرنی چاہئے, ہمارے پاس اور کوئی راستہ نہیں بچا ہے۔

انہوں نے مذید کہا کہ اہلیان نیو کاہان کو سلام پیش کرتے ہیں جنہوں نے زندہ رہنے کے حقوق، اپنے زمین کے دفاع اور انسانی وجود کی خاطر آواز بلند کیا۔ انقلابی رہنما نیلسن منڈیلہ بھی اپنےقبیلے کے سربراہ کی نسل سے تھا جن کا سیاست سے کوئی لینا دینا نا تھا مگر سامراجی رویے نے انہیں غلامی کی زندگی پر سوچنے پر مجبور کیا۔ اس سوچ کی ابتدا بھی اس وقت ہوا جب انہین تعلیم حاصل کی غرض سے قابض سفید فارم کے بنائے گئے اسکول میں داخلہ کروایا گیا۔ جہاں پہلا سبق ہی یہ سکھایا گیا کہ یہ نام جو آپکے قومی تاریخ سے منسوب ہیں اسکی وجہ سے تمھارا جہنم جانا نا گریز ہے اور جاہلانا سوچ اور غیر مہذب نام تبدیل کروایا گیا۔ میٹرک کے بعد جب دوسرے شہرے منتقل کیا گیا تب اس تبدیل کئے گئے نام کو پھر جاہلانا قرار دے کر دوبارہ تبدیل کروایا گیا۔ وکلالت کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد ثقافتی لباس پر بھی یہی رویہ رکھا گیا کہ یہ جاہلوں کے لباس ہیں۔لہذا مہذب دیکھنے کے لئے رہن سہن, لباس و ثقافت کی تبدیلی بھی نا گریز ہے یہاں تک کے کھانے کا انداز کو بھی غیر مہذب قرار دے کر تہذیب یافتہ طریقے سے کھانا کھانے کا طریقہ سکھایا گیا۔ یعنی قابض کی نظر میں آپ سے منسوب آپکی تاریخ، آپکی ثقافت، آپکے ہیروز سمیت آپکی زمین کا خود سے منسوب ہونا بھی غیر مہذب ہے۔ اگر دیکھا جائے تو آج گوادر جو کسی فیروز نون کے نام سے منسوب کرنا جس کا سرے سے اس سر زمین سے کوئی تعلق نہیں، رویہ بھی وہی سامراج سفید فارمی رویہ ہے جو بلوچ کے ساتھ رکھا جا رہا یے۔ اسی رویے کے تحت معمول کی چیزوں کی مطالبے کے لئے احتجاج پر مصروف رکھا گیا ہے، یعنی پانی نہیں احتجاج کرو، بجلی نہیں اسکا بھی حل احتجاج اور گیس و خوراک، تعلیم نہیں تب بھی حل احتجاج سے نکلتا ہے اور اس رویے کا واحد مقصد قومی تحریک کے بجائےروزانہ کی بنیاد پر چھوٹے چھوٹے احتجاجوں میں مصروف رکھنا ہے۔ آج کوئتہ کی سڑکیں دیکھیں تو یہاں ہمیں ملےگا جناح روڈ، لیاقت بازاراور فاطمہ جناہ روڈ ہمیں نظر نہیں آئےگا نواب خیر بخش مری روڈ، اکبر بگٹی روڈ بالاچ مری روڈ کیونکہ آپکے آنے والی نسلوں کے شعور میں یہ بات نا آئے کہ یہ کون ہیں جنکا اس قدر احترام ہے جن کے نام سے یہ تمام علاقے منسوب ہیں۔ نیو کاہان کو قبضہ کرنے کا مقصد بھی اسی رویہ میں چھپا ہوا ہے چونکہ نیو کاہان کی تاریخ بھی بلوچ مزاحمت کی تاریخ ہے اور اس سوال کو شعور سے نکالنا ریاست کے لئے لازم ہے کہ نیو کاہان کا نام کیون نیو کاہان رکھا گیا اور یہاں مری قبائل کیسے آباد ہوئے۔ جب مری قبائل افعانستان سے وطن واپس آئے تو سرکار نے کوششش کیا کہ انہیں کوہستان مری میں آباد کیا جائے کیونکہ یہ لوگ سیاسی ہیں شعور یافتہ ہیں جدوجہد کرنا جانتے ہیں۔ اپنے حقوق کے بارے مین جانتے ہیں اور سیاسی طور پر لڑنا جانتے ہیں تو انہیں مری آباد میں آباد کرنے کا مقصد تھا کہ ان پر دسترس حاصل کیا جا سکے۔ لیکن نواب خیر بخش مری کی دورندیشی نے اسے قید میں رہنے کے مترادف قرار دیا اور چونکہ بلوچ فطرتا پہاڑی ہے تو چلتن کے دامن میں پناہ ڈھونڈ لیا۔ سیاسی جماعتوں نے اپنی دکان چلانے کیلئے اس قومی مسئلہ کو سیاسی مسئلہ بنا دیا ہے، اسی وجہ سے یہ مسئلہ جہاں سے شروع ہوا تھا ابھی تک وہی پہ ہے۔

انہوں نے کانفرنس میں موجود افراد کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ جبری گمشدہ افراد کے اہل خانہ کے لئے ضروری ہے کہ لاپتہ افراد کا کیس ضرور رپورٹ کریں ،اور نیو کاہان کے زمینوں کے مسئلہ کا واحد راستہ احتجاج ہے اور جو آج نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی نے یہ پروگرام رکھا ہے اس کا حل اس طرح کے پروگرامز ہیں کیوں اس نوآبادیاتی نظام میں عدالتیں اس پر انصاف نہیں کر سکیں گی بلکہ آپکے خلاف استعمال ہو کر اگلے ہی دن آپ کو یہاں سے بے دخل کیا جائے گا۔ قومی مزاحمتی سْیاسی عمل سے اس طرح کے منصوبوں کو روکا جا سکتا ہے۔

کانفرنس کے ممبران نے نیو کاہان میں زمینوں پر قبضے کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اس عمل کو انگریزی سامراج کے نظام کا تسلسل قرار دیا جس کی مثال لینڈ ایکوزیشن ایکٹ کا اندھا قانون اب تک بلوچ پر لاگو کیا گیا ہے۔ کانفرنس ممبران نے واضح کرتے ہوئے کہا کہ نیو کاہان کے زمینوں پر قبضہ کرنے کے عمل میں اگر سرکار مداخلت کر رہی ہے تو اس احتجاج کو مذید وسعت دیتے ہوئے ہر فورم پر جدوجہد کریں گے اور اگر سرکاری ادارے اس غیر قانونی قبضے کے عمل میں ملوث نہیں ہیں تو وضاحت کے ساتھ قبضہ گیروں کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے ااہلیان نیو کاہان کے خلاف اس غیر قانون عمل کو روکنے کے لئے فوری طور اقدامات اٹھائے۔کانفرنس کا اختتام نواب خیر بخش مری کے مزار پر حاضری دے کر شہدا کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔