کوئٹہ: مٹھا خان مری کو بازیاب کیا جائے۔ اہلیہ

155

بلوچستان کے مرکزی شہر کوئٹہ میں جبری گمشدگیوں کے خلاف پریس کلب کے سامنے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کا احتجاجی کیمپ آج 4999 ویں روز جاری رہا۔

بلوچستان کے علاقے مچھ، بولان سے سیاسی و سماجی کارکناں جاوید بلوچ، محبوب بلوچ اور دیگر نے آکر لواحقین سے اظہاریکجہتی کی۔

اس موقع تین سالوں سے جبری لاپتہ مٹھا خان مری کی اہلیہ اور دیگر لواحقین نے بھی شرکت کی۔

انہوں نے اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ مٹھا خان کو بازیاب کیا جائے وہ بیگناہ ہیں، اگر ان پہ کوئی الزام ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم انتہائی پریشان ہیں، گھر کا واحد سہارا چھین لیا گیا ہے، خدارا اسے بازیاب کیا جائے اور ہمیں سکون سے جینے دیا جائے –

انہوں نے کہا کہ مٹھا خان کے دو بچے اپنے والد کے بغیر شدید پریشان ہیں ان بچوں کے والد کو منظر عام پر لا کر ہمیں انصاف فراہم کیا جائے۔

تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ مادر وطن بلوچستان کے سینے کو چھیر کر شہداء بلوچستان سے جنم لینے والے نوجوان بچے بزرگ اپنے ماں کی آرزو اور بقاء کی خاطر گولیوں سے چھلنی بدن کے ساتھ فکر نظریہ کی خاطر دھرتی ماں کے لیے ماں کی آغوش میں ہمیشہ کے لیے سو گئے۔

ماما قدیر بلوچ نے کہا کہ آج بھی پاکستان کے زرخرید قاتلوں کے ہاتھوں مفلوج ہوکر زندگی و موت کی کشمکش میں مبتلا ہونے کے باوجود بلوچ نوجوان اپنی قومی سوچ پر قائم دائم ہے، نوجوانوں بزرگوں خواتین کی بلوچ قومی سیاست میں واقعی ایک کردار ماضی سے لے کر آج تک رہا ہے اور اب بھی ہے۔ لیکن کردار کے ساتھ ساتھ پاکستان کی پرورش کردہ کالی بھیڑیوں نے اپنا گناونا کردار ادا کیا۔ وہ سیاسی گند جو آج تک صاف نہیں ہو رہی۔ ساتھیوں کی محنت اور دوستوں کی قربانیوں اور حالات کے مثبت اثرات کے بدولت تنظیم نے کسی حد تک سابقہ منفی رویوں اور رحجانات پر قابو پا لیا ہے تنظیم کے بارے میں دوسرے لوگوں کی رائے اور تنقید کا ٹھنڈے دل سے احترام کرنا ہوگا۔ اچھے اصلاح مشوروں اور خیالات کو اپنانا ہوگا۔ بشرط نیک نیتی مخلصی اور عملی کردار کار فرما ہو۔