ََوہ آنکھیں نہ خشک ہیں،نہ روتی ہیں ۔ محمد خان داؤد

334

ََوہ آنکھیں نہ خشک ہیں،نہ روتی ہیں

تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

مرزا اطہر بیگ نے لکھا ہے کہ”دنیا ان آنکھوں کی طرح ہے جو نہ خشک ہیں نہ روتی ہیں“
شال کی گلیوں میں موجود وہ کچھ آنکھیں بھی اس دنیا کی مانند ہیں جو نہ خشک ہیں اور نہ روتی ہیں
ان آنکھوں کو دور سے دیکھو تو خشک ہیں ان آنکھوں کو پاس سے دیکھو تو یہ روتی نظر آتی ہیں
روتی کیا پر التجا کرتی نظر آتی ہیں کہ ”خدارا!اب تو رونے دو
خدارا!اب تو گیلا ہونے دو
خدارا!اب تو جھلکنے دو!“
دنیا خشک آنکھوں سے واقف ہے کیونکہ دنیا ان آنکھوں کو دوری سے دیکھتی ہے۔

پر وہ سیکڑوں دل، وہ پہاڑ،پہاڑوں کے دامنوں میں کچے گھر،شال کی گلیاں وہ مائیں جن کی وہ آنکھیں ہیں،وہ بیٹیاں جو ان سینکڑوں آنکھوں کو ہر صبح ہر شام ان آنکھوں کو تکتے ہیں وہ جانتے ہیں کہ وہ آنکھیں خشک نہیں،وہ آنکھیں گیلی ہیں،اور روتی ہیں، بے قرار ہوتی ہیں۔ بے چین ہوتی ہیں اور اپنے پنہوں کا پتہ پوچھتی ہیں۔ دنیا ان آنکھوں سے واقف ہے جو مظاہروں میں شریک ہو تی ہیں، ہاتھوں میں بینر لیے چلتی، تقریر کرتی ہیں،ریاست کو للکارتی ہیں،سفر کرتی ہیں۔مسافری میں ماری جا تی ہیں، پیر دھول آلود ہوتے ہیں۔سروں سے دوپٹے سُرکے رہتے ہیں۔ مانگ میلی ہو جا تی ہے۔ درد سے بھر جاتی ہیں۔ جن کی صبح بھی دردیلی ہو تی ہے۔جن کی شامیں بھی دردیلی ہو تی ہیں،جو مختصر جیون طویل درد سے جینے کی سزا میں جیتی ہیں ان کی آنکھیں خشک کیا پر خشک تر ہو تی ہیں۔

پر وہ مائیں،وہ بیویاں،وہ بیٹیاں جو نما شام شال کی گلیوں سے گھروں کو لوٹتی ہیں،جو شہر یارا کی سڑکوں سے بے سرو سامانی میں واپس پہاڑوں کے دامنوں میں لوٹتی ہیں۔جو شہر اقتدار کی سڑکوں سے اداس اداس اپنے پنہوں کے ملک لوٹتی ہیں۔جو درد سے بھرجاتی ہیں۔جو ڈوبتے سورج کودیکھ کر ایسے الفاظ اپنے لبوں پر لاتی ہیں کہ
”آؤں نہ گڈیس پرین کھے
تون تھے لھین سج!“
”میں محبوب سے نہیں مل پائی اور تم ڈوب رہے ہو سورج؟“
جو مائیں دیس کی بہار جیسی تھیں
جو بیٹیاں دیس کی خوشی جیسی تھیں
جو مائیں دھرتی کی مہک جیسی تھیں
جو بچیاں دیس کی لالی جیسی تھیں
جو بیٹیاں دیس کا پہلا پہلا موسم تھیں (بہار)
وہ پانچواں موسم بن کر رہ گئی ہیں
درد کا موسم،اور درد میں درد کو جھیلنے کا موسم!
وہ درد سے بھر گئی ہیں ان کی آنکھیں خشک تر نہیں۔ان کی آنکھیں نم نم ہیں۔ان کی آنکھیں گیلی گیلی ہیں۔وہ آنکھیں رونا چاہتی ہیں!
ان آنکھوں نے اپنوں کی دوری کا درد جھیلا ہے
ان آنکھوں نے انتظاری کا درد سہہ ہے
ان آنکھوں نے رتجگے کیے ہیں
ان آنکھوں نے عیدوں کا بار اپنی پتلیوں پر اُٹھایا ہے
وہ آنکھیں زمانے سے مصلوب ہیں
وہ آنکھیں مسیح کی نہیں
پر ا ن آنکھوں کے پیچھے درد برداشت کرنے والی سب مریمیں ہیں
بلوچ دھرتی کی مریمیں!
یہ تو دوری کے درد میں آنکھیں روتی ہیں۔پر جب عید کا سورج دیس پر طلوع ہوتا ہے اور دربدر بیٹیاں اپنے آس پاس اپنے باباؤں کو تلاش کرتی ہیں۔انہیں ڈھونڈتی ہیں۔ان کی خوشبو کو محسوس کرنا چاہتی ہیں اور وہ نہیں ملتے تو ان آنکھوں کا کیا جن آنکھوں کے درد پر بھٹائی سے لیکر ایاز سب نے لکھا ہے
ہمت ہے تو ان آنکھوں میں جھانکو جو نہ خشک ہیں اور نہ روتی ہیں۔بس بے قرار ہیں
پر ہم جانتے ہیں ان آنکھوں پر بھی ساون آتا ہے اور وہ ایسے برستی ہیں جیسے بادل آکاشوں میں پھٹ پڑتے ہیں اور پہاڑوں سے لیکر پہاڑوں کے دامنوں میں سب کچھ جل تھل ہوجاتا ہے
ہاں وہ آنکھیں بھی جب پھٹ پڑتی ہیں جب عید کے ایام آتے ہیں اور گھروں میں موجود بوڑھی مائیں اپنے گم شدہ بچوں کے وہ کپڑے لیکر ماتمی لباس پہن لیتی ہیں جو کپڑے کبھی ڈاکٹر دین محمد نے اپنے جسم پر پہنے تھے۔وہ کپڑے جو کبھی ذاکر مجیدنے کبھی اپنے جسم پر پہنے وہ کپڑے جب کپڑے نہیں رہتے درد بن جاتا ہے اور ماؤں کو اتنا رُلاتا ہے کہ مائیں ماتم میں مل کر ماتم ہو جاتی ہیں اور پیچھے سورج ڈوب جاتا ہے!
آج بھی شال کی گلیوں میں اور کراچی کی سڑکوں پر عید کے روز بلوچ مائیں ماتم سے مل کر ماتم بنی ہوئی ہیں اور سورج ڈوب رہا ہے
اور سورج ڈوب ہی جائے گا
پھر چاند درد کی گھیری پر ہلکی سی لکیر کی ماند
گھروں پر طلوع ہوگا
اور ماؤں کا درد گلاسوں میں پڑی مہ کی ماند
.سڑکوں پر پڑے گھیرے کھڈوں میں پڑے بارشوں کے پانیوں کی ماند
چھلک پڑے گا
اور خشک تر آنکھوں والی مائیں
بہت روئیں گی
اور آنکھیں گیلی ہو جائیں گی
تو ہم کیوں کر دیکھ پائیں ان آنکھوں کو جو
ََ”وہ آنکھیں نہ خشک ہیں،نہ روتی ہیں!“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں