بلوچ طلباء ملک بھر میں مختلف طرح کے مشکلات سہہ رہے ہیں۔بی ایس سی

62

بلوچ اسٹوڈنٹس کونسلز کی جاری کررہ ایک پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ پنجاپ کے مختلف اداروں میں گزشتہ کئ سالوں سے بلوچستان کے طلباء کے لیے پرامن و مؤثر فلیٹ فارم کی صورت موجود ہیں۔ جو بلوچ طلباء کے آئینی حقوق کے حصول کے لئے ہر ممکن کوشش کرتے آ رہے ہیں۔ یہ علم و عمل کے اصولوں کو مانتے ہوئے شعوری ارتقاء کے راہ پر گامزن ہیں۔ لیکن اس ترقی یافتہ دنیا میں اتنا کافی نہیں، ہم چاہتے ہیں کہ ہمارے ہونہار طالب علم دنیا کے باقی ترقی یافتہ قوموں کی طرح سیاسی اور شعوری طور پر اپنے لوگوں کیلئے میدان میں موجود رہیں اور اپنی زمہ داریوں پر بخوبی اُتریں۔ مگر چونکہ ایک خیال کو عملی جامہ پہنانے کے لئے اوّلین ضرورت ایک منظم ساخت کی ہوتی ہے۔ اگرچہ انفرادی طور ہر کونسل اپنے آپ پر آنے ولے تمام زمہ داریوں کو بھر پور سرانجام دے رہا ہے مگر اس چیز کو مزید مستحکم بنانے کے لئے اجتماع کی ایک خلاء محسوس ہوئی جس کو مدنظر رکھتے ہوئے پنجاب بھر کے تمام بلوچ سٹوڈنٹس کونسلز نے 10 جون 2023 کو مشترکہ طور ایک طویل دیوان کے بعد وقت کی ضرورت کو مد نظر رکھتے ہوئے اس عمل کو ضروری سمجھا کہ بلوچ طلباء کو اس دور میں پیش آنے والے مشکلات کے حل کیلئے مشترکہ طور تمام کونسلز کا ایک اجتماعی پلیٹ فارم تشکیل دیا جائے۔


انہوں نے کہاکہ ‎اس شعوری پلیٹ فارم کو تشکیل دینے کا مقصد پنجاپ کے اداروں میں بلوچ طالب علموں کی آواز بننا ہے۔ جس طرح آپ سب کے علم میں ہے کہ گزشتہ کئ سالوں سے بلوچ طالب علموں کو تعلیم سے دور رکھا جارہا ہے ان کو مختلف طریقوں سے جامعات کے احاطے میں ہراساں کیا جارہا ہے۔ اس غیر یقینی صورتحال کی ایک مثال جامعہ پنجاپ یونیورسٹی کے ہاسٹل سے جبری طور پر لاپتہ ہونے والے بیبرگ امداد کی ہے جو کہ بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل کے پرامن احتجاج کے بعد رہا کر دیا گیا تھا۔گزشتہ کئ دہائیوں کے تجربے سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا کہ بلوچ طلباء ملک بھر میں مختلف طرح کے مشکلات سہہ رہے ہیں جیسا کہ قومیت کی بنیاد پر کیمپسز اور ملک بھر میں ریشنل پروفائلنگ، اسی بنا پر کبھی لاپتہ کیا جاتا ہے یا تو ان کیلئے تعلیمی دروازے بند کر دئے جاتے ہیں۔ طلباء ذہنی بیماریوں کا شکار ہوتے جا رہے ہیں جس کی وجہ سے وہ اس خطے، اپنے قوم اور وطن کیلئے کوئی مثبت قدم اٹھانے سے رہ جاتے ہیں، جو کہ ایک سنگین مسئلہ ہے۔ طلباء کے خاندان اور عزیز و اقارب بھی اس جڑے مسئلے کا شکار ہو رہے ہیں، اور وہ بھی اس کرب کا شکار ہیں۔

‎بیان میں کہا گیا ہےکہ بلوچ طلباء ہر آنے والے سال اپنی مختص سیٹوں کی حق کیلئے سڑکوں پر احتجاج کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ مگر شومئی قسمت کہ آدھے سے زیادہ سیٹیں پھر بھی انتظامیہ کی نااہلی کی وجہ سے خالی چلی جاتی ہیں، یا سیٹوں کو سفارشات کے زریعے امیر لوگوں میں روپیوں کی عوض بیچ دئیے جاتے ہیں یا اپنے من پسند لوگوں میں بانٹ دئیے جاتے ہیں۔ اس کی مٽال ڈاریکٹریٹ آف بلوچستان کی ہے جو کہ ہر سال اپنی من مانی میں کئ سیٹوں کو ضائع کر دیتی ہے مگر بلوچ طلباء طالبات کیلے پارلیمنٹ سے لیکر عام سرکاری افسر تک کوئی آواز بلند کرنے یا انصاف دینے کی جرّت نہیں کرتا، اور کئی ہونہار طلباء کا مستقبل داؤں پر لگ جاتا ہے۔ صوبائی و فیڈرل انتظامیہ کا بلوچ طلباء کے ساتھ رویہ انتہائی ناقابل برداشت ہوتا جارہا ہے کہ طلباء جب ان سے اپنے حقوق کا مطالبہ کرتے ہیں تو ان کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی اور طلباء اپنے حقوق کیلئے در در کی ٹھوکریں کھا رہے ہوتے ہیں ۔یہ اور ان سے جڑے کئ مسائل کا حل انفرادی طور پر بہت مشکل ہے اور کونسلز اپنی حد تک پچھلے دس بارہ سالوں سے ان مسائل کے حل کیلئے کوشاں ہیں اور کافی حد تک مسائل کو حل بھی کر دیا ہے مگر اب چونکہ سیاسی و تعلیمی پالیسیوں میں کئ تبدیلیاں آچکی ہیں تو ہمیں بھی اپنے اتحاد کو مضبوط کرنا ہوگا تاکہ ہم اجتماعی طور پر یک آواز ہوکر اپنے حقوق کیلئے جہد کریں۔

انہوں نے کہاکہ ‎بلوچ طلبہ کی حق تلفی و ان پر ڈھا جانے والے مظالم کسی سے پردہ پوش نہیں بلکہ واضع عیاں ہیں۔ اور یہ سلسلہ کئی دہائیوں سے برقرار ہے اگرچہ اپنی اشکال تبدیل کر کے ہر دور میں نئے حربے کی صورت آزمایا گیا ہے مگر اس کی پس منظر ایک ہی رہی ہے بلوچ کو علم و عمل شعور و آگاہی سے دور رکھا جائے۔ یہ سلسلہ بلوچ طلبہ کی جبری گمشدگی سے لیکر انکی ماوراۓ عدالت قتل سے ہوتے ہوہے پروفائلنگ و ذہنی ٹارچر تک آئی ہے۔ کبھی مختص نشتوں میں کمی واقع کی جاتی ہے چونکہ اجتماعی مسائل کا با ثمر حل ہر وقت اجتماعی جد و جہد سے ہی ممکن رہا ہے۔ ہم دیکھتے آ رہے ہیں کہ ہر ادارہ اپنی اسطاعت کے مطابق کوشاں ہے مگر یہ تنھا آوازیں اتنی مؤثر نہیں جو حاکمِ وقت کے بہرے سماعتوں کو چھوئیں۔ بلوچ اسٹوڈنٹس کے مسائل کو ہر وقت حقیر و غیر ضروری تصور کیا جاتا ہے جس میں نہ پارلیمانی سیاستدان دلچسپی لیتے ہیں نہ ہی عدلیہ۔ مگر کب تک ہم یوں ہی بکھرے رہیں گے اور انفرادی قوت پر انحصار کرتے رہیں گے جو حکامِ اعلٰی کے سامنے کوئی خاص حیثیت نہیں رکھتی لہٰذا ہم وقت کی نزاکت کو سمجھیں اور اسی حساب سے اپنے لئے لائحہ عمل تیار کریں۔ عہدِ حاضر ہم سے اس اجتماع کی خلاء کو پُر کرنے کے طلبگار ہیں جو کہ پنجاب میں موجود بلوچ کونسلز نے اس کمی کو دور کرنے کی راہ میں ایک آغاز بلوچ اسٹوڈنٹس کونسل پنجاب چیپٹر کی صورت میں لے لیا ہے۔ مزید اپنی آواز کو مؤثر و مضبوط بنانے کے لئے اس اجتماع کی اہیمت و افادیت کو سمجھ کر اسے تا ابد برقرار رکھنے کی ضرورت ہے جو ہم سب کی زمہ داری ہے۔ یقیناً یکمشتی و اتفاقی ہر دور میں کامیابی کا ضامن ہے تو ہمیں چائیے کہ اپنے اداروں کے ساتھ مخلصی کا اظہار کریں اور انہیں مستحکم و مضبوط بنانے کی ہر کوشش کریں کیونکہ یہی ادارے ہیں جو ہمیں جوڑے رکھتے ہیں ہمارے آواز کو منظم و بااثر بناتے ہیں۔ آخر میں اپنے تمام ساتھیوں سے التماس کرتے ہیں کہ یہ محض ایک آغاز ہے اس پلیٹ فارم سے ہم تب مستفید ہوسکتے جب ہم اس کو اسی طرح مخلصی و مستقل مزاجی سے اپنا فرض سجمھ کر برقرار رکھیں اور اس شعوری و علمی جنگ میں اپنی کردار ادا کرتے رہیں۔