خضدار بک اسٹال، مجبوروں کا الم ۔ سبزو جان

226

خضدار بک اسٹال، مجبوروں کا الم

تحریر: سبزو جان 

دی بلوچستان پوسٹ

‘دی رانگ اینمی’ کتاب کی مصنفہ امریکن صحافی ایک بات درست فرماتے ہیں کہ پاکستانی ملٹری اینٹلیجینس نے میڈیا سمیت ہر چیز کے لئے ایک سرخ لکیر Red line کھینچی ہے ۔ اگر کسی نے بھی دانستہ و غیردانستہ طور پر اس ریڈ لائن کو عبور کرنا چاہا تو وہ بھیانک نتائج کا سامنا کرسکتا ہے۔ وہ فیملی بلیک میلنگ کا شکار ہوسکتا ہے، ٹارگٹ کلنگ کے زریعے مارا جاسکتا ہے، جبری طور پرگمشدہ ہوسکتا ہے یہاں تک کہ اسکے بچوں کو تکلیف پہنچا کر اسے سزا دی جاسکتی ہے۔ اس بات کی درستگی کے بیشتر واضح شواہد موجود ہیں۔ آج کی نسل کو اگر ان شواہد تک رسائی نہ ہو یا تاریخی صفحوں کو آنکھ بند کرکے آگے پیچھے پلٹیں تاہم انکو ریاست کے مظالم ماحول کے ارد گرد shaped ملینگے۔ کیونکہ قبضہ گیر کی پہچان colonial structure (کالونیل ڈھانچہ)کی بنیاد پر ہوتی ہے۔

جس بھی قوم پر بیرونی سامراج و قبضہ گیر اپنی کالونیل ڈھانچہ بچھا دیتے ہیں، اس میں تمامتر نوآبادیاتی پالیسی، کاونٹر انسرجنسی پالیسی، نوآبادیاتی نفسیات، نوآبادیاتی ہتکھنڈے پریکٹیکلی موجود ہوتے ہیں جنہیں سمجھنے کیلئے کسی تھیورسٹ کو پڑھنے کی ضرورت نہیں۔ ریاستی ظلم و جبر کا، پنجاب کے رہنے والے ماسٹر ڈگری ہولڈرز کے پاس بھی مابعدنوآبادیات پہ اتنا مشاہدہ موجود نہیں ہوگا جتنا شاید بلوچستان کا ایک matriculated اسٹوڈنٹ ان تمامتر مشاہدات پہ گھنٹوں تک بات کرسکتا ہے۔ کیونکہ بلوچ پیدائش سے ہی ریاستی جبر کا شکار ہوجاتا ہے۔ اُس پر نوآبادیاتی ہتکھنڈے استعمال ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بلوچ اِن تمامتر نوآبادیاتی حربوں کو اپنی حواس خمسہ sense perception سے محسوس کرتا ہے، غور فکر کرتا ہے۔

مشاہدات کے بعد ان درندہ صفت کی باآسانی پہچان کرسکتا ہے۔ اس لئے بعض اوقات بلوچ کے بچوں کو شواہد اکٹھا کرنے ماضی میں جھانکنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ مصنفہ صحافی کے کہنے سے قبل ہی اس سرخ لکیر کے بارے میں بلوچ جانتا ہے ۔ لکیر کھینچنے والے عناصر کے مقابل ہونے سے قبل اس کے نتائج کا ادراک رکھنے کے باوصف وہ اپنی ذمین، قومی تشخص، آزادی کےلئے مزاحمت کرتا ہے جو اُن کا اپنی دھرتی سے مہر و محبت کا ثبوت ہے۔ یہ لوگ ہمیشہ پاکستانی قبضہ گیریت کے خلاف صف اول کھڑے ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس ریاستی ڈھانچے، ریاستی اداروں کو تسلیم کرکے انکے ساتھ کام کرنے والے گروہ کے زبان پر ہمیشہ یہی رٹ قائم ہوتا ہے ” جی ! ہم کچھ نہیں کرسکتے ہیں ہم مجبور ہیں، جی ! ہم کرنا چاہتے ہیں لیکن اوپر (کینٹ) سے اجازت نہیں ہے۔ ہم گر کچھ کریں تو اوپر سے تنگ کیے جاتے ہیں” وغیرہ۔

لاپتہ افراد کے لواحقین میں سے کچھ کا کہنا ہے کہ ہم نے اختر مینگل سے ملاقات کے دوران اپنے پیاروں کی بازیابی کے لئے مدد کی اپیل کی تو اختر مینگل نے واضح الفاظ میں اپنی بے بسی کا اظہار کیا کہ “اگر وہ (اختر مینگل) کچھ کرسکتا تو اپنے بھائی یا بی این پی کے گمشدہ کارکنان کو بازیاب کرواتا لیکن وہ کچھ نہیں کرسکتا، وہ اپنی بے بسی کا اظہار کرچکے ہیں۔ یا جبری طور پر لاپتہ افراد کے لئے پولیس تھانہ میں FIR کرنے کی غرض سے جب لواحقین جاتے ہیں تو انہیں کہا جاتا ہے کہ ہم FIR نہیں کاٹ سکتے، ہمیں اوپر (کینٹ) سے دھمکی دی جاتی ہے۔ اسی طرح وہ FIR درج نہیں کرتے۔ یہ بات خضدار کے نوجوان اچھی طرح جانتے ہے کہ قائد اعظم یونورسٹی کے طالبعلم حفیظ کے جبری گمشدگی کے خلاف مسلسل 20 دن تک پولیس تھانے کا چکر کاٹنا پڑا وہ FIR نہیں کرسکتے تھے، پولیس با اختیار نہیں ہے۔ ان تمامتر باتوں سے ایک چیز مکمل واضح ہے کہ ملٹری ایجنسیز کا ہر ادارہ پر مکمل قبضہ ہے انکے احکامات کے علاوہ ایک مکھی تک اپنی جگہ بدل نہیں سکتا۔ ڈپٹی کمیشنر ، اسسٹنٹ کمیشنر ، جج ، ڈاکٹر ، وزیر اعظم سب بے بس ہیں۔ اسی لئے بلوچ نینشل مومنٹ کے چیرمین غلام محمد بلوچ کہتے رہے کہ اس ریاست اور اس کے اداروں کو ہم تسلیم نہیں کرتے، اسکے خلاف جنگ کا اعلان بھی کیا۔ جبکہ بلوچ گوریلا رہنما شیر محمد مری پاکستانی پارلیمانی سیاست کو ترک کرکے نو سال تک مسلح مزاحمت کرتا ہے۔ نواب خیر بخش مری اپنی ذندگی کی سب سے بڑی غلطی پاکستانی پارلیمانی سیاست کو قرار دیتے ہیں۔ کیونکہ یہ لوگ بخوبی جانتے تھے کہ فوجی جرنیل ہی اس بات کا تعین کرتے ہیں کہ کون وزیراعظم بنے گا، کون صدر اور ایسی ریاست کو تسلیم کرنا گناہ کبیرہ ہوسکتا ہے۔

بلوچ طلبہ کے سرکلز میں سب سے زیادہ پڑھا جانے والا دانشور صورت خان مری بھی اس امر کا اظہار کرچکے ہیں۔ ابھی دیکھنا یہ ہوگا کہ نوآبادیاتی عہد میں تیسری لائن موجود ہوتا ہے؟ یہ لوگ جو اپنی مجبوریوں کی داستان سناتے ہیں، ریاستی اداروں کو تسلیم کرکے انکے اندر کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں، بجائے مزاحمت کا راستہ اختیار کرنے کے، ان لوگوں کے دانست کے مطابق وہ Neutral ہیں۔ یعنی مزاحمت کا راستہ ترک کرچکے ہیں اور قبضہ گیر ظلم و ستم کے خلاف خاموش ہوکر اپنی نارمل زندگی گزارہے ہیں، اور دوسرا مزاحمت کا راستہ اختیار کرکے پاکستانی قبضہ گیریت کے خلاف ہے۔ زاتی طور پر میرے نزدیک دو ہی راستے ہیں۔ ایک وقت میں آپ مزاحمت کے راستے پر ہیں، مزاحمت سے مراد کسی بھی طریقہ سے جہد کا حصہ بننا۔ دوسرراستہ یہ کہ دشمن کے صفوں میں شامل ہیں ۔ کیونکہ آپ کا چپ رہنا، خاموشی، قبضہ گیر کے پنجے مزید مستحکم کرتا ہے، آپ کی خاموشی کی وجہ سے وہ طاقتور ہوتا جاتا ہے۔ اسکی قبضہ گیریت کو oxygen مہیا ہورہا ہے۔ اس تناظر میں آپ دشمن کے صفوں میں شامل ہیں نہ کہ تیسری لائن میں ہیں۔ اس لئے مجبوریوں کی داستان سنانے کے بجائے کسی بھی طرح بلوچ مزاحمت کا حصہ بن کر پاکستانی قبضہ کو کمزور کرنے کی کوشش کریں، نہ کے تیسری لائن ڈھونڈتے پھریں۔

بہرحال اوپر بیان کئے گئے باتوں کو خضدار میں کتب میلہ کا انعقاد کرنے والے طلبہ کئی جگہوں پر دیکھتے ہونگے ۔ کتب میلے سے قبل تیاریاں اور اچانک ڈرا دھمکا کر بند کروا دیا۔ سب سے پہلے اسٹال کو خضدار میں دین محمد لائبریری کے سامنے لگانا چاہا۔ وہاں اسسٹنٹ کمیشنر نے طلباء کو اسی لئے نہیں چھوڑا کہ یہ سرکاری ذمین ہے، ہم یہاں بک اسٹال کی اجازت نہیں دے سکتے۔ وجہ پوچھنے پر اسسٹنٹ کمشنر نے صاف الفاظ میں بیان کیا کہ ہم مجبور ہیں، اوپر سے منع کیا گیا ہے، ہم کچھ نہیں کرسکتے، کسی دوسرے جگہ بک اسٹال کا انتظام کریں ۔ جب بک اسٹال کا انتظام کیا گیا کہ گورنمنٹ بوائز ماڈل اسکول میں انعقاد کیا جائیگا ، بک اسٹال سے ایک روز قبل اسکول پرنسپل نے طلباء کو منع کردیا۔ وجہ وہی معلوم ہوا کہ ہم مجبور ہیں۔ ہم اور آپ (طلباء) سب کچھ جانتے ہیں کہ کس نے منع کیا ہوگا ۔ پھر طلباء نے بازار میں بک اسٹال لگانا چاہا تو فون کالز پہ دھمکیاں دی گئیں کہ اگر کسی نے بک اسٹال لگایا اپنا ذمہدار خود ہوگا۔ اسی طرح رکاوٹوں کی وجہ طلب کرنے کیلئے جب ڈپٹی کمشنر سے طلباء نے رابطہ قائم کیا تو وہ بیماری کا بہانہ کرکے راہ فرار اختیار کرگئے۔ جب independent urdu کے رپورٹر عبداللہ کی جانب سے پوچھے گئے سوالات کے جوابات انہوں نے سیکورٹی امن و امان کا مسئلہ بنایا۔

بوائز ڈگری کالج میں پنجابی پرنسپل ریاست کے pay role پر چلنے والے عناصر کی وجہ سے وہاں بھی بک اسٹال نہیں لگایا جاسکا۔ پولیس ، ڈپٹی کمشنر ، اسسٹنٹ کمشنر ، پرنسپل ، ٹیچرز سب کی مجبوریوں کو مدنظر رکھ کر بک اسٹال وقتی طور پر ملتوی کیا گیا۔ اسی طرح خضدار میں پہلی بار کتب میلہ کی تیاریوں پر پانی پھیر دیا گیا۔ کتاب دوست طلباء علم و شعور سے قربت رکھنے والے طلباء کو مایوس کرنے کی ناکام کوشش کی گئی، کتابوں سے خوفزدہ عناصر کا چہرہ کھل کر ان تمام طلباء کے سامنے واضح ہوا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں