آہ! کریمہ ۔ ظہور زیب

311

آہ! کریمہ

تحریر: ظہور زیب

دی بلوچستان پوسٹ 

آج میں بہت دکھی ہوں، ایسا لگتا ہے کہ چلتے چلتے رک گیا ہوں ،کسی چیز میں دل نہیں لگتا، ہر سکون سے تکلیف محسوس ہوتی ہے، آج مجھے خود میں ادھورا پن نظر آتا ہے۔ میرے ساتھ گزرا ہوا ہر لمحہ مجھ سے یہی سوال کرتی ہے تمہاری زندگی کا کوئی مستقبل نہیں ہے۔ ایسا لگ رہا ہے زندگی بہت دور جاچکی ہے۔ شاید میں اسے پاکے بھی نہ پا سکوں، میری زندگی میرا بچپننا مجھے سے چھین لیا گیاہے۔ بہت ساری شکایتیں ہیں زندگی سے پھر سوچتا ہوں ایسے بہت سارے زندگیاں قربان ہو چکے ہیں پھر میرے اندر کا ضمیر جاگ جاتا ہے ۔ سلام آپ کو ہزار بار، سلام، کچھ ٹوٹی پھوٹی الفاظ ایک نڈر اور مستقل مزاج عورت کے نام۔ 

وہ بہادر عورت ساری عمر بڑی تکلیفیں اٹھانے کے باوجود سچائی کا تلاش کرتی رہی، وہ سچائی جسے ہم انصاف کہتے ہیں وہ سچائی آباد گھروں کو ویران بنا گئی ہے۔ خدا کرے، تیرا ہر خواب پورا ہوجائے شاید میں تاریخ کے بارے میں کچھ نہیں جانتا بس اتنا جانتا ہوں کہ تاریخ ان انمول شخصیتوں کو یاد کرتی ہے، جو ان کے لئے کچھ نہ کچھ چھوڑتے ہیں۔ 

 تاریخ کے صفوں کو چمکدار اور ہمیشہ کے لیے رنگین سجاتے ہیں، یا حقیقت کو صحیح موڑ پہ لا کھڑا کرتے ہیں۔ تیری زبان سے نکلی ہوئی ہر شبد تاریخ کی سنہری لفظوں میں لکھا جائے گا انقلاب سے جڑا ہر فرد اپنی خواہشوں کو اپنے جذبات میں تبدیل کرے گا۔ جذبات اپنی بقاء کی جذبات اپنے سرزمین سے پیار کرنے والے شخص ہمیشہ کے لیے امر ہوجاتے ہیں۔ لوگ ان کے خلاف بہت بڑے اقدامات اٹھاتے ہیں کیونکہ وہ حقیقت کا بھرپور عکاسی کرتا ہو دشمن کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ تمہیں ہر کوششوں سے ناکام کیا جائے چاہے وہ تعلیم ہو یا جو آپ جدوجہد کر رہیں ہیں۔ 

ویسے پاکستان کے اس درندہ صفت فوج نے بلوچ کے لئے ہر دروازہ بند کیا ہوا ہے، ان کے ہر ترقی کے آگے رکاوٹ بن چکی ہے بد قسمتی سے ہم تب جاگتے ہیں جب کہنے کو باقی کچھ نہیں رہتا ہماری کمزوری ہم کو حقیقت سے دور رکھتا ہے۔ یہ بد قسمتی ہمارے سماج کے اوپر اثر کر چکی ہے۔ 

آج میں ایک ایسے شخص کے بارے میں کچھ الفاظ پیش کرنا چاہ رہا ہوں ہر لفظ بے آواز اور درد بیان کرنے سے انکار کرتی ہے، وہ شخصیت لاچار اور بے بس لوگوں کے لیے خدا جیسی تھی، وہ شخص ہزاروں کے دل میں بس چکی ہے وہ اپنے کردار سے دنیا کو باور کروا گئی ہے۔ وہ ہر دروازے کو اپنی آنے والے نسلوں کے لیے کھٹکھٹا چکی ہے۔ 

جس مقصد کے لئے ان کی زندگی چلی گئی، اب وہ راہ ہر بلوچ کی راہ بن چکی ہے۔ میری اونچی درباروں اور خدا سے یہی دعا ہے وہ جہاں بھی ہے خوش رہے۔ وہ ہمیں ہر لمحہ یاد آتی ہے وہ دنیا کی ہر آسایشوں میں شامل ہے۔  

جب بانک کریمہ نے اپنے آبائی گاؤں تمپ کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا اس کو ایسا لگا کہ میں پوری دنیا کو چھوڑ نے والی ہوں، وہ دنیا کی ہر خواہش سے بے واقف تھی نہ زندگی سے پیار نہ موت سے ڈر کبھی ٹرکوں کے پیچھے کبھی پیدل مارچ کبھی رونے کی آواز کبھی کوئٹہ پریس کلب اسلام آباد کبھی کراچی کی گلیوں میں ایک گونجتی ہوئی خوبصورت آواز کا قصہ۔ 

جب ان کی موت کے خبر آئی ایسا لگا کہ ہر طرف خاموشی چھا گئی ہے۔ صبح کی مدھم روشنی زندگی کی داستان بتارہی تھی چاروں طرف سناٹا اور تنہائی تھی طلوع ہونے والے سورج کا یوں ہی خیر مقدم کیا گیا۔ 

ہم نے ہزاروں جانوں کو جلتے ہوئے دیکھا ہے سر کو قلم کرتے ہوئے دیکھا ہے ہم نے آباد گھروں کو ویران ہوتے ہوئے دیکھا ہے ہم نے سر سبز زمینوں کو قبرستان ہوتے ہوئے دیکھا ہے ۔ آپ پھر ملیں،ہم بلوچستان کا قصہ پھر آپ کو سنائیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں