لُمہ، جو گواڑخ جیسی تھی ۔ میروان بلوچ

345

لُمہ، جو گواڑخ جیسی تھی 

تحریر: میروان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جب سیاہ فام رہنما مالکم ایکس کو قتل کیا گیا تب نیلسن منڈیلا نے کہا “ میرے اور مالکم ایکس کے نظریات اور عمل میں بہت فرق ہے، لیکن مالکم کا شہادت مجھے ایسے محسوس ہوا جیسے آج پوری افریقن نسل کا قتل ہوا ہے”

جانتے ہو لمہ ، کچھ ہستوں کا بچھڑنا ٹھیک اسی طرح ہوتا ہے، میں یہ نہیں کہتا کہ قومی تحریکیں افراد کی محتاج ہیں لیکن یہ بھی تو حقیقت ہے تحریک کو منظم کرنے، محکم کرنے اور منزل تک پہنچانے والے فرد ہی ہوتے ہیں۔

جب وسعت اللہ خان بابا خیر بشک سے بالاچ کے بارے پوچھتا ہے تو وہ رک کر، تھوڑی دیر کیلیے خاموشی کے بعد ایک سرد آہ نکال کے جواب دیتا ہے

“ باقی مری مجھے کہتے ہیں کہ ہمارے بچے آپ کے بیٹے ہیں یہ ہم نے آپ کو سونپ دئیے ہیں تو جو بھی اس راہ میں شہید ہوئے سب میرے بچے تھے لیکن بالاچ کا دکھ کچھ زیادہ ہے”

لمہ، دھرتی وطن پہ قربان ہونے والے سبھی برابر ہیں سب کا خون اسی زمین اور قوم کیلیے بہا ہے، مگر یہ بھی حقیقت ہے کچھ لوگوں کو دھرتی ماتا کچھ زیادہ ہی اپنا لیتی ہے، ان کو لوگ زیادہ اپناتے ہیں ان کا درد زیادہ محسوس کرتے ہیں، کچھ لوگوں کو ان کا کردار باقیوں سے عظیم تر بناتا ہے۔

لمہ، آپ کو بھی اس دھرتی نے عظیم تر بنایا ہے، یا یوں کہیں کہ آپ نے اس دھرتی کو عظیم تر بنایا ہے، کچھ کی عظمت کا گواہ تاریخ خود بنتی ہے، آپ کو اس دھرتی نے اپنا لیا تھا، اور آپ اس کے محبت میں یوں مدھوش ہوئے کہ پیچھے مڑ کر دیکھا ہی نہیں۔

زاکر جان اپنے تقریر میں آپ جیسے پروانوں کا ہی زکر کرتا ہے جو شمع پہ خود کو فنا کرتے ہیں۔ وہ کہتا ہے یہ تحریک بہادروں کی تحریک ہے اس سے جڑنے والے، اس کی خاطر قربان ہونے والے بہادر ہوتے ہیں۔ جو پروانے کی مانند شمع پہ خود کو فنا کرتے ہیں۔

لمہ جان، جو سفر تم نے اکیلے شروع کیا تھا، وہ قافلہ بن گیا تھا، پھر اس قافلے کے ساتھی ایک ایک کرکے تم سے چھینے جارہے تھے،

کس قدر تکلیف دہ ہوتی ہوگی آپ کیلیے، وقت سے پہلے اگر درخت کے پتے گرنے لگیں تو وہ مرجھا جاتا ہے، اڑان بھرنے سے پہلے اگر پرندوں کو اسیر بنایا جائے تو پھر وہ ہمیشہ کیلیے گلستان کا خواب آنکھوں میں رکھتے ہیں۔ قطار سے بچھڑنے والا کونج جب سر آسمان اپنے قطار سے ملنے کیلیے تڑپ کر چکر کاٹتا ہے اور بالآخر کسی صحرا میں دم توڑ دیتا ہے۔

لمہ تم انہی سب دکھ و تکالیف سے گزری تھیں، تمھارے سنگت ایک ایک کرکے تم سے چھینے جارہے تھے، بے وقت اسیر بنائے جارہے تھے، یا کسی ویران میں مسخ ہوکے مل رہے تھے۔ مگر تم لمہ جان۔۔۔۔؟ چلتن کی طرح کھڑی رہی، جھکی نہیں، خوفزدہ نہیں ہوئیں، حق کا علم آخری وقت تک اٹھائے رکھا، اس مقدس بیرک کو گرنے نہیں دیا۔

لمہ جان، جب تم نے یہ نظم “ کُبل انت دروازگ ء کور انت دریگ، کئے بیماریت اے تہنایاں” لکھی، یہ تمام کردار تمھارے نظروں میں چکر کاٹ رہے تھے، تم نے زاکر کو پس زندان دیکھا ہوگا، تم نے الیاس او کمبر جان کی کمزور جسم پہ پڑتے کوڑوں کو دیکھا ہوگا، تم نے شہید رسول جان کے جسم کو پار کرتی ہوئی گولیوں کو دیکھا ہوگا، تم نے زاہد کی جبری گمشدگی کو آنکھوں کے سامنے دیکھا۔

لمہ ، اتنی ہمت، بہادری، سیاسی پختگی، اوپر والا آپ کو تخلیق کرنے پہ نازاں ہوگا کہ میں نے کس طرح کا انمول انسان تخلیق کیا ہے۔ محمد خان داؤد سچ کہتا ہے “ وہ یروشلم کی گلیوں میں ہوتا، تو پیغمبر ہوتا”

میں سوچ رہا ہوں ، جب تم نے دوسری نظم “ کچھ رنگ جو گواڑگ جیسے تھے” لکھی، تب تمھارے زہن میں آخر کیا تھا، آخر کونسے لوگ ، کونسے رنگ جن کو تم نے گواڑگ سے تشبیح دیا ہوگا۔

لمہ جان، جانتی ہو، گواڑگ بہت کم عرصے کیلیے موجود رہتا ہے، تمھارے سبھی گواڑگ بھی تو مختصر مدت کیلیے جئے، پھر اپنا خوشبو ہر طرف بکھیر کر رخصت ہوئے۔

لمہ جان، تمھارے ساتھیوں کے جسموں پہ تلوار چلائے گئے، ان کو سولیوں پہ لٹکایا گیا، مگر ان کے سوچ ، فکر، اور قدموں میں زرا بھی لرزش نہیں آئی، وہ کیونکر ایسا نہ کرتے، جب ان کا لمہ آپ تھے، ان کی تربیت آپ جیسی شیرزال نے کی ہوگی، وہ کیونکر خود کو ان رنگوں میں نہیں ڈبوتے، سولیوں پہ نہیں چڑھتے۔

لمہ ، ساجد حسین نے کہا تھا “ زندگی کا خود کوئی مقصد نہیں ، زندگی کو مقصد بعد از مرگ ملتی ہے” تمھارے مرگ شہادت نے بھی تو آپ کے مقصد کو عظمت عطا کی ہے۔ بلوچ وطن نوحہ کناں ضرور تھا، مگر فخر سے بولان کی چوٹیوں میں بلندی آئی، بلوچ وطن کے گوشے گوشے نے تمھارے ہونے کی گواہی دی، تمھارے مقصد کے مقدس ہونے کی گواہی دی، بچے بچے نے تمھارے تصویروں کو بوسہ دیا، بلوچ ماؤں نے تمھیں اپنے لوریوں کا حصہ بنایا، شاعروں نے تمھارے امر ہونے کے قصیدے لکھے، گلوکاروں نے تمھارے عظمت میں سروں کو ساز بخشا۔

لمہ ، اب جب تم یہاں نہیں ہو، مگر تمھاری موجودگی ہر جگہ عیاں ہے۔ کوہ سلیمان سے بحر بلوچ تک، سبھی بلوچوں کو تمھارے شہادت نے یکجا کیا، پہلی دفعہ بلوچ اتنی تعداد میں ، تمھیں خراج عقیدت پیش کرنے اپنے گھروں سے نکلے تھے، بی ایس او کا مقدس بیرک مدتوں بعد تمھارے تصویر کے ساتھ گلی کوچوں میں واپس آیا۔ آزاد وطن کا نعرہ ہر لب پہ تھا۔

لمہ ایسی شہادت خوش نصیوں کو ملتی ہے، تمھیں یہ سعادت مبارک ہو۔ ایک کرد کہاوت ہے کہ “ ہم اپنے شہدا کیلیے ابھی آنسو نہیں بہائیں گے، ہم اپنے جذبات سنبھالے رکھیں گے، جب وطن آزاد ہوگا، ہم شہدا کے قبروں پہ جا کر خوب روئیں گے”

لمہ تم نے بھی تو ایسا ہی کہا تھا

“ کبھی وہ دن بھی آئے گا کہ جب آزاد ہوں گے ہم،

یہ اپنی ہی زمین ہوگی، اپنا آسمان ہوگا،

شہیدوں کے مزاروں پہ لگیں گے ہر برس میلے،

وطن پہ مرنے والوں کا یہی نام و نشاں ہوگا”

لمہ تمھارے شہادت پہ انور ساجدی نے لکھا “ وہ ہرن جیسی آنکھوں والا، ایک مقدس خواب لیکر ہمیشہ کیلیے بند ہوئی ہیں، ان کی شہادت پہ نوحہ نہیں ہوگی، کیونکہ شہیدوں کا کچھ الگ ہی حساب کتاب ہوتا ہے”

لمہ ، تم اس کائنات کی حسین ترین انسان تھیں، بلوچوں کیلیے آپ کی شہادت بہت ہی کرب ناک ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے ظالموں نے اس کائنات کا حسین ترین انسان دنیا والوں سے چھینا ہے، ایک دن مہذب دنیا ضرور اپنے حسین انسان کے قتل کا حساب کتاب کرے گی۔

ہمارے لئے ہمارے شہدا کا بدلہ، آزاد وطن میں پوشیدہ ہے، جس کا ارمان آنکھوں میں سمائے سبھی شہدا رخصت ہوئے ہیں، وطن کی آزادی کے بعد ہم شہدا کے قبروں پہ ، ان گمنام عاشقوں کو یاد کریں گے، ان کے ارواح کے ساتھ ملکر جشن منائیں گے۔

لُمہ جان، انسان کے نظریاتی اور فکری پختگی کو ناپنے کا کوئی طریقہ آج تک نہیں بن سکا سوائے قربانی کے، تکالیف برداشت کرنے کے، سخت حالات میں ڈٹے رہنے کے، جو ان سبھی سے گزرتے ہیں وہی منصور بنتے ہیں جن حالات میں بقول آپ کے “ ہاتھوں پہ تلوار چلائے جاتے تھے” تاریخ گواہ رہے گی تم کھڑی تھیں، بی ایس او اور آزاد وطن کا نعرہ بلوچ وطن کے ایک ایک کونے تک پہنچانے کیلیے، کہیں تم احتجاج کررہی تھیں کہیں تقریر، کہیں سرکل، کہیں وال چاکنگ ، کہیں پمفلٹ بانٹ رہی تھیں۔

لمہ جان دنیا کا کوئی بھی فرد اگر یہ جاننا چاہے کہ ایک انقلابی سیاسی کارکن یا لیڈر کس طرح کا ہوتا ہے وہ بس ایک بار آپ کو پڑھ لے، وہ جان پائے گا کہ انقلابی کس طرح جیتے ہیں کس طرح سیاسی عمل کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی جدوجہد کرتے ہیں رہنما بن کر کس طرح اپنے لوگوں کی تربیت کرتے ہیں کس طرح رہنمائی کرتے ہیں۔ وہ تمھیں ُتمپ کالج میں سرکل کرتے ہوئے دیکھے گا، وہ کیچ کے گلی بازاروں میں تمھیں وال چاکنگ کرتے ہوئے پائے گی، وہ تمھیں کراچی کی گلیوں میں بی ایس او کا بیرک اٹھائے سب سے آگے پائے گی، وہ دیکھے گا کہ جب لوگ معمولی سیاسی شہرت پا کر خود کو لیڈر سمجھتے ہیں خود سے نچلی سطح کے سیاسی کارکنوں کو احکام جاری کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں وہیں وہ کریمہ کو دیکھے گا وہی کریمہ جس نے ساری زندگی حقیقی انقلابی بن کر جیا ، ہر وہ کام جو انقلابی کارکن کا فرض بنتا ہے اس نے فرض سمجھ کر ان کو پورا کیا، وہ ایسے دور میں سامنے آئی جہاں خواتین کیلیے سیاست معیوب تھی، جہاں سماجی بندشیں خواتین کو جکڑی ہوئی تھیں وہ انقلابی ان سبھی فرسودہ خیالات اور روایات کو توڑ کر سیاست میں حصہ لیتی ہے۔ جب ہر طرف تہمتوں، گالیوں، اور بری القابات اس کے نام منسوب کیے گئے وہ زرا بھر بھی ان کا پرواہ کئیے بغیر مزاحمت کرتی رہی، جب میڈیا یا کمیرہ کے سامنے آنا ننگ و غیرت کا مسلہ بن جاتا ہے وہ تب میڈیا کو انٹرویوز دیتی ہے وہ بھری مجلسوں میں ہزاروں کے بیچ تنہا عورت تقریر کرنے سٹیج پہ آتی ہے اور کہتی ہے “ تو پہ سرانی گڈگ ء دستاں مدار، ما ہم سرا بستگ کفن” ۔ جب سٹیج سے اتری ہوگی تو شاید بہت سوں نے اسکا مزاق اڑایا ہوگا، بہت سوں نے کئی ایک باتیں بنائی ہوں گی، مگر وہ کریمہ تھی وہ ہرن جیسی آنکھوں والا شیر جیسا دل اپنے اندر رکھی ہوئی تھی، جب دہشت کی وجہ سے سبھی نے اپنے ہونٹ سی لیے تھے وہ بہادر انقلابی تربت میں ایک اور احتجاج کی تیاری کررہی تھی، وہ خوفزدہ نہیں ہوئی، جب اس کے ساتھیوں کی لاشیں ایک ایک کرکے اسے دی جارہی تھیں یا لاپتہ ہورہے تھے تب وہ شیرزال ان کے جنازوں کو کندھا دیتی ان کے قبروں پہ آزاد وطن کا بیرک چڑھاتیں اور کہتی “ ہم انقلابی لوگ ہیں ہم زندگیوں کا قیمت جانتی ہیں۔ “

اس کو ڈرایا گیا، ایف آئی آر کی گئی، گھر پہ حملہ کیا گیا وہ بلوچ قوم کا لُمہ تھی، جب لمہ کے بچے اس قدر بہادر تھے کہ دشمن سے لڑتے آخری گولی خود میں پیوست کرتے ہیں تو ان کا لُمہ کس قدر بہادر ہوگی، بہادر مائیں بہادر بچوں کو جنتی ہیں۔ شاید شہید سنگت ثنا نے لُمہ جان کو دیکھ کر یہی کہا ہوگا کہ “ بلوچ مائیں بانجھ نہیں ہیں”

اس نے ہزاروں کی تعداد میں خود کو منوایا، وہ ایک ممبر سے سنٹرل کمیٹی اور پھر پہلی بلوچ خواتین چیرپرسن کا اعزاز حاصل کی، مگر یہ سبھی عزت ، شہرت، اس نے کسی رعایت یا عورت ہونے کے بل پہ نہیں بلکہ اپنے انقلابی عمل اور کردار سے حاصل کی۔ آج لچھ لوگ جن کو صرف عورت جنس ہونے کی وجہ سے میڈیا میں خود کو انقلابی جتانے کی کوشش میں لگے ہیں یا عورت ہونے کی بنا پہ کچھ رعایت چاہتی ہیں ، مگر وہ انقلابی کسی بھی رو رعایت کے حق میں نہ تھی، وہ جانتی تھی انقلابی صرف اور صرف انقلابی نظریے اور عمل سے بنتی ہیں سخت حالات میں ثابت قدم رہ کر بنتے ہیں وہ شارٹ کٹ کے فلسفہ سے شہرت کے بجائے جلتی انگاروں پہ چل کر لُمہ بنی ہیں۔

لمہ جان کی ساری زندگی جدوجہد سے عبارت ہے آج کے سیاسی اور مزاحمتی کارکنوں کیلیے ان کی زندگی مشعل راہ ہے۔ بلوچ قومی آزادی کے کارکنوں سمیت دنیا بھر کے انقلابی جہد کاروں کیلیے ایسی داستان رقم کی ہے جو سبھی کیلیے تا ابد رہنمائی کرتی رہے گی۔ کریمہ کو اپنا کر، اس کے عمل کو اپنا کر، اس کے نظریے اور فکر میں خود کو ڈھال کر، اسی راہ کو اپنا کر، سخت ترین حالات میں اپنے نظریے اور عمل پہ قائم رہ کر، سب سے بڑھ کر اپنے نطریے اور فکر کی بنیاد پہ قربان ہوجانا مگر قابضوں کے سامنے سرنگوں نہ ہونا، یہی کریمہ کی جدوجہد تھی اور جو بھی کریمہ کو اپنانا چاہتے ہیں انہیں اس پہ من و عن عمل کرنا ہوگا کیونکہ لُمہ برداشت، صبر، حوصلہ، بہادری اور قربانی کا نام ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں