افغانستان پر سمرقند میں اجلاس: شرکا نے امریکہ سے متعلق کیا کہا؟

336

افغانستان اور اس کے ہمسایہ ملکوں کے سمر قند میں ہونے والے اجلاس میں ملک کو درپیش مسائل کے حل کے لیے ٹھوس سفارشات سامنے نہیں آسکیں۔ لیکن ماہرین کے مطابق خطے کے ممالک نے اس پلیٹ فارم کے ذریعے افغانستان کے حالات کی ذمے داری امریکہ اور اس کے اتحادیوں پر ڈالنے کی کوشش کی۔

وی او اے کے مطابق ایک وسطی ایشیائی سفارت کار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ “سمرقند میں منعقدہ کانفرنس میں امریکہ کو ایک ایسے غیر ذمہ دار کردار کے طور پر پیش کیا گیا جس نے دو دہائیوں تک افغانستان کو تباہ کیا اور اب اس نقصان کی تلافی کرنے سے انکار کر رہا ہے۔”

مذکورہ کانفرنس میں افغانستان، چین، روس، ایران، پاکستان، تاجکستان اور ترکمانستان کے نمائندوں نے شرکت کی۔

امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے خلاف تنقید کی ایک جھلک روسی وزارت خارجہ کے ٹیلی گرام چینل پر نظر آئی جس میں کہا گیا کہ شرکا نے “اس بات پر زور دیا کہ امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں کو ان کی 20 سالہ فوجی مہم کے نتائج کے لیے جواب دہ ہونا چاہیے جس نے افغانستان کو اس کی موجودہ سنگین حالت میں پہنچایا ہے۔”

روسی وزارت خارجہ نے کہا کہ جنگ کے بعد افغانستان کی تعمیر نو کے لیے مغربی ممالک کو اجتماعی طور پر بنیادی اخراجات کا بوجھ اٹھانا چاہیے۔

ماسکو نے مغربی اداروں کے پاس افغانستان کے قومی اثاثوں کو فوری طور پر غیر منجمد کرنے کا مطالبہ کیا اور کہا کہ ایسا کرنا افغانستان میں انسانی بحران کے حل کے لیے خاص طور پر اہم ہے۔

روس نے “امریکہ اور نیٹو کی افغانستان کے پڑوسی ممالک کی سرزمین پر اپنے فوجی انفراسٹرکچر کو تعینات کرنے کی کوششوں کی “ناقابل قبول” ہونے کا حوالہ دیا۔

کانفرنس کے میزبان ازبکستان نے اپنے بیان میں امریکہ پر براہ راست تنقید سے گریز کیا لیکن اس نے انسانی امداد کی فراہمی اور افغانستان کی معیشت کی بحالی کے لیے مشترکہ میکنزم کی ضرورت پر زور دیا۔

ازبکستان نے کہا کہ اجتماع کے دوران تمام فریقوں نے طالبان کی جانب سے عالمی برادری کو کرائی گئی یقین دہانیوں کا جائزہ لیا۔ ان میں افغانستان میں جامع حکومت کی تشکیل، افغان خواتین کو کام کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کا مواقع فراہم کرنا اور اقلیتوں کے حقوق کو یقینی بنانا شامل ہیں۔

ازبکستان افغانستان کو وسطی ایشیا کا ایک اٹوٹ حصہ سمجھتا ہے اور اسے وسطی اور جنوبی ایشیا کو جوڑنے کے لیے اپنے جیسے خشکی میں گھرے ملک کے لیے تجارتی راستوں کے لیے اس کی کلیدی حیثیت کو تسلیم کرتا ہے۔

ایرانی وزیرِ خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے امریکی خارجہ پالیسی کے لیے تہران کی مخصوص نفرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مغرب کو “اس ملک میں کئی دہائیوں کی تباہی کی ذمہ داری قبول کرنی چاہیے اور اس کی تلافی کرنی چاہیے۔”

امیر عبداللہیان نے واشنگٹن پر “افغانستان کے جنوب اور شمال میں داعش اور دیگر دہشت گرد اور انتہا پسند گروہوں کی حمایت اور رہنمائی” کا الزام بھی لگایا۔ داعش نے طالبان کے قبضے سے پہلے اور بعد میں افغانستان میں دہشت گرد حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔

کانفرنس میں شریک پاکستان کی وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ افغان عوام کی مدد کرے۔ انہوں نے افغانستان کو تنہا چھوڑنے اور اس کے مسائل کو پڑوسیوں کو منتقل کرنے کی پالیسی پر بھی تنقید کی۔

حنا ربانی کھر نے افغانستان کے لیے انسانی امداد بڑھانے کی ضرورت پر زور دیا۔ انہوں نےکہا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ان پالیسیوں کا از سر نو جائزہ لیا جائے جو عبوری افغان حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کی افادیت پر سوال اٹھاتی ہیں۔

خیال رہے کہ درحقیقت مغربی حکومتوں نے افغانستان میں امدادی سرگرمیوں میں شمولیت جاری رکھی ہوئی ہے جب کہ اس امداد کو طالبان انتظامیہ کی براہ راست فنڈنگ کے بجائے بین الاقوامی تنظیموں کے ذریعے فراہم کیا جا رہا ہے۔

امریکہ کا کہنا ہے کہ اس نے اگست 2021 سےانخلا کے بعد اب تک 1.1 بلین ڈالر سے زیادہ کی انسانی امداد فراہم کی ہے۔

اقوام متحدہ کے تقریباً 4,000 ملازمین بھی افغانستان میں کام کر رہے ہیں جو بنیادی طور پر امدادی سرگرمیوں پر کام کر رہے ہیں۔ ہر چند کہ حال ہی میں طالبان کی جانب سے عالمی ادارے کی افغان خواتین ملازمین کے کام کرنے پر پابندی کے حکم کے بعد کام معطل کر دیا تھا۔

جہاں تک چین کا تعلق ہے تو فورم کے آغاز سے قبل بیجنگ نے افغانستان کے ارد گرد کے ممالک او بین الاقوامی برادری کے ساتھ مل کر مسائل سے دو چار ملک کی مدد کرنے کی بات کی تھی۔ بیجنگ نے امریکی صدر جو بائیڈن کی انتظامیہ سے افغانستان میں “اپنے وعدوں پر عمل کرنے” کا مطالبہ بھی کیا۔

چین کے وزیر خارجہ کن گینگ نے کانفرنس کے بعد صحافیوں کو بتایا کہ افغانستان سے امریکی انخلا کئی سطحوں پر ناکامی ہے۔ کن نے الزام لگایا کہ امریکہ کی افغانستان میں 20 سالہ فوجی موجودگی امن قائم نہیں کر سکی۔

چینی سفارت کار نے افغانستان کےسات بلین ڈالر کے مالیاتی ذخائر کی واپسی کا بھی مطالبہ کیا جو گزشتہ سال طالبان کے اقتدار پر قبضے کے فوراً بعد امریکہ نے منجمد کر دیے تھے۔

صدر جو بائیڈن نے بعد میں افغانستان کے نصف ذخائر جاری کرنےکی اجازت دی اور باقی کو نائن الیون کے متاثرین کے لیے جاری قانونی چارہ جوئی کے لیے چھوڑ دیا تھا۔

یاد رہے کہ افغانستان میں دو دہائیوں تک جاری رہنے والے تنازعہ کے دوران امریکی حکام کہتے رہے ہیں کہ امریکہ نے ملک میں نائن الیون کے حملوں کے بعد افغانستان میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں کئی ارب ڈالر خرچ کیے اور ہزاروں جانیں بھی دیں۔

اس کےساتھ ساتھ افغانستان میں جمہوریت کے فروغ پر بھی توجہ دی جب کہ امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امن کا قیام تمام ملکوں کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔