زیارت واقعہ: مظاہرین کا ریلیوں کے بعد مرکزی شاہراہ بند کرنے کا عندیہ

296

ملک کے سب سے بڑے اور مقتدرہ ادارے کا سربراہ آ کر ہمیں سنیں اور ہمیں یقین دہانی کرائیں کہ ہمارے جبری لاپتہ پیاروں کو جعلی مقابلوں میں قتل نہیں کیا جائے گا، تب ہم اپنا احتجاج ختم کریں گے۔ ہم اس زمرے میں کل تک کا وقت دیتے ہیں، اس دوران ہم مزید احتجاجی پیدل لانگ مارچ کرتے رہیں گے اور کل کے بعد ہم کوئٹہ – کراچی مین شاہراہ بلاک کر دیں گے۔

ان خیالات کا اظہار زیارت واقعے کے بعد دارالحکومت کوئٹہ میں گورنر ہاوس کے سامنے دھرنا دینے والے مظاہرین نے آج پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔

وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی رہنماء سمی دین بلوچ نے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم گذشتہ ایک ہفتے سے یہاں ریڈ زون میں وائس فار بلوچ مسسنگ پرسنز، بلوچ یکجہتی کمیٹی، نیشنل ڈیموکریٹک پارٹی، بلوچ وومن فورم ،بی ایس او، بی ایس او پجار کے کارکنوں کے ساتھ یہاں پر امن احتجاجی دھرنا دیئے بیٹھے ہیں، روز اول سے ہمارے تین مطالبات رہے ہیں کہ زیارت سانحہ پہ جوڈیشنل کمیشن قائم کی جائے۔ ہم تمام جبری لاپتہ افراد کے لواحقین کو یقین دہانی کرائی جائے کہ ہمارے پیاروں کو جعلی مقابلوں میں قتل نہیں کیا جائے گا۔ تمام جبری لاپتہ افراد کو منظر عام پر لایا جائے۔

انہوں نے کہا کہ اپنے لاپتہ پیاروں کی بازیابی کیلئے ہم اب تک احتجاج کے تمام تر طریقے آزما چکے ہیں، کوئٹہ سے اسلام آباد تک طویل اور تاریخی لانگ مارچ، اسلام آباد میں دھرنا اور وہاں وزیر اعظم پاکستان سے ملاقات کی لیکن اب تک کوئی بھی مثبت پیشرفت نہیں ہوئی ہے، اب ہمارے لاپتہ افراد صحیح سلامت بازیاب ہونے کے بجائے، جعلی مقابلوں میں قتل کیے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے تینوں مطالبات جائز اور آئینی ہیں، بطور اس ملک کے ایک پر امن شہری ہم ریاست سے اپنے اور اپنے پیاروں کی زندگیوں کا تحفظ اور امن مانگ رہے ہیں اور اس کیلئے ہمیں احتجاج کرنے کا بھی بھرپور حق حاصل ہے، ایک مطالبہ جس میں جوڈیشل کمیشن کے قیام کا ڈیمانڈ کیا گیا ہے، اس پہ اتنی سی پیشرفت ہوئی ہے کہ کل حکومت بلوچستان کی طرف سے رجسٹرار آفس ہائی کورٹ کو جوڈیشل انکوائری کمیشن تشکیل دینے کیلئے لیٹر لکھا گیا ہے۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم لاپتہ افراد کے لواحقین جن میں بوڑھی اور بیمار مائیں ہیں، شیرخوار بچے ہیں پچھلے ایک ہفتے سے رات کی سردی اور دن کی گرمی میں یہاں سڑک پہ بیٹھے ہیں مگر مجال ہیں کہ صوبائی حکومت کا کوئی وزیر یا سیکرٹری آکر ہمارے پاس پانچ منٹ بیٹھ کر ہمیں سنے یا اظہارِ یکجہتی کرتے اور بنفس نفیس ہمارے آئینی مطالبات کو تسلیم کرتے، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ حکومت ہمیں سنجیدہ نہیں لے رہی ہے نا ہی ہمارے درد اور تکلیف کا ان کو کوئی احساس ہے، ہمارے دو اور اہم مطالبات پہ اب تک کوئی بھی پیشرفت نہیں ہوئی ہے، اگر اس طرح ہمیں مزید نظر انداز کیا گیا تو ہم مجبوراً اپنے احتجاج میں شدت لائیں گے اور اسے وسعت دیں گے، بلوچستان میں ہزاروں لوگ جبری لاپتہ ہیں جنکے لواحقین مجبوریوں کی بنا پر کوئٹہ نہیں آ سکتے لیکن وہ اپنے اپنے شہروں میں نکل کر اس احتجاج کا حصہ بن سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ اب ہمارا یہی مطالبہ ہے کہ ملک کے سب سے بڑے اور مقتدرہ ادارے کا سربراہ آ کر ہمیں سنیں، ہمارے جائز آئینی مطالبات تسلم کر لیں اور ہمیں یقین دہانی کرائیں کہ ہمارے جبری لاپتہ پیاروں کو جعلی مقابلوں میں قتل نہیں کیا جائے گا، تب ہم اپنا احتجاج ختم کریں گے۔

مظاہرین نے کہا کہ ہم اس زمرے میں کل تک کا وقت دیتے ہیں، اس دوران ہم مزید احتجاجی پیدل لانگ مارچ کرتے رہیں گے اور کل کے بعد ہم کوئٹہ – کراچی مرکزی شاہراہ بلاک کر دیں گے، اس دوران کسی بھی شہری کو کوئی بھی نقصان پہچا تو ریاست اس کا ذمہ دار ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ یہاں موسم کی شدت سے ہمارے بوڑھے ماؤں اور کمسن بچوں کی طبیعت بگڑتی جا رہی ہیں، تمام لواحقین کو سالوں سے جبری لاپتہ اپنے پیاروں کی زندگیوں کے بارے شدید خدشات لاحق ہیں۔