سی ٹی ڈی کے ہاتھوں بلوچ نسل کشی میں بلوچستان اسمبلی کی رضامندی شامل ہے- ماما قدیر

225

کوئٹہ میں وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی قیادت میں جاری جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4799 دن مکمل ہوگئے، بلوچ اسٹوڈنٹس بچار کے چیئرمین زبیر بلوچ و ساتھیوں کیمپ آکر لواحقین سے اظہار یکجہتی کی۔

کیمپ آئے طلباء وفد سے گفتگو کرتے ہوئے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا بلوچ قوم حالت جنگ میں ہے اور ایک نازک دور سے گزر رہی ہے بلوچ نوجوانوں کی جبری گمشدگیوں میں بتدریج اضافہ دیکھنے کو آرہا ہے پنجاب کے اسپتالوں میں بلوچوں کی مسخ شدہ لاشوں کا انبار لگادیا گیا ہے جن کو لاوارث قرار دیا جا رہا ہے-

ماما قدیر بلوچ کے مطابق کاؤنٹر ٹیررزم ڈپارٹمنٹ کو بلوچستان اسمبلی کی طرف سے بلوچ نسل کشی کرنے کی باقاعدہ رضامندی دی گئی جس میں کہا گیا ہے سی ٹی ڈی کو وسعت دی جائے گی اور سہولیات فراہم کی جائیں گی-

انہوں نے کہا کہ یہ وقت شخصیت پرستی یا ہیرو ازم کی نہیں ہے بلوچ قوم پرست حلقوں کو یک دست ہو کر ان ریاستی مظالم کو روکنا ہوگا عدم برداشت اور اتحاد کا فقدان بلوچ قوم کی بد بختی ہے اپنے وجود کو بچانے کیلئے ہمیں من حیث القوم ایک ساتھ ہو کر جدوجہد کرنا چاہیے-

ماما قدیر بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ آج بلوچستان اور کراچی میں بھی بلوچ محفوظ نہیں گزشتہ مہینے کی 26 تاریخ کو کراچی سے دو نوجوانوں کو خفیہ اداروں کے اہلکاروں نے جبری لاپتہ کیا جنکے لواحقین نے اس کی تصدیق کی جنکی شناخت گلشاد ولد دلوش اور سراج ولد اصغر کے ناموں سے ہوئی ہے-

ماما قدیر بلوچ کا کہنا تھا کے کراچی سے جبری لاپتہ کئے گئے دونوں طالب علم ہیں اگر انہوں نے کوئی جرم کیا ہے تو انہیں عدالتوں میں پیش کیا جائے-