بی ایس او کے نام پر شور شرابا ۔ البرز بلوچ

442

بی ایس او کے نام پر شور شرابا

تحریر:البرز بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کو بلوچ قومی تحریک میں ایک ماں کی حیثیت حاصل ہے۔ بی ایس او نے بلوچ سماج میں بلوچ نوجوانوں کے اندر شعورکا بیج بو کر نوجوانوں کو غوروفکر کرنا سکھایا۔ بی ایس او نے جہاں ایک طرف نوجوانوں میں علمی، سیاسی، اور ادبی شعور پیدا کی وہیں قومی جدوجہد اور تحریک کی آبیاری کیلئے تنظیم کے پلیٹ فارم سے سینکڑوں نوجوانوں نے اپنی جانوں کا نظرانہ پیش کرکے نیشنلزم کی نئی راہیں متعین کی۔ تعلیمی اداروں سے لیکر بلوچستان کے ہر گاؤں اور کوچوں میں بلوچ نوجوانوں کے اندر قومی شعور پیدا کی۔ ریاستی، قبائلی و علاقائی سختیوں اور مشکلات کا سامنا کرتے ہوئے بلوچ سماج میں بہترین تبدیلیاں لائیں، سماجی برائیوں کا خاتمہ کرنے میں بی ایس او نے اہم کردار ادا کیا۔ ایک طرف ریاست بلوچ قوم کو تباہ و برباد کرنے کے در پر تھی تو دوسری جانب بی ایس او کے نوجوان بلوچ قومی شناخت، بقاء اور آزادی کی رکھوالی کیلئے سرگرداں تھے اور بلوچ نوجوانوں کو تاریکی سے نکال کر ایک ایسا راستہ دیا جو بلوچ قومی بقاء کا ضامن ہے، یعنی جدوجہد اور مزاحمت کا راستہ جس سے بلوچ قومی بقاء ممکن ہے۔

بی ایس او کے کردار کی وجہ سے انہوں نے بلوچ سماج میں ایک درسگاہ کی حیثیت اخیتار کی جس کے سائے تلے سارے بلوچ والدین اپنے بچوں کا مستقبل دیکھتے تھے۔ مگر بدقسمتی کہیں یا تاریخ کا جبر جب بی ایس او 1967 میں اپنی پہلے کونسل سیشن کا انعقاد کرتی ہے تو اسی کے ساتھ تقسیم کا شکار ہو جاتی ہے، تقسیم کے پیچھے محرکات بہت سے تھے، جن میں پیپلز پارٹی کا کردار، عہدوں پر لڑائی، نیپ کے لیڈران کی مداخلت اور بی ایس او کیلئے پارٹیوں کی رسہ کشی اور قومی تحریک یا ایک واضح راستے کی عدم موجودگی شامل تھیں۔ جس کے بعد جب 1973 میں ریاست بلوچستان پر فوجی آپریشن اور مظالم کا ایک نیا سلسلہ شروع کر دیتا ہے تو بی ایس او کے نوجوان قومی مزاحمت کا حصہ بن کر پہلی مرتبہ تحریک میں بطور مڈل کلاس اور عام بلوچ شرکت کرتے ہوئے جدوجہد کرتی ہیں۔

دانشوروں کا کہنا ہے کہ بلوچ قومی تحریک کو پہلی 1973 میں قبائلی مزاحمت سے بی ایس او نے نکال کر عوامی مزاحمت میں تبدیل کر دیا تھا۔ بی ایس او کے چیئرمین اور عہداران باقاعدہ مسلح ہوکر پہاڑوں میں اپنے عوام کے ساتھ دشمن کا مقابلہ کرتے ہیں۔ ضیاء الحق کی آنے اور عام معافیوں اور بلوچ لیڈرشپ کی جیلوں سے نکلنے کے بعد جب تحریک اپنے خاتمہ کی جانب آتی ہے تو بی ایس او کے نوجوان اسے ایک نئے سرے سے منظم کرنا شروع کر دیتے ہیں جس کیلئے فدا احمد، حمید بلوچ ، عبدالنبی بنگلزئی، واحد کمبر اور دیگر متحرک ہو جاتے ہیں اور بی ایس او کے پلیٹ فارم سے قومی تحریک کیلئے اپنی جدوجہد جاری رکھتے ہیں۔

ایسے وقت میں جب بلوچ لیڈرشپ گراؤنڈ میں عوامی سیاست سے دور اور مسلح جہدکار افغانستان نواب خیر بخش مری کی قیادت میں چلے گئے تھے تو اس وقت عوامی اور قومی تحریک کی سیاست گراؤنڈ میں بی ایس او کے نوجوانوں کے کندھوں پر تھی۔ دس سال تک گراؤنڈ میں قومی اور آزادی و ریاستی قبضہ و جبر کے خلاف بی ایس او نے سیسہ پلائی دیوار کا کردار ادا کیا جبکہ حمید بلو چ نے بلوچ نوجوانوں کی عمان کے فوج میں بھرتی کے خلاف حملہ کرتے ہوئے بعد میں پھانسی چڑھتے ہوئے جام شہادت نوش کی کیونکہ وہ اس بات کے قائل تھے کہ بلوچ نوجوان اپنے مادر وطن کیلئے لڑیں بجائے دوسروں کے جنگ میں شرکت کریں۔

1990 کی دہائی میں جب سرکاری دلالوں نے بی ایس او کو کمزور کرتے ہوئے اسے پارلیمانی سیاست کی طرف لگا دیا تو اس کے تو کئی نوجوان مایوس ہوکر بی ایس او کی سیاست سے کنارہ کش ہو گئے مگر سنہ 2000 ہزار کے دہائی میں ڈاکٹر اللہ نظر کی قیادت میں بی ایس او نے پھر سے اپنی حقیقی راہ لی اور بی ایس او کو پارلیمنٹ سے نکال باہر کرکے اپنے حقیقی راسے پر گامزن کر دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے نا بلکہ تمام بی ایس او بلکہ ہزاروں نوجوانوں نے پھر سے بی ایس او کی طرف رجوع کیا کیونکہ بی ایس او واپس اپنے ڈگر یعنی کہ قومی تحریک کی طرف آ گئی تھی۔

2001 سے دو ہزار چھ تک کوئی بھی پارلیمنٹ پرست اور بعدازاں نیشنل ازم کے نظریے سے ہٹ کر کوئی بھی بی ایس او نہیں تھی۔ بی ایس او اسٹار جس کے چیئرمین شہید حمید شاہین ہوتے ہیں وہ ایک پکے مارکسی نظریے پر یقین رکھنے والے انسان ہوتے ہیں اور شہادت تک اپنے سوچ اور نظریے پر قائم رہتے ہیں لیکن بقول شہید حمید شاہین کے جب تک بلوچستان آزاد نہیں ہوگا یہاں طبقاتی مسئلہ بھی ختم نہیں ہوگا کیونکہ یہ آج واضح ہے بلوچستان میں طبقاتی تفریق کے پیچھے ریاست کا ہاتھ ہے جنہوں نے ایک جانب سرداروں کو مختلف مراعات سے نوازا ہے تو دوسری جانب بلوچ قوم کو غلام رکھا ہوا ہے لیکن جب قومی تحریک کی بات کی جائے تو وہاں سردار ،نواب سے لیکن سب کے سب قومی غلامی کے خلاف ایک ہی صفت میں کھڑے جدوجہد کر رہے ہیں(شہید حمید شاہین اس مقصد کیلئے باقاعدہ مسلح جدوجہد کا حصہ بنتے ہیں جنہیں بعد میں پاکستانی فورسز اغواہ کے بعد شہید کر دیتا ہے)۔

جس کے بعد سب کے سب بلوچ قومی آزادی کی تحریک پر یقین رکھتے ہوئے بی ایس او، یعنی بی ایس او آزاد کے کاروان کا حصہ بن گئے۔ جب 2006 کے کونسل سیشن میں بی ایس او کے آئین میں واضح الفاظ میں لفظ آزادی اور بی ایس او کا پروگرام واضح کیا گیا جس میں بشیر زیب مرکزی چیئرمین، سنگت ثناء وائس چیئرپرسن جبکہ کابینہ میں ذاکر مجید، چیئرمین زاہد اور دیگر ارکان چنے جاتے ہیں۔ یہاں سے بی ایس او پھر سے اپنی حقیقی شکل میں بی ایس او آزاد کے نام سے کام کرنا شروع کر دیتا ہے جس کے بعد ہزاروں نوجوان اس کاروان کا حصہ بنتے ہیں اور بی ایس او آزاد بلوچ قومی آزادی کے پروگرام کو بلوچستان کے گھر گھر میں پہنچاتا ہے، تعلیمی اداروں میں بلکہ بلوچستان کے عوام کو بھی آزادی کیلئے تیار کر دیتی ہے۔

اس کو دیکھ کر کچھ پارٹیوں میں سراسیمگی پھیل گئی کہ بی ایس او ان کی سیاست کا خاتمہ نہ کردے جیسے کہ ان کی سیاست بی ایس او اور بلوچ قومی تحریک کے نام پر قائم رہی ہے۔ اس سلسلے میں پھر بی ایس او آزاد کے 2006 کے کونسل سیشن میں ہارے ہوئے کچھ افراد کو نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی یکجاء کرکے بی ایس او کے اپنے اپنے طلباء دھڑے بناتے ہیں۔ اس مقصد کیلئے چیئرمین بشیر زیب کے سامنے بڑی مارجن سے ہارے ہوئے محی الدین کو بی این پی اپنا کر بی ایس او محی الدین کی تشکیل کر دیتی ہے جبکہ نیشنل پارٹی اپنا الگ دھڑا بی ایس او پجار کے نام سے بناتی ہے تاکہ اپنے اپنے پارٹیوں کیلئے طلباء کی ذہن سازی کر سکیں لیکن چونکہ یہ بات واضح تھی کہ بی ایس او اپنے پہلے دن سے ہی قومی تحریک اور بلوچ جدوجہد و آزادی کیلئے بنائی گئی تھی تو نوجوان دھڑا دھڑ بی ایس او آزاد کے کاروان میں شامل ہو گئے، ڈی جی خان سے لیکر ساحل مکران تک ایسا کوئی علاقہ، کوئی گاؤں نہیں تھا جہاں بی ایس او آزاد کے کاروان کے ساتھی نہیں تھے۔ جس کے بعد پارلیمانی پارٹیوں کے طلباء ونگ کی بلوچ سماج اور قومی تحریک میں کوئی حیثیت نہیں رہی جو صرف کوئٹہ تک محدود رہے ۔ جبکہ بی ایس او آزاد جو کسی بھی پارٹی کے پابند نہیں تھی، خودمختیار اور آزادی سے اپنا کام کرتا رہا اور عوام اور نوجوانوں کو آزادی کی طرف گامزن کیا، جس کی بھاری قیمت بھی انہوں نے چکائی ہے۔

آج جب بی ایس او آزاد سرفیس سیاست سے کنارہ کش ہے تو ہر چار دن بعد کوئی میڈیا میں آکر بی ایس او کا دعوے دار ہونے کا دعویٰ کرتا ہے اور بی ایس او کے کاروان کے شہیدوں کے لہو سے اپنا نام اور اپنے مفادات حاصل کرنا چاہتا ہے۔ بی ایس او کی اپنی ایک زندہ تاریخ ہے جسے کچھ پارلیمانی پارٹی اور کچھ نام نہاد نظریاتی و سوشلزم کا دعوے دار نقصان پہنچانا چاہتے ہیں جن کے خلاف نوجوانوں کو کھڑا ہونا ہوگا۔

گزشتہ دنوں سوشل میڈیا کے پلیٹ فارم پر ایک پارلیمانی جماعت کے طلباء ونگ اور کچھ نام نہاد سوشلزم کے دعوے دار افراد کی جانب سے بی ایس او کے نام پر ایک بحث دیکھنے کو ملا جہاں ایک جانب پارلیمانی جماعت کے طلباء ونگ اپنے آپ کو حقیقی بی ایس او جبکہ دوسری جانب نام نہاد سوشلسٹ بی ایس او کے مالک ہونے کا دعوی کر رہے ہیں جس سے نوجوانوں میں بی ایس او کے حوالے سے ایک غلط تاثر پھیل رہا ہے اور بی ایس او کا امیج ان کی غیر زمہ دارانہ رویوں کی وجہ سے خراب کیا جا رہا ہے جبکہ حقیقی معنوں میں ان دونوں دھڑوں کا حقیقی بی ایس او سے کوئی تعلق نہیں ہے جبکہ بی ایس او کے حقیقی وارث آج بھی بی ایس او آزاد کی شکل میں وجود رکھتی ہے اورقومی تحریک اور بلوچ سماج کی ترقی میں ایک نمایاں کردار ادا کر رہی ہے۔ نوجوانوں کو ایک منظم لٹریچر سمیت انہیں ایک واضح پروگرام دے رہی ہے۔

جبکہ بی ایس او کے دعویٰ دار دونوں دھڑوں کا کردار سماج اور بلوچ نوجوانوں کیلئے صفر ہے۔ حقیقت میں دونوں دھڑوں کا قومی تحریک سے کوئی تعلق نہیں بلکہ نوجوانوں کو تذبذب کا شکار کرنے میں ان کا بہت بڑا کردار ہے۔ کیونکہ حقیقی بی ایس او کا نہ پارلیمنٹ سے کوئی تعلق ہے اور نہ نام نہاد سوشلزم سے بلکہ بی ایس او خالص قومی آزادی کی جدوجہد کیلئے برسرپکار رہی ہے۔

ایسے شورشرابوں اور ایک دوسرے کے اوپر کیچڑ اچھالنے سے بلوچ طلباء سیاست متاثر ہو رہا ہے۔ بلوچ نوجوان پاکستانی کرپٹ سیاست سے متاثر ہوکر اپنے حقیقی مقصد سے فراموش ہو رہے ہیں۔ یہ دونوں یا پجار سمیت بس بلوچ قوم کو ورغلا رہے ہیں اور بلوچ جہد آجوئی کے خلاف دانستہ یا غیر دانستہ طورپر کام کر رہے ہیں۔ بی ایس او کے نام کو آج بلوچ نوجوانوں کی شہادت نے ایسا مقام دیا ہے کہ ہر کوئی اسے اپنا میراث سمجھ کر بی ایس او کے نام پر اپنی سیاست چمکانے کی کوشش کر رہی ہے۔ بی ایس او کی تاریخ میں سب سے بڑا سوشلسٹ اور مارکسسٹ حمید شاہین تھے جنہوں نے بلوچستان میں تمام مسائل کا جڑنوآبادیات سے جوڑتے ہوئے قومی سوال کے حل کرنے کو پہلی ترجیح دیتے ہوئے پاکستانی نوآبادیات کے خلاف مسلح جدوجہد کے راستے کا انتخاب کیا۔ لیکن آج کچھ ٹولے بی ایس او کا نام لے کر نوجوانوں کو بلوچ قومی تحریک کے خلاف کرنے میں تلے ہوئے ہیں۔

بلوچ سماج اور عوام میں بی ایس او کو بطور قومی تحریک کا ایک اٹوٹ حصہ سمجھا جاتا ہے۔ قومی آزادی اور غلامی کے خلاف نجات کی جدوجہد کے بغیر بی ایس او کی بلوچ عوام میں کوئی حیثیت حاصل نہیں۔ بی ایس او کی پہچان قومی تحریک سے ہے۔ بی ایس او کا نام استعمال کرنے والے اس تاریخی حیقیقت گوش گزار کر لیں کہ بی ایس او کے شہداء کے خون سے غداری کرکے بی ایس او کو پاکستانی فریم ورک کی سیاست اور نام نہاد سوشلزم کی سیاست سے جوڑکر وہ ایک ایسی تاریخی بھول کر رہے ہیں جنہیں بلوچ قوم کبھی بھی معاف نہیں کرے گی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں