جنگ اور تھانگی – سفرخان بلوچ (آسگال)

370

جنگ اور تھانگی

تحریر: سفرخان بلوچ (آسگال)

دی بلوچستان پوسٹ

دنیا کی تاریخ جنگی کہانیوں اور داستانوں سے بھری پڑی ہے، ادب اور تاریخ کا ایک بڑا حصہ جنگی داستانوں پر مشتمل ہے۔ جہاں فوجیں اپنے مخالفین کو شکست سے دوچار کرنے کے لئے مختلف طریقہ کار اپناتے ہوئے دیکھے جاسکتے ہیں۔ باقاعدہ دشمن سے روبرو ہوکر لڑا جاتا ہے وہیں جنگوں میں دوسرے حکمت عملیاں بھی اپنائی جاتی ہیں۔ جنگوں میں کامیابی کا ایک اہم ہتھیار جاسوس ہیں اور جنگوں میں جاسوس اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ جنگی طریقوں میں بھی تبدیلیاں آتی گئی ہیں۔ بارود کے دریافت نے جنگوں میں انقلابی تبدیلی لائی۔ جنگ میں تبدیلیوں کے بعد ہتھیار یوں کی اہمیت بھی بڑھتی گئی اور جنگوں میں عدددی برتری کے ساتھ ہتھیار بھی شکست ؤ فتح یابی میں کردار ادا کرنے لگے ۔ پہلی اور دوسری جنگ عظیم میں ملکوں نے ہتھیاروں میں جدت لائی اور جس ملک کے پاس ٹینک ؤ جنگی جہاز زیادہ تھے، اُن کے فتح یابی کے امکان زیادہ ہوتے تھے لیکن قرون وسطیٰ سے آج کے جدید دنیا تک جنگوں میں جاسوس کا کردار اہم رہا ہے۔

جاسوسی کو فوجی فائدے کے لئے استعمال کرنے کی کوششیں پوری انسانی تاریخ میں دستاویزی صورت میں محفوظ ہیں۔ سن زو نے فوجی انٹیلی جنس کے لئے اپنے تنظیمیں ؤ فوجی قوت اور اپنے دشمن کی فوجی طاقت کو سمجھنے کی ضرورت پر زور دیا۔

سن زو نے جاسوسی کے مختلف کرداروں کی نشاندہی کی ہے ۔جدید اصطلاحات میں، ان میں خفیہ مخبر یا ایجنٹ شامل ہیں، (جو دشمن کے رازوں کی کاپیاں فراہم کرتا ہے)، داخلی ایجنٹ (جسے دشمن کے کمانڈروں تک رسائی حاصل ہے) اور غلط معلومات ایجنٹ (جو دشمن کو الجھن میں ڈالنے کے لئے دشمن کو غلط تفصیلات دے کر الجھاتا ہے )۔ سن زو نے منظم تنظیم کی ضرورت پر غور کیا ہے اور کاؤنٹر انٹیلی جنس، ڈبل ایجنٹس ( دشمن کے جاسوسوں کی صفوں سے بھرتی ) اور نفسیاتی جنگ کے کردار کو نوٹ کیا ہے ۔

19 ویں صدی کے آخر میں جاسوسی کے جدید ہتھکنڈے اور وقف سرکاری انٹیلی جنس ایجنسیاں تیار کی گئیں۔ اس پیش رفت کا ایک اہم پس منظر گریٹ گیم تھا۔ گریٹ گیم کا دور وسطی ایشیا میں برطانوی سلطنت اور روسی سلطنت کے مابین موجود اسٹریٹجک دشمنی اور تنازعہ کی نشاندہی کرتا ہے۔

خطے میں روسی عزائم اور ہندوستان میں برطانوی پوزیشن کو لاحق ممکنہ خطرے کا مقابلہ کرنے کے لئے ہندوستانی سول سروس میں نگرانی ، انٹیلی جنس اور کاؤنٹر انٹیلی جنس کا ایک نظام تشکیل دیا گیا تھا، اگرچہ اصل میں استعمال کی جانے والی تکنیک واضح طور پر شوقیہ تھیں۔ برطانوی ایجنٹ اکثر نباتات دانوں یا آثار قدیمہ کے ماہرین کے طور پر ناقابل یقین طور پر پیش ہوتے تھے – پھر مستقبل میں پیشہ ورانہ حکمت عملی اور نظام قائم کیے گئے، جہاں داخلی ؤ غیر ملکی دراندازی اور جاسوسی کے لئے مستقل بیوروکریسی کے ساتھ ایک جدید انٹیلی جنس آلہ تیار کیا گیا تھا۔

1844 کے اوائل میں ہندوستان میں ایک اہم کرپٹوگرافک یونٹ قائم کیا گیا تھا ، جس نے اس علاقے میں روسی مواصلات کو ڈی کوڈ کرنے میں کچھ اہم کامیابیاں حاصل کیں۔

فوجی انٹیلی جنس کا ایک ابتدائی ذریعہ ملٹری اتاشی ( دوسرے ملک میں سفارت خانے کے ذریعے کام کرنے والی سفارتی سروس سے منسلک ایک افسر) کا سفارتی نظام تھا، جو کریمین جنگ کے بعد یورپ میں وسیع پیمانے پر پھیل گیا۔

اگرچہ سرکاری طور پر اُن کا کردار موصول ہونے والی معلومات کو منتقل کرنے تک محدود تھا لیکن جلد ہی انہیں خفیہ طور پر معلومات جمع کرنے، جاسوسوں کو بھرتی کرنے اور جاسوس گروہوں کو چلانے کے لئے بھی استعمال کیا جانے لگا۔

جاسوسی کی دنیا میں مختلف ادوار میں نئی تکنیک اپنائے گئے ہیں، بیسویں صدی میں جاسوسی کے لئے سوویت یونین اور دیگر ممالک نے سیکس کو بطور ہتھیار استعمال کرنا شروع کیا، جسے جاسوسی کی دنیا میں ہنی ٹریپ کہا جاتا ہے۔ جاسوسی میں ہنی ٹریپ کے استعمال کی ایک طویل تاریخ ہے۔

ہنی ٹریپنگ ایک تحقیقاتی عمل ہے جس میں باہمی، سیاسی ( بشمول ریاستی جاسوسی ) یا مالی مقصد کے لئے رومانوی یا جنسی تعلقات کا استعمال شامل ہے۔ ہنی ٹریپ میں کسی ایسے فرد کے ساتھ رابطہ کرنا شامل ہے جس کے پاس کسی گروپ یا فرد کے لئے مطلوبہ معلومات یا وسائل ہیں۔ اس کے بعد ٹریپر ہدف کو ایک جھوٹے تعلقات میں راغب کرنے کی کوشش کرے گا جس کے زریعے وہ ہدف سے معلومات حاصل کرنے کے لئے اثر و رسوخ استعمال کرے گا۔ اس تکنیک کا استعمال زیادہ تر خفیہ معلومات حاصل کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔

پہلی اور دوسرے جنگ عظیم میں آج کی طرح مواصلات نے اتنی ترقی نہیں کی تھی، ان جنگوں میں بڑے پیمانے پر ہنی ٹریپ کے ذریعے معلومات حاصل کئے گئے اور اِن معلومات نے جنگ میں اہم کردار ادا کیا لیکن جنگوں میں ہنی ٹریپ صرف عورتوں کے ذریعے نہیں کئے جاتے بلکہ مرد اور ہم جنس پرست بھی ہنی ٹریپ کا ذریعے بنتے ہیں۔

1960کی دہائی کے اوائل میں ماسکو میں لندن ڈیلی ٹیلی گراف کے نامہ نگار جیریمی وولفینڈن کی مثال لے لیجیے، وولفینڈن ہم جنس پرست تھا اور کے جی بی نے وزارت خارجہ کے حجام کو حکم دیا کہ وہ ہم جنس پرستی کی جانب راغب کرے۔ وولفینڈن کی الماری میں کیمرے کے ساتھ ایک شخص کو قابل اعتراض تصاویر لینے کے لیے بیٹھا دیا گیا اور اِن تصاویر کے ذریعے کے جی بی نے وولفنڈن کو بلیک میل کیا اور دھمکی دی کہ اگر انہوں نے ماسکو کے لئے مغربی ممالک کی جاسوسی نہیں کی تو وہ ان تصاویر کو مشتہر کردیں گے۔

ایف بی آئی کے سابق اسسٹنٹ ڈائریکٹر ولیم سی سلیوان نے یکم نومبر 1975 کو چرچ کمیٹی کے سامنے بیان دیتے ہوئے کہا: “دنیا بھر میں انٹیلی جنس سروسز میں جنسی تعلقات کا استعمال ایک عام عمل ہے۔ یہ ایک مشکل گندا کاروبار ہے اور ہم نے اس تکنیک کو سوویت یونین کے خلاف استعمال کیا ہے۔ انہوں نے اسے ہمارے خلاف استعمال کیا ہے۔

دنیا کے مشہور رقاصہ ماتا ہری جاسوسی کی تاریخ میں سب سے مشہور ہنی ٹریپ کے کردار جانے جاتے ہیں۔ پہلی جنگ عظیم کے دوران فرانسیسیوں نے اسے جرمنوں کے لئے جاسوسی کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا جس کی بنیاد ٹیلی گرام کے ذریعہ اس بات کی دریافت تھی کہ اسپین میں جرمن ملٹری اتاشی اسے رقم بھیج رہا تھا۔

فرانسیسیوں نے دعویٰ کیا کہ جرمن افسر کے ذریعے وہ فرانسیسی فوج کے رازوں کو جرمن افواج کے سامنے افشاں کررہے ہیں۔ ماتا ہری نے یہ راز ممتاز فرانسیسی سیاست دانوں اور افسران کو دھوکہ دے کر حاصل کیے تھے۔ مقدمے کی سماعت کے دوران ماتا ہری نے اپنا بھرپور دفاع کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہ جرمن اتاشی کی مالکن ہیں اور وہ انہیں تحفے بھیج رہے ہیں لیکن ان کے دلائل ان کے ججوں کو قائل نہیں کر سکے۔ وہ 15 اکتوبر 1917 کو فائرنگ اسکواڈ کے ہاتھوں آنکھوں پر پٹی باندھنے سے انکار کرتے ہوئے گولیوں کا نشانہ بنائی گئیں۔

انٹیلی جنس کی تاریخ میں سب سے بڑا ہنی ٹریپ کا جال مشرقی جرمن جاسوس مارکس وولف کی تخلیق تھا۔ 1950 کی دہائی کے اوائل میں وولف نے تسلیم کیا کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران شادی شدہ جرمن مرد بڑی تعداد میں ہلاک ہوئے اور زیادہ تر جرمن خواتین ملازمتوں میں بڑے پیمانے پر برتی ہوئے۔ جرمن حکومت، تجارت اور صنعت کے اعلیٰ عہدوں پر اکیلی خواتین کی راج تھی، جو آسانی سے ہنی ٹریپ کے جال میں آسکتے تھے۔ ولف نے مشرقی جرمنی کی سکیورٹی سروس اسٹاسی کا ایک خصوصی محکمہ قائم کیا اور اس میں سب سے خوبصورت اور ذہین افسران موجود تھے۔ وہ انہیں “رومیو جاسوس” کہتے تھے۔ ان کا کام مغربی جرمنی میں گھسنا، طاقتور، غیر شادی شدہ خواتین کو تلاش کرنا، ان کے ساتھ تعلقات قائم کرنا اور ان کے ذریعے سے خفیہ رازوں تک رسائی حاصل کرنا تھا۔

رومیو جاسوسوں کی بدولت، اسٹاسی مغربی جرمن حکومت اور صنعت کے اعلیٰ سطح تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا اور ایک اہم مرحلے پر مشرقی جرمن کے خفیہ ادارے نیٹو کے مغرب میں جوہری ہتھیاروں کی تعیناتی کے بارے میں بھی معلومات حاصل کرچکے تھے۔ اسٹاسی کے جاسوس نے خواتین کے ذریعے مغربی جرمن چانسلر ہیلمٹ شمٹ کے دفتر میں سیکریٹری بننے کے لیے اپنے رابطوں کا استعمال کیا۔

ہنی ٹریپ کے جال میں پھنسنے والوں کو یہ معلوم ہی نہیں ہوتا کہ انہیں دھوکہ دیا جارہا ہے، 1997 میں جرمنی میں ہنی ٹریپ کا انکشاف ہوا تو اس میں شامل ایک خاتون نے یہ ماننے سے انکار کر دیا کہ اسے دھوکہ دیا گیا ہے، یہاں تک کہ جب ثبوت پیش کیے گئے تو ایک خاتون نے یقین سے کہا کہ۔ ”نہیں، یہ سچ نہیں ہے،” اور اس نے اصرار کیا کہ “وہ واقعی مجھ سے محبت کرتا تھا۔

ہنی ٹریپ کی تکنیک کو دنیا کے سارے خفیہ ایجنسیوں نے اپنایا ہے، سنہ 1986 میں اسرائیل کی دیمونا جوہری تنصیب میں کام کرنے والے ایک اسرائیلی ٹیکنیشن موردیچائی وانونو نے برطانوی اخبارات میں یہ دعویٰ کیا تھا کہ اسرائیل نے ایٹم بم تیار کر لیے ہیں۔ اسرائیل نے اس کو نشانہ بنانے کے لئے ہنی ٹریپ کے تکنیک کو استعمال کیا، وہ جال میں پھنس جاتا ہے اور اپنی محبوبہ کے ساتھ سیر تفریح کے لئے روم چلا جاتا ہے۔ روم میں وانونو کو موساد کے ایجنٹ اغوا کرتے ہیں اور اٹلی سے بحری جہاز کے ذریعے اسرائیل منتقل کیا جاتا ہے جہاں اس پر غداری کا مقدمہ چلایا گیا۔ وانونو نے 18 سال جیل میں گزارے اور جس میں 11 سال قید تنہائی بھی شامل ہے ۔ سنہ 2004 میں اس کو رہا کردیا گیا۔

چین بھی امریکہ میں اسی تکنیک کا استعمال کرچکا ہے، ایف بی آئی نے 2015 میں سوولویل کو “دفاعی بریفنگ” دی، جس میں اسے مطلع کیا گیا کہ کرسٹین فینگ نامی لڑکی ایک مشتبہ چینی ایجنٹ تھا۔ اس نے دو وسط مغربی شہروں کے میئرز کے ساتھ تعلقات قائم کئے تھے جو یا تو جنسی یا رومانوی نوعیت کے تھے۔

حالیہ سالوں میں ہنی ٹریپ کے تکنیک کو پاکستان بڑی تیزی کے ساتھ استعمال کررہا ہے، پاکستان کے حوالے سے سامنے آنے والے کیسز کے مطابق پچھلے کئی سالوں سے پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اس تکنیک کو استعمال کرتے ہوئے ہر سال پندرہ سے بیس بھارت کے سیکیورٹی اور میزائل پروگراموں سے وابستہ آفیسروں کو نشانہ بنا چکا ہے۔

ہنی ٹریپ کے ذریعے پاکستان نے انڈیا کے میزائل پروگراموں تک رسائی حاصل کی ہے۔ ڈیفنس سے وابستہ ڈی آر ڈی او کے ایک انڈین سائنس دان کو نشانہ بنایا گیا، انڈین اداروں کے مطابق مذکورہ سائنس دان کو حراست میں لیا ہے تاہم حراست سے پہلے پاکستان اس سائنس دان سے لاتعداد حساس راز حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔

انڈیا کے متعلق ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق صرف تین سال کے دوران صرف ڈی آر ڈی او سے نو اعلی آفیسر ہنی ٹریپ کے جال میں پھنس چکے ہیں، اس کے علاوہ مختلف اداروں میں کام کرنے والے پندرہ سے بیس افراد کو ہر سال ہنی ٹریپ کا نشانہ بنایا جارہا ہے ۔

جولائی کی مہینے میں ایک کیس منظر عام پر آیا جہاں انڈین وزارت خارجہ میں کام کرنے والے ایک شخص کو نشانہ بنایا گیا تھا زیادہ تر کیسز میں ایک چیز یکساں ہے انہیں سوشل میڈیا فیس بک یا وٹس ایپ کے ذریعے نشانہ بنایا گیا ہے، کہا جاتا ہے کہ اس وقت جی ایچ کیو میں باقاعدہ فور این فور آئی این ٹی کے نام سے ایک ڈپپارٹمنٹ میجر جنرل کے ایک عہدہ دار کی سربرائی میں دوہزار اکیس سے قائم ہے۔

ہنی ٹریپر بڑے مہارت سے کام کرتے ہیں جہاں زیادہ تر خود کو صحافی یا ریسرچرل پیش کرتے ہیں اور ان کے پاس جعلی ویب سائیٹ اور نقلی دستاویزی موجود ہوتے ہیں۔ وہ ٹارگٹ کرنے سے پہلے اُس شخص کے حوالے سے تحقیق کرتے ہیں اور تمام پہلوں کو جانچنے کے بعد سوشل میڈیا کے ذریعے نشانہ بناتے ہیں۔

پاکستان اس تکنیک کو انڈین کے خلاف استعمال کررہا ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اسی تکنیک کو وہ بلوچ آزادی پسندوں کے خلاف استعمال کررہا ہوگا ۔

جاسوسی کے حوالے سے جہاں سن زو نے جو تکنیک بتائے ہیں ان میں دو تکنیک کے استعمال کے شواہد بلوچ آزادی کی جنگ میں شامل مسلح تنظیمیں کی کاروائیوں سے ملتے ہیں۔ کراچی میں چینیوں پر فدائی حملہ کو بطور مثال لے لیجئے۔

مجید برگیڈ کے جاسوس چینیوں کے مومنٹ کو ٹریپ کرنے میں کامیاب ہوئے کہ وہ کہاں سے اور کیسے آتے ہیں، کس گاڑی میں سوار ہیں، یا اُن کی سکیورٹی پر کتنے اہلکار مامور ہیں اور مصدقہ معلومات کے بعد چینیوں پر بڑا حملہ کرنے میں کامیاب ہوئے ۔

اسی طرح ہم حالیہ تربت حملے کی مثال لے سکتے ہیں کہ مجید بریگیڈ کیلے جاسوس، پاکستان فوج کے بریگیڈیر کے قافلے کے معلومات حاصل کرلیتے ہیں جس کے بعد وہ بریگیڈیر کے قافلے میں اُس گاڑی کو نشانہ بناتے ہیں جس میں بریگیڈیر اور میجر سوار ہیں۔

زیارت کے واقعہ کو ہم بی ایل اے کے انٹلی جنس ونگ کی کامیابی قرار دے سکتے ہیں کہ وہ پاکستان فوج کے کرنل لئیق بیگ کو ٹرپپ کرکے گرفتار کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

دو دہائی سے جاری بلوچ انسرجنسی میں بھی مختلف مراحل پر پاکستان نے بلوچ تنظیموں میں جاسوسوں کے ذریعے گھسنا کی کوشش کی ہے ۔ دو ہزار تیرہ کو شفیق مینگل کے خاص کارندے عرفان گرگناڑی بی ایل اے کے کیمپ میں رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوا لیکن بروقت پکڑا گیا جس سے تنظیم کو نقصان پہنچانے میں ناکام رہا۔ اسی طرح بی ایل ایف کے رہنماؤں کو نقصان پہنچانے کے غرض سے پاکستان کے جاسوس بی ایل ایف کے کیمپ تک رسائی حاصل کرتے ہیں لیکن بروقت پکڑے جانے کی وجہ سے نقصان دینے میں کامیاب نہیں ہوسکے تھے لیکن ایسے بھی واقعات ہوئے ہیں جس میں پاکستان کے جاسوس بلوچ تنظیموں کو نقصان سے دوچار کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔

پاکستان کے دو جاسوسوں نے بی آر اے کے کیمپ تک رسائی حاصل کی اور بی آر اے کے اہم کمانڈر ماما بگٹی کو قتل کرنے میں کامیاب ہوئے ۔ اسی طرح جاسوس بی این اے کے کیمپ تک رسائی حاصل کرکے وہاں ڈرون حملے کروانے میں کامیاب ہوئے جس سے بی این اے کے اہم کمانڈر مارے گئے۔

پاکستان کی ایجنسیز بلوچ آزادی پسندوں کے خلاف جاسوسی کے تمام تکینکس کو بروکار لا رہے ہیں ۔ بلوچ مسلح تنظیمیں ان جاسوسی کے تکنیکس کو کسطرح استعمال کرینگے یہ اُن کی قابلیت پر منحصر ہے لیکن آج جب بلوچ مسلح تنظیم فدائی حملے کررہے، وہیں انہیں جاسوسی کی مختلف ذریعوں پر بھی دھیان دینا چاہیے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔