لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں مارنا تمام سیاسی پارٹیوں کے منہ پر طمانچہ ہے۔ ڈاکٹر ماہ رنگ

684

گذشتہ روز بلوچستان کے ضلع زیارت میں پاکستانی فوج کے ہاتھوں جعلی مقابلے قتل ہونے والے نو افراد میں سے پانچ کی شناخت پاکستانی فورسز کے ہاتھوں جبری گمشدگی کے شکار افراد کے طور پر کی گئی ہے۔

شناخت ہونے والوں میں شمس ساتکزئی، انجینئر ظہیر، شہزاد دہوار، مختیار اور سالم شامل ہیں، پہلے سے لاپتہ افراد کو مقابلے کا نام دے قتل کرنے پہ بلوچ حلقوں میں شدید غم و غصہ پایا جارہا ہے۔

بلوچ طالب علم رہنماء ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹویٹر پہ اس حوالے سے لکھا ہے کہ لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں مارنا نہ صرف خطرناک بلوچ نسل کشی ہے بلکہ بلوچستان اور پاکستان میں ان تمام سیاسی پارٹیوں اور لوگوں کے منہ پر طمانچہ ہے جو سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں عدالتیں اور پارلیمنٹ آزاد ہیں،

انہوں نے کہا کہ بلوچ نسل کشی میں پاکستان کی سیاسی جماعتیں شریک جرم ہیں۔

انہوں مزید لکھا ہے کہ مہینوں اور سالوں سے لاپتہ افراد کو جعلی مقابلوں میں مارنے سے آپ نہ صرف ایک ظالم ریاست ہونے کی ثبوت دے رہے ہو بلکہ آپ ماں بہنوں کی بدعاؤں کو بھی لے رہے ہو۔یہ یتیم بچوں ماں بہنوں کی دلوں سے نکلتی بددعایں آپ کو اس گمنڈی طاقت کے ساتھ نیست ونابود کردیگا۔

خیال رہے کہ بارہ اور تیرہ جولائی کے درمیانی شب نامعلوم افراد نے پاکستانی فورسز کے ایک حاضر سروس کرنل کو اس وقت اغواء کرلیا جب وہ اپنی خاندان کے ہمراہ بلوچستان کے علاقے زیارت کی جانب سفر کررہے تھے۔

مذکورہ کرنل کے اغواء کی ذمہ داری بلوچستان میں متحرک آزادی پسند مسلح تنظیم بی ایل اے نے قبول کرلی کرلی جبکہ بعدازاں فورسز نے مذکورہ کرنل کے لاش کو برآمد کرلیا۔

بی ایل اے کی جانب سے میڈیا کو بیجھے گئے ایک بیان کے مطابق لیفٹیننٹ کرنل لئیق بیگ مرزا، بلوچ لبریشن آرمی کے ایک اہم ہدف تھے اور بی ایل اے کی انٹیلی جنس یونٹ ان پر نظر رکھا ہوا تھا ۔ 12 جولائی کو دن بھر انکا تعاقب کیا گیا اور آخر کار انہیں ایک ایسے علاقے میں گرفتار کیا گیا، جہاں عوام کے لیے خطرہ کم سے کم تھا۔

بی ایل اے کے مطابق کرنل لئیق کو بلوچستان پر قابض فوج کا ایک افسر ہونے، معصوم بلوچ خواتین و بچوں کی جبری گمشدگیوں، بلوچ نسل کشی اور دیگر جرائم سمیت انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں میں براہ راست ملوث ہونے کی وجہ سے گرفتار کیا گیا تھا۔ انہیں بلوچ قومی عدالت میں پیش کیا گیا اور اپنی بے گناہی ثابت کرنے کا پورا موقع دیا گیا۔ جہاں انہوں نے اپنے تمام جرائم کا اعتراف کیا، جسکی پاداش میں انہیں بلوچ قومی عدالت سے سزائے موت سنائی گئی۔ جسکے فوری بعد سزا پر عملدرآمد کیا گیا۔

فورسز نے کرنل لئیق کی اغواء کے خلاف مذکورہ علاقے میں بڑے پیمانے پر آپریشن کا آغاز کرتے ہوئے پاکستان فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر دوران آپریشن نو افراد کو مارنے کا دعوی کیا تھا تاہم بی ایل اے نے آئی ایس پی آر کے دعووں کی تردید کرتے ہوئے مارے جانے والے افراد کا بی ایل اے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

بی ایل اے نے کہا تھا کہ ہرنائی اور زیارت کے علاقوں میں نام نہاد سرچ آپریشن کے دوران بلوچ لبریشن آرمی کے سرمچاروں کو شہید کرنے کا پاکستانی دعویٰ محض فوج کا ایک پروپگنڈہ حربہ ہے، جسکا مقصد بلوچستان میں اپنی ناکامیوں اور شکست کو چھپانا ہے۔

بی ایل اے ترجمان کا کہنا تھا کہ اس پورے علاقے میں ہزاروں فوجی، درجنوں ہیلی کاپٹر و ڈرون تعینات کرنے کے باوجود، دشمن فوج بی ایل اے سرمچاروں کو روکنے میں ناکام رہی، بلوچ سرمچار کامیابی کے ساتھ اپنے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے بعد آسانی سے نکلنے میں کامیاب ہوئے۔ اپنی اس ناکامی کو چھپانے کیلئے پاکستانی فوج نے ممکنہ طور پر جبری گمشدگی کے شکار بلوچوں کو شہید کرکے انہیں بلوچ سرمچار ظاہر کرنے کی کوشش کررہا ہے۔