لاہور: جعلی مقابلوں میں بلوچ لاپتہ افراد کے قتل کیخلاف احتجاج

280

بلوچ یکجہتی کمیٹی لاہور کی جانب سے ملتان نشتر ہسپتال سے نامعلوم لاشوں کی برآمدگی اور بلوچستان میں سی ٹی ڈی کی جانب سے جاری جعلی مقابلوں و بلوچستان میں جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاجی مظاہرہ کیا گیا-

مظاہرین نے لبرٹی چوک سے ایک احتجاجی ریلی نکالی جس میں شامل مرد و خواتین شرکا نے ہاتھوں میں لاپتہ افراد کی تصویریں اور پلے کارڈ اٹھا کر بلوچ نسل کشی کے خلاف نعرہ بازی کی۔

مظاہرین نے ملتان میں نشتر ہسپتال سے ملنے والی لاشوں کو لاپتہ افراد کی نعش کہتے ہوئے ان کے ڈی این اے اور اس کے لیے آزادانہ تحقیقاتی کمیشن بناکر اصل حقائق سامنے لانے کا مطالبہ کیا۔

لاہور بلوچ مظاہرین کا کہنا تھا کہ گذشتہ دو دہائیوں سے مختلف حربوں سے بلوچوں کا قتلِ عام کیا جا رہا ہے ہمیں خدشہ ہے کہ نشتر ہسپتال کے چھت پر ملی نامعلوم لاشیں بلوچ لاپتہ افراد کی ہو سکتی ہیں اسی لیے ہمارا مطالبہ ہے کہ اِن کی تشخیص عمل میں لاتے ہوئے اس کے پیچھے ملوث تمام افراد کے خلاف قانونی کاروائی عمل میں لائی جائے بلوچ قتلِ عام کا پہلا واقعہ نہیں اس سے پہلے بھی 2014 کو توتک، خضدار میں اجتمائی قبروں میں 169 لاپتہ افراد کی لاشیں ملیں تھیں جن کی آج تک نہ تو تشخیص ہو سکی، اور نہ اس قتلِ عام میں ملوث مجرموں کو قانون کے کٹہرے میں لایا گیا بلکہ ان کے ہاتھ مزید مضبوط کیے گئے۔

مظاہرین کا کہنا پچھلے دو عشروں سے مختلف حربوں سے بلوچوں کو ہراساں کرکے دہشت زدہ کیا جا رہا ہے، بلکہ مسلسل بلوچوں کو نسل کشی کا سامنا ہے سی ٹی ڈی کی طرف سے لاپتہ افراد کو فیک انکاؤنٹر میں قتل کرنے کی روش انتہائی خطرناک ہے اس سے پہلے زیارت میں بھی 9 زیرحراست بلوچوں کو قتل کرکے انہیں مسلح افراد پیش کیا گیا جو کہ ایک سفید جھوٹ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے اس حوالے سے احتجاج کے دباؤ میں آتے ہوئے حکومت نے جوڈیشل کمیشن بھی تشکیل دیا تھا لیکن اس کی انکوائری اور ملوث سیکورٹی اہلکاروں کو کوئی بھی سزا نہیں ملی بلکہ اس عمل کو تسلسل کے ساتھ مزید دہرایا جا رہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا اسی مہینے اکتوبر میں مستونگ، نوشکی اور ڈیرہ مراد جمالی میں فیک انکاؤنٹر کا ڈرامہ رچا کر کُل 13 لاپتہ افراد کی لاشیں پھینکی گئی ہیں اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ اگر اس قتلِ عام کے خلاف آواز نہیں اٹھایا گیا تو بلوچ قوم کی یہ نسل کشی اسی طرح جاری رہے گی۔

مظاہرین کا کہنا تھا کہ ہماری تمام انسانی حقوق کے اداروں سے اپیل کی کہ وہ اس معاملے پر سنجیدگی سے غور و فکر کریں اور بلوچستان کو اس طرح لوارث نہ چھوڑیں جس طرح نشتر ہسپتال میں لاشوں کو چھوڑ دیا گیا ہے۔