خاتون ایم پی اے کا پرس غائب ہو جائے تو قانون حرکت میں آتا ہے اور ہزاروں لوگوں کی گمشدگی کو مذاق سمجھا جاتا ہے۔ صدف امیر

130

جبری لاپتہ امیر بخش بلوچ کی بیٹی صدف امیر نے کہا ہے کہ میرے والد امیر بخش بلوچ کو 4 اگست 2014 کو کلانچ سے جبری لاپتہ کیا گیا جو تاحال لاپتہ ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پاکستانی میڈیا کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی مین اسٹریم میڈیا نے لاپتہ افراد کے لواحقین کا مکمل بلیک آؤٹ کیا ہے۔ اس وقت نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ جبری گمشدگیوں کا ہے۔ ہزاروں لوگ لاپتہ ہیں۔ کسی کا ٹھکانہ اور خیریت کسی کو معلوم نہیں لیکن مین سٹریم میڈیا، عدلیہ اور پارلیمنٹ والوں کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی۔

انہوں نے کہا کہ ایک خاتون ایم پی اے کا پرس غائب ہو جائے تو قانون حرکت میں آتا ہے اور ہزاروں لوگوں کی گمشدگی کو مذاق سمجھا جاتا ہے۔ جو کہ کسی المیے سے کم نہیں۔ میں بار بار اپیل کرتی ہوں کہ میرے بابا امیر بخش کو بازیاب کیا جائے اور ہمیں اس اذیت سے نکالیں لیکن کوئی ہماری بات نہیں سنتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ جبری گمشدگیوں کا مسئلہ ایک انسانی مسئلہ ہے اور خاص طور پر بلوچ قوم کی بقا کا مسئلہ ہے۔ ہر گھر اور ہر خاندان اس درد کے ساتھ جی رہا ہے۔ ایسا ہی ایک خاندان سائرہ اور سعدیہ کا ہے جن کے خاندان کے تین افراد لاپتہ ہیں۔ راشد، آصف 6 سال سے لاپتہ ہیں جبکہ سلمان ڈیڑھ سال سے لاپتہ ہیں۔ لیکن عدلیہ سمیت کمیشن صرف ٹائم پاس کر رہے ہیں، کوئی ادارہ سنجیدہ اقدامات نہیں اٹھا رہی ہے، اس لئے بلوچ وائس فار جسٹس کی جانب سے 24 مئی کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر راشد، آصف اور سلمان کی بازیابی کے لیے مہم چلائی گئی۔ میں زندگی کے تمام شعبوں سے تعلق رکھنے والے لوگوں سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ اس مہم کا حصہ بنیں