شبِ برات کا رسم کہاں سے کیسے آیا اور ساتھ میں کیا لایا؟ ۔ مولوی اسماعیل حسنی

409

شبِ برات کا رسم کہاں سے کیسے آیا اور ساتھ میں کیا لایا؟ 

تحریر: مولوی اسماعیل حسنی

دی بلوچستان پوسٹ

ہمارے بیشتر عقائد و نظریات پر کسی نہ کسی دور کے سیاسی حالات و واقعات کی آمیزش اور اقتدار کی رسہ کشی کے چھاپ غالب نظر آتی ہے۔ مثلا آج ہم شب برات کو لیتے ہیں، پھر اس سے جنم لینے والے چند مخصوص عقائد کا جائزہ لیتے ہیں، ان عقائد سے خدا کی ذات سے متعلق تصور پانے والے افکار پر غور کرتے ہیں، ان افکار سے ماخوذ سیاسی نظریات اور نظریاتی اسباب کی مبادی ابحاث پر ضمنی طور پر ایک سرسری نگاہ ڈالتے ہیں۔

ہماری جتنی بھی تفسیر و روایات اور تاریخ کی کتابیں مرتب و مدون ہوئے ہیں، یہ سب عباسی دور میں ہی ہوئے ہیں۔ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے نزولِ قرآن سے لیکر عباسی دور تک مسلمانوں کے پاس قرآن کے سوا کوئی کتاب نہیں۔ یہاں تک کہ بخاری شریف (جو حدیث کی سب سے بڑی کتاب سمجھی جاتی ہے) کا موجودہ نسخہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ٹھیک ڈھائی سو برس بعد مرتب ہوئی ہے۔ باقی کتابیں اس کے بھی بعد۔

اب عباسی دورِ حاکمیت میں کیا ہوا کہ بنو امیہ کی حکومت کی جڑیں کھودی گئی، جڑ کھودنے میں اہم کردار ایران کے ان نو مسلم مجوسیوں کا رہا جن کی مذہبی رنگ آمیزیوں سے امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد ”تذکرہ“ میں بھی شکوہ کناں ہیں۔ یہ جب مسلمان ہوئے تو اقتدار کی رسہ کشیوں کی وجہ سے مسلم حکمران ان کے عقائد کی اصلاح کےلیے مناسب تعلیم کا انتظام نہ کرسکے۔ نتیجتاً یہ پرانے عقائد کے ساتھ ہی مملکت کے ہر شعبے میں داخل ہوتے ہوتے چھا گئے۔ جن میں سب سے زیادہ ان کے مولوی حضرات (جنہیں مجوسی مذہب میں برامکہ کہا جاتا تھا) پیش پیش تھے۔

ایران کے مجوسی (جنہیں قرآن میں صابئین کہا گیا ہے اور آج کل پارسی اور آتش پرست کے نام سے جانے جاتے ہیں) مسلمان تو ہوگئے لیکن اسلام لانے کے بعد بھی وہ قدیم اعتقادی تصورات پر جمے رہے، نہ صرف جمے رہے بلکہ ان کےلیے اسلام میں بھی نظیریں تلاش کرکے یہاں بھی وہی تصورات ایڈجسٹ کرکے ان کی تبلیغ و اشاعت کرتے رہے۔ تدوینِ کتب کے اس دور میں جہاں عرب کے نومسلم یہود و نصاری کے ہاتھوں روایتیں وضع ہورہی تھیں وہیں کے وہیں نومسلم مجوسیوں کے ہاتھوں کئی فرسودہ عقائد و مذہبی رسومات کو بھی اسلام کا چادر اوڑھا کر جگہ دی جانے لگی۔ ان ہی عقائد میں سے ایک عقیدہ تقدیر سے متعلق مجوسی تصور بھی ہے اور اس کی ضمن میں شب برات کی ایڈجسٹمنٹ بھی۔

ویسے تقدیر کا عقیدہ تو تمام مذاہب میں مشترکہ طور پر پایا جاتا ہے لیکن اسلام میں یہ عقیدہ زیادہ پیچیدہ نہیں اور نہ ہی قدیم مذاہب کی طرح طے شدہ منصوبہ کا درجہ رکھتا ہے بلکہ قرآن میں تقدیر کا تذکرہ قدر سے ہے اور قدر کا معنی پیمائش، پیمانہ اور اندازہ، تقدیر کو بطور قسمت جو معانی پہنائے گئے ہیں یہ بنیادی طور پر اسلامی عقیدہ نہیں بلکہ سیاسی اسباب کے تحت اسلام کے اندر ایک نو زائیدہ فکر اور سیاسی نظریہ ہے۔

جیسے شروع میں عرض کیا گیا کہ عباسی حکومت کے قیام میں سب سے اہم کردار اہل فارس کا رہا۔ اہل فارس نو مسلم مجوسی تھے۔ تقدیر سے متعلق ان کا خاص الخاص عقیدہ یہ تھا کہ سارے معاملات اللہ نے پہلے سے طے کردیا ہے۔ یہ عقیدہ یقینا صریح اسلام مخالف عقیدہ ہے، اسلام میں انسان کو صاحبِ اختیار تسلیم کیا گیا ہے، اس کو اپنے اختیار کے عوض جزا و سزا کا مستحق مانا گیا ہے۔ اسلام میں قانونِ مکافات عمل ہے۔ اس مجوسی عقیدہ کے رو سے تو انسان مجبور محض بن جاتا ہے، جس کا معنی یہ ہوگا کہ جو کچھ ہورہا ہے خدائی اسکیم کے تحت ان کی مرضی و منشا کے مطابق ہورہا ہے۔ جب کہ انسان مجبور نہیں اور نہ ہی اس کی کوئی مستقل فطرت ہے۔

انسان حیوان کی طرح مجبور نہیں، اس لیے اس کی کوئی مستقل فطرت بھی نہیں، مثلا حیوانات میں جو جانور گھاس کھاتے ہیں وہ گوشت نہیں کھا سکتے اور جو درندہ نما حیوان گوشت کھاتے ہیں ان کی فطرت میں گھاس کھانا نہیں، انسان گوشت بھی کھاتا ہے اور ساگ کی شکل میں گھاس بھی۔ یعنی اس کو کوئی مستقل فطرت نہیں بلکہ وہ صاحب اختیار ہے۔ انسان کے مقابلے میں حیوان صاحب اختیار نہیں یہی وجہ ہے کہ کسی انسان کو کوئی کتا کاٹے یا سانپ ڈسے، وہ اس کتے اور سانپ کے خلاف کسی عدالت میں رٹ پٹیشن دائر نہیں کرتا۔ حیوان کے مقابلے میں انسان ہے جنہیں اپنے الفاظ کے چناؤ اور استعمال میں بھی جوابدہ ہونا پڑتا ہے۔

عباسی حکومت میں نو مسلم مجوسی مولویوں نے جب تقدیر کے اس تصور میں اسلام کی پیوندکاری کر رہے تھے تو ان کے پیش نظر کچھ سیاسی اسباب بھی تھے۔ وہ یہ کہ بنوامیہ سے اقتدار چھن جانا اور بنو عباس کو حکومت کا مل جانا اس عقیدہ کی رو سے یہ خدا کا طے شدہ منصوبہ اور پروگرام تھا اس میں کوئی خارجی عنصر شامل نہ تھا۔ پہلے جو ظلم ہوتے رہے اور اب جو مظالم ہوں گے، یہ سب خدائی اسکیم کے مطابق اسی طے شدہ منصوبہ کی تحت ہوں گے۔ ہم تو محض تقدیر کے ہاتھوں مجبور ہیں، یوں ان نظریات کے حامل ایک نئے فرقہ نے جنم لی، جسے علم الکلام کی کتابوں میں جبریہ کا نام دیا گیا ہے۔ اس کے مقابلے میں ایک اور فرقہ نے سر اٹھالیا جسے قدریہ کہا جاتا ہے۔ غرض یہ کہ اسلام میں فرقے سیاسی اسباب کے تحت پیدا ہوئے ہیں خواہ قدیم فرقے ہوں یا جدید۔ خود شیعہ اور خوارج بھی ایک دوسرے کی ضد میں سیاسی اسباب ہی کے پیداوار ہیں۔

مجوسیوں کے اس طے شدہ تقدیری عقیدے کی روشنی میں شب برات کو نہایت اہمیت حاصل ہے، شب برات فارسی زبان کا لفظ ہے، شب معنی رات اور برات معنی قسمت، یعنی تقسیم کی رات، اس رار کو مردے حاضر ہوتے ہیں، قسمتیں بدلتی ہیں، آنے والے سال کےلیے خدائی قوانین وضع ہوتے ہیں، یوں خیر و خیرات اور نت نئے لذیذ کھانوں کی رسمیں ایجاد کی گئی ہیں۔ عقائدی لحاظ سے یہ رات خدائی منصوبوں سے متعلق بالکل یوں ہے جیسے کہ کسی ریاست کا سالانہ بجٹ ہوتا ہے کہ اگلے سال حکومت کس شعبے میں ڈویلپمنٹ کا کیا ارادہ رکھتی ہے اور کس فیلڈ کو بجٹ میں حصہ نہ دینے کا فیصلہ کرتی ہے۔

متذکرہ عقیدہ کی روشنی میں شبِ برات کو اقوام و افراد کے آئندہ سال کے سارے حالات و واقعات منظور و منضبط ہوتے ہیں، جب کسی عقیدہ و نظریہ کو سرکاری پشت پناہی حاصل ہوجائے تو رعیت آنکھیں بند کرکے اسے قبول نے لگتی ہے، پچھلوں کا عمل اگلوں کےلیے رسم اور اس سے اگلوں کےلیے عقیدے کی شکل اختیار کرلیتی ہے، پھر یہ عقیدہ اس نسل کے رگ و ریشے میں یوں سرایت کرجاتی ہے جیسے کہ خون کی گردش۔ پھر اس عقیدہ و نظریہ کی تصحیح و اصلاح مشکل ہی نہیں ناممکن معاملہ بن جاتا ہے۔ اب جب عباسی سرکار میں مبادی علوم کی انسانی ہاتھوں سے جو کتابیں مدوّن ہورہی تھیں تو اس عقیدے کےلیے ان میں جگہ پانا کوئی مشکل مسئلہ نہ تھا۔ چنانچہ اس کےلیے اب سند کی صورت میں سہارے تلاش کی جانے لگیں۔

تقدیر کے متذکرہ بالا تصور کو فروغ دینے اور شب برات کو اسلام میں ایڈجسٹ کرنے کےلیے جب سند تلاش کی گئی تو اس کےلیے سورہ دُخان کی تیسری اور چوتھی آیت کو بآسانی دلیل بنادیا گیا۔ مزے کی بات ہے کہ اس کی پہلی آیت یعنی تیسری آیت میں رات کا تذکرہ بھی ہے اور دوسری آیت یعنی سورۃ کی چوتھی آیت میں حکم کا لفظ بھی، جسے قسمت و مقدر کا معنی پہنایا گیا کہ نزول قرآن ہی اس رات (یعنی 15 ویں شعبان کی شب) کو شروع ہوگیا تھا۔ جب کہ اس تصور کی زبردست تردید خود قرآن کی واضح اور صریح آیت سے ہوتی نظر آرہی تھی کہ قرآن تو رمضان میں ہی نازل ہونا شروع ہوگیا تھا تو اس کےلیے ایک اور کہانی گھڑ لی گئی۔

شب برات کو اسلام جگہ دینے کےلیے قرآن کی نزول کو اس کے ساتھ خاص کیا گیا۔ جب بات بنتی نظر نہیں آرہی تھی تو کہا گیا کہ جی اس رات کو پہلے آسمان پر نازل ہونا شروع ہوگیا یہاں تک کہ رمضان آگیا اور پھر رمضان میں پہلے آسمان سے زمین پر نازل ہونے لگا۔ لوجی دونوں باتیں ثابت اور وہ بھی قرآن کریم ہی سے۔ اندازہ کیجیے کہ عقیدہ تقدیر کو بدلنے اور نئے عقیدے کو ایڈجسٹ کرنے کےلیے قرآنی مفہوم کو کیسے بدل دیا گیا۔

قدیم مذاہب میں عرش و سماوات سے متعلق جو تصورات تھے ان عقائد کی برکت سے وہ بھی مشرف بہ اسلام ہوکر ہمارے ہاں ایک ایک کرکے دَر آتے گئے جنہیں عقل و فطرت اور جدید علم فلکیات اور سائنس و ٹیکنالوجی بھی نہیں مانتی۔

قدیم مذاہب میں آسمانوں سے متعلق یہ نظریہ تھا کہ پہلا آسمان شیشے کا ڈل ہے جس یاقوت، زمرد، موتی جڑے ہوئے ہیں، اس کے اوپر آسمان فلاں چیز کی بنی ہے، اس کے اوپر آسمان فلاں چیز کی، یوں سات آسمان بناتے ہیں، یہ سب آسمانیں الگ الگ جنس سے ہیں، ہر آسمان کے درمیان 500 میل کی مسافت بھی ہے۔ ساتویں آسمان کے اوپر سمندر ہے اور سمندر میں پہاڑیاں بکریاں ہیں اور ان پہاڑی بکریوں کی سینگوں پر عرش الہی کا استواء ہے اور عرش کے اوپر خود خالقِ کائنات براجمان ہے ایک عقیدہ تقدیر سے کتنے عقائد بدل رہے ہیں، خدا کےلیے جہت و مکانیت کا اثبات سمیت کئی خرابیاں لازم آگئے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں