رؤف بلوچ کا قتل بلوچ نسل کشی کا تسلسل ہے۔ ـ بی وائی سی

106

بلوچ یکجہتی کمیٹی کیچ کی جانب سے تربت میں ایک پریس کانفرنس میں کہا گیا کہ بلوچستان و بلخصوص کیچ میں گزشتہ کچھ مہینوں سے جو حالات پیدا کیے جا رہے ہیں اور سماج کے مختلف طبقے بلخصوص بلوچ نوجوانوں کو جن اذیتوں کا سامنا ہے اس سے یہاں رہنے والے اور آپ بخوبی آگاہ ہونگے۔ ایک طرف جہاں کیچ و ملحقہ علاقوں سے اس مہینے جہاں درجنوں طلباء لاپتہ ہوئے ہیں جبکہ سینکڑوں کو مختلف قسم کے مظالم کا سامنا ہے، وہیں اب ریاستی ادارے گزشتہ کچھ دنوں سے حالات کو سنگینی کی طرف لے جا رہے ہیں۔ جہاں کیچ سے اس مہینے سالم، نوشاد اور دیگر کئی طلباء لاپتہ ہوئے ہیں وہاں اب استاد راؤف جیسے باصلاحیت اور باعلم نوجوانوں کا قتل عام کیا جارہا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی مذہبی واقعہ نہیں بلکہ بلوچستان اور بلخصوص کیچ میں گزشتہ کچھ وقت سے ریاست مختلف طریقوں سے نوجوانوں کو نشانہ بناکر انہیں شدید اذیتوں کا شکار بنا رہی ہے۔

انہوں نے کہاکہ تعلیم اور علم سے خوفزدہ اداروں کی جانب سے اس سے پہلے بھی کئی بلوچ نوجوانوں کا نشانہ بنایا گیا لیکن چونکہ وہاں براہ راست ریاست ملوث پایا جاتا ہے اس لیے اب بلوچ نسل کشی کو مختلف طریقوں سے جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ بلوچ سماج بلخصوص کیچ ایک سیکولر علاقہ ہے جہاں ایک طرف مذہبی رواداری پایا جاتا ہے وہیں فلسفہ، ادب، آرٹ، میوزک اور زندگی کے مختلف علم کو عزت دیا جاتا ہے ، جبکہ اختلاف رکھنے والے علمی و سیاسی بحث و مباحثے کے ذریعے ایک دوسرے کو کنونس کرنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن بلوچ سماج کو گزشتہ کچھ سالوں سے ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت مذہبی شدت پسندی کی طرف لے جایا جا رہا ہے، جس کے پیچھے وہی عناصر موجود ہیں جنہیں براہ راست ریاست کی سرپرستی حاصل ہے اور ان کی باقاعدہ فنڈنگ بھی ریاستی ادارے کرتے ہیں۔ بلوچستان میں ریاست مذہب کو ایک کارڈ کے طور پر استعمال کرتی ہے تاکہ بلوچستان میں حالات کو خراب کیا جاسکے ، ریاستی پالیسی کے تحت مذہب کا نام استعمال کرتے ہوئے پہلے بھی کئی باشعور بلوچ نوجوانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے اور بلوچستان میں جب بھی نوجوانوں کی نسل کشی میں تیزی لایا جاتا ہے تو اس میں ایک نام نہاد مذہبی گروپ جو ریاست کے زیر اثر کام کرتے ہیں انہیں ایکٹیو کیا جاتا ہے اور ان سے کام لیکر بلوچستان میں خون کی ہولی کھیلی جاتی ہے۔ بلوچ نوجوان و عوام اس شدت پسندی کے پیچھے ریاستی ڈسکورس سے اچھی طرح واقف رہے اور ہمیں اچھی طرح علم ہے کہ ان عناصر کو ایک سازش کے تحت ایکٹیو کیا جا رہا ہے لیکن بلوچ عوام اپنے نونہال فرزندوں کی شہادت اور اس طرح کے بےرحمانہ قتل و غارت کی کسی بھی طرح اجازت نہیں دینگے اور ہم ان ریاستی پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کا راستہ اپنائیں گے۔

انکا مزید کہنا تھا کہ بلوچستان میں ریاست کی ان پالیسیوں کیلئے کوئی بھی جگہ نہیں ہے ۔ کیچ میں رہتے ہوئے آپ کو بخوبی علم ہوگا کہ یہاں ان گروپس کو ایکٹیو کرنے اور ان کی سرپرستی کرنے والے کون لوگ ہیں اور انہیں باقاعدہ کہاں سے آرڈر ملتے ہیں۔ کیا راؤف بلوچ کو دھمکی دینے و قتل کرنے والے افراد نامعلوم ہیں جن کے خلاف اب تک پولیس سمیت کوئی بھی ایکشن لینے سے قاصر ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ شہید راؤف کو شہید کرنے والے کسی سے بھی پوشیدہ نہیں بلکہ ان کے قاتل کا سب کو علم ہے اور ان کی سرپرستی کوئی اور نہیں بلکہ ریاستی ادارے خود کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے پولیس سمیت سب خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں اور ان کے خلاف کوئی بھی ایکشن نہیں لیا جا رہا ہے، لیکن ہم واضح کر دینا چاہتے ہیں بلوچ عوام اپنے فرزندوں کی شہادت پر کسی بھی طرح خاموش نہیں رہینگے اور ہم سیاسی مزاحمت کا راستہ اپنائیں گے۔ راؤف بلوچ کے قاتلوں کو فوری طور پر زیر حراست میں لیکر ان کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا جائے۔ شہید راؤف بلوچ کے ناروا قتل کے خلاف کل بروز 8 اگست تربت بولان اسکول تا شہید فدا احمد چوک سے ایک احتجاجی مظاہرہ نکالا جائے گا ہم کیچ کے غیور عوام اور بلوچ دوستوں و نوجوانوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ مذہبی شدت پسندی کے خلاف بلوچ نوجوانوں کی جدوجہد کا ساتھ دیتے ہوئے ان کے خلاف علم بغاوت کریں ورنہ آج راؤف کو شہید کیا گیا ہے تو کل کسی اور نوجوان کو اسی طرح کوئی بھی الزام لگا کر شہید کیا جائے گا۔