ایک بلوچ ماں کی بلوچ قوم سے معجزانہ اپیل ۔ ڈاکٹر شکیل بلوچ

332

ایک بلوچ ماں کی بلوچ قوم سے معجزانہ اپیل

تحریر: ڈاکٹر شکیل بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

جب مصیبت آتا ہے تو اپنے ہی یاد آتے ہیں، استحصال زدہ خطہ جہاں ہر طرف لوٹ ماری اپنی عروج پر ہے، قدرت نے اس سر زمین کو ساحل وسائل اور ہر طرح کی دولت سے نوازا ہے، لیکن دنیا کی ساری مصیبتیں، قدرتی اور مصنوعی آفات اس سر زمین کے فرزندوں کی مقدر بن چکی ہیں، یہاں قلیل ترین بیماری بھی خوبصورت زندگیوں کو لقمہ اجل بناتی ہے، یہاں ندیوں کا پانی بھی سینہ تھام کر بستیوں کو اجاڑ دیتی ہے، یہ وہ خطہ ہے جہاں چور اور ڈاکوؤں کے ہاتھوں زندگیاں اور انسانی جانیں سستی بِک جاتی ہیں، ایک عام زخم بر وقت علاج نہ ہونے سے کینسر کی بیماری میں تبدیل ہو جاتی ہے۔

کیونکہ علاج کیلئے کوئی ہسپتال نہیں، اگر ہسپتال کے نام پر دو کمروں پر مشتمل چار دیواری ہے تو ان میں نہ کوئی لیبارٹری ہے، نہ کوئی اسپیشلسٹ ڈاکٹر، نہ کوئی الٹراساؤنڈ مشین، نہ ایکسرا۔

سال میں کئی بلوچ مائیں ڈلیوری کیس میں تڑپ تڑپ کر یہاں تو اپنے گھر میں موت کے نظر ہوجاتے ہیں، اگر کسی کو تھوڑی بہت گنجائش ہے باہر علاج کیلئے تو وہ ہسپتال پہنچنے سے پہلے ہی راستے میں خدا کو پیارے ہوجاتے ہیں، کیونکہ ایمرجنسی کی صورت میں ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی وجہ سے بروقت ہسپتال نہیں پہنچ سکتے۔

مجھے یاد ہے جب میں نے وٹرینری گریجویشن کیلئے اپنا انٹرنشپ یونیورسٹی آف وٹرینری اینڈ اینیمل سائنس لاہور میں کیا تو جانوروں کی ہسپتال کے سہولیات کو دیکھ کر میں دنگ رہ گیا کہ یہاں جانوروں کی بیماریوں کی تشخص کیلئے ایکسرے میشن، الٹراساؤنڈ مشین، جدید سہولیات سے آراستہ آپریشن تھیٹر، اور ہسپتال میں جانوروں کی بیماریوں کی علاج کیلئے مختلف ادویات میسر تھے۔ انٹرنشپ کے دوران ایک مادہ اور عمر رسیدہ بلّی کو جب علاج کیلئے لایا گیا تو الٹراساؤنڈ کے زریعے بیماری کی تشخص کی گئی جنکو Metritis یعنی بچّے دانی کی سوزش تھی، ڈاکٹر نے بلّی کے Owner کو بتایا کہ یہ بلّی عمر رسیدہ ہے، اب وہ مزید بچّے پیدا نہیں کرسکتی، Metritis کی وجہ سے اب انہیں Hystrictomy (بچّے دانی کو نکالنا) کرنا پڑتا ہے، لہزا ان کو علاج کرنے سے بہتر ہے کہ Mercifull Killing سے انکی زندگی کا خاتمہ کیا جائے تو بہتر ہے، لیکن بلّی کی مالک نے ڈاکٹرز کو کہا کہ انکا علاج ضرور کرنا ہے، تو ڈاکٹرز نے فورََا آپریشن تھیٹر میں بلی کو ایڈمٹ کیا وہاں انکو Anaesthesia دے کر بے ہوش کیا گیا، اور آپریشن تھیٹر میں 40 منٹ سے ایک گھنٹے میں بلی کو سرجری کرکے انکے بچے دانی کو نکال دیا گیا اور بلی کا مکمل طور پر علاج کیا گیا۔

وہاں کے جانوروں کی جدید سہولیات سے آراستہ ہسپتال کو دیکھ کر میں تجسس میں پڑ گیا کہ یہاں جانوروں کا کتنا خیال رکھا جاتا ہے لیکن بلوچستان کی بدبخت بلوچ مائیں Well Equiped ہسپتال اور سرجن نہ ہونے کی وجہ سے ڈلیوری کیس میں مر جاتے ہیں، پھر میں نے سوچا کہ شاید بلّی کی قیمت انسان کی جان سے زیادہ قیمتی ہے، لیکن جستجو کرنے کے بعد پتہ چلا کہ بلی بھی ایک عام دیسی بلی ہے انکا اچھے نسل Breed سے کوئی تعلق نہیں۔

یعنی وہاں دیسی بلّیوں کی علاج کیلئے بھی جدید سہولیات سے آراستہ ہسپتال موجود ہیں لیکن بدبخت بلوچوں کیلئے ہسپتالوں میں پیناڈول کی گولی بھی دستیاب نہیں۔

یہاں ہلکا سا زخم بروقت علاج نہ ہونے سے کینسر میں تبدیل ہوتی ہے، اور پھر کینسر Metastatic کی صورت میں پورے جسم میں پھیل کر بلوچوں کو ٹرپا تڑپا کر موت کے گھاٹ اتار دیتی ہے۔ کیا ہوا بس ایک زندگی ضائع ہوئی، یہ تو ایک بیماری تھی، بیماریاں رب کی طرف سے آتی ہیں۔ یہ بیماری انکی قسمت میں لکھ چکی ہوگی وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ بس بات یہاں تک ختم!
یہ ہے صورتحال بلوچ سر زمین کے باسیوں کا۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان کا آبائی علاقہ آواران بلوچستان کا سب سے زیادہ پسماندہ ترین ضلع ہے، یہاں اکثر لوگوں کی زندگیوں کا خاتمہ جھاؤ کے مقام پر ہوتا ہے، کیونکہ بیلہ ٹو آواران تک ڈھائی گھنٹے کا سفر راستے نہ ہونے کی وجہ سے بمشکل چھ گھنٹے تک طے ہوتا ہے۔ ایمرجنسی کیس میں جب لوگ گاڈی بکنگ کرکے آواران سے نکلتے ہیں تو تین چار گھنٹے بعد جھاؤ میں پہنچتے ہی دم توڑ دیتے ہیں۔ آواران میں نہ جدید سہولیات سے آراستہ کوئی ہسپتال تعمیر کی گئی ہے اور نہ کوئی پکّے روڈ۔۔۔ انشاءاللّہ اس موضوع پر لکھتا رہوں گا۔

بلوچستان کےہر ضلع میں بلوچوں کا حال یہی ہوگا جس طرح آواران کا ہے، لیکن اب میں کیچ کے ایک نادار بلوچ ماں کا التجا آپ لوگوں کے سامنے پیش کر رہا ہوں، جنکی التجا تحریری صورت میں وائس آف مَکُّران کے پیج پر پڑھنے کو ملا۔

بلوچ ماں فاطمہ کی بلوچ قوم سے التجا ہے کہ “میں ایک غریب گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں اور دو سال بیت چکے ہیں کہ میرے سر پر ایک ناسور زخم نکل آیا ہے، میرے پاس علاج کیلئے پیسے نہیں، میں نے اپنے بس اور گنجائش کے مطابق علاج کی کوشش کی ہے لیکن مزید علاج جاری رکھبنے کیلئے میرے پاس پیسے نہیں لہٰذا میری قوم سے التجا ہے کہ وہ علاج کیلئے میرے ساتھ مدد اور تعاون کریں۔

حبیب بینک لمیٹڈ
اکاؤنٹ: 1040790060703
رابطہ: 03311343183


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں