توتک کے ہرگھر کو ماتم کدہ بنانے والو! تم کب مروگے؟ شفیق الرحمٰن ساسولی

888

توتک کے ہرگھر کو ماتم کدہ بنانے والو! تم کب مروگے؟

تحریر: شفیق الرحمٰن ساسولی

دی بلوچستان پوسٹ

کسی کی جبری گرفتاری کا خبر سن کر رونگھٹے کھڑے ہوجانا، ایک خوف طاری ہوجانا اور فکرمند ہوکر پُرغم سوچوں میں ڈوب جانا کہ کیا ہوگا، اب اُس انسان کا جو اِن درندوں کے ہاتھ لگ چکا ہے، اُس کے خاندان پر کس طرح کی کیفیات طاری ہونگے، کس درد سے وہ گذر رہے ہونگے؟

مذکورہ کیفیات پہلے ہر چند دن بعد آکر گزرجاتے تھے مگر اب کئی سالوں سے ان کیفیات نے بلوچ دھرتی کے درد دل رکھنے والے باسیوں کے دلوں کو اپنا مسکن بناچکی ہے کیونکہ اب ان کیفیات کے آمد کے اسباب ہر روز وقوع پزیر ہوتے رہتے ہیں۔

مذکورہ کیفیات کو میں نے کئی گنا زیادہ شدّت سے تب محسوس کیا، جب ایک واقعہ 18 فروی 2011 کو بلوچستان کے ضلع خضدار کے شہر توتک میں پیش آیا۔

اس واقعہ کی منظر کشی کرتے ہوئے عظیم لکھاری برناز بلوچ لکھتے ہیں کہ جب دھرتی ماں کے فرزند توتک شہر میں کسی سنگت کے ہاں ٹہرے ہوئے تھے اور علی الصبح دشمن نے پورے شہر کو گھیرے میں لے لیا تھا اور پھر فائرنگ شروع کردی۔ فائرنگ کی آواز سن کر کچھ دوست فوراً باہر نکلے کہ آیا فائرنگ کیسی ہے؟ باہر جاکر پتہ چلتا ہیکہ دشمن نے ہمیں گھیرے میں لے لیا ہے جبکہ لوگ حیران و پریشان گھروں سے باہر گلیوں میں کھڑے ہیں۔ یہ دیکھ کر دوست فوراً بیٹھک کی جانب دوڑتے ہیں اور دیگر ساتھیوں کو باخبر کرتے ہیں کہ ہم دشمن کے گھیرے میں ہیں اور جلدی نکلنے کی تجاویز دیتے ہیں، مگر واقعے کی اچانک وقوع پذیری کی وجہ سے کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کیا کریں۔

اُدھر ہانی کے دو دلیر و باہمت اور جذبے سے سرشار فرزند اپنے دوستوں کو تحفظ فراہم کرنے کی غرض سے دشمن کے ساتھ جھڑپ میں لگ جاتے ہیں اور بڑی دلیری سے اُن کا سامنا کرتے ہیں تاکہ باقی دوست محاصرے سے نکلنے میں کامیاب ہوسکیں۔ یہ دو جانباز اور کوئی نہیں، شہید نعیم جان و یحیٰی ہوتے ہیں۔

آگے لکھتے ہیں کہ اِیک دلیر ماں دشمن کے ساتھ جھڑپ میں مشغول بیٹے کی طرف دوڑتی ہے اور بیچ رستے اُن کی نظر بڑے بیٹے پر پڑتی ہے، جو اپنے دیگر ساتھیوں سمیت دشمن کے مقابلے کا منتظر ہوتے ہیں اور اُن سے مخاطب ہوکر اُنہیں ایک مخصوص اور محفوظ جگہ چُھپنے کی تلقین کرتی ہے، اور بیٹے کو نصیحت کرتی ہے کہ اپنے دوستوں کو اکیلا کسی حال میں نہیں چھوڑنا ، اُن کی حفاظت کرنا ہے، ان کے شانہ بشانہ کھڑا رہنا ہے۔ دشمن کے ساتھ جھڑپ میں نعیم جان و یحیٰی شہید ہوجاتے ہیں، دشمن گھر گھر تلاشی لیتی ہے، قیمتی سازو سامان لوٹ کر گھروں میں آگ لگا دیتی ہے ، ہرطرف دھواں ہی دھواں ، متاثرین کی درد بھری چیخیں چاروں طرف گونج اٹھتی ہیں، ایک ایسا واقعہ جو قیامت کا منظر پیش کررہی ہوتی ہے۔

صبح کی شروع ہوئی آپریشن شام تک برقرار رہتی ہے، بےرحم و وحشی دشمن اپنی ہر طرح کی ظلم و زیادتی ڈھانے کے بعد درجنوں افراد ایک ہی خاندان کے جن میں بوڑھے اور جوان شامل ہیں حراست میں لیکر اپنے ہمراہ لے جاتی ہے۔

ایک ایسا واقعہ جس نے کئی لوگوں کی گھروں میں اندھیرا کردیا ہے، اور اُنکی زندگی سے خوشیاں چھین لی ہے ۔ حراست میں لئے کچھ افراد کی بعد میں لاشیں پھینک دی گئیں اور ایک ہی خاندان کے 16افراد سمیت کئی لوگ تب سے اب تک لاپتہ ہیں۔

قارئین! برناز بلوچ کے الفاظ سے پہلے میں نے لکھاکہ
” کسی کی جبری گرفتاری کا خبر سن کر دل کا رونگھٹے کھڑے ہوجانا، ایک خوف طاری ہوجانا اور فکرمند ہوکر پُرغم سوچوں میں ڈوب جانا کہ کیا ہوگا، اب اُس انسان کا جو اِن درندوں کے ہاتھ لگ چکا ہے، اُس کے خاندان پر کس طرح کی کیفیات طاری ہونگے، کس درد سے وہ گذر رہے ہونگے؟ مذکورہ کیفیات پہلے ہر چند دن بعد آکر گزرجاتے تھے مگر اب ان کیفیات نے بلوچ دھرتی کے درد دل رکھنے والے باسیوں کے دلوں کو اپنا مسکن بناچکے ہیں کیوں کہ اب ان کیفیات کے آمد کے اسباب ہر روز وقوع پزیر ہوتے رہتے ہیں۔مذکورہ کیفیات کو میں نے کئی گنا زیادہ شدت سے تب محسوس کیاجب ایک واقعہ 18 فروی 2011 میں بلوچستان کے ضلع خضدار کے شہر توتک میں پیش آیا۔

قارئین! 18 فروری 2011 کے بعد مذکورہ کیفیات کو اسی شدّت کے ساتھ میں نے محسوس کیا جب دو ہزار چودہ میں 169 لوگوں کی اجتماعی قبر دریافت ہوئی، یہی غم میں نے تب محسوس کی جب حاجی عبداللہ قلندرانی کو دو جوان بیٹوں کے غم میں سسک سسک کر انتقال کرتے ہوئے دیکھا۔ یہ شدت تب محسوس ہوئی جب مرحوم جمعہ خان قلندرانی کوپیران سال والد اور بیٹے کے گمشدگی کی غم کو قبر میں لے جاتے ہوئے پایا، اسی طرح بیٹے کی جدائی میں گامڑ خان کے رحلت کا سنا۔

اور جب میں نے ابھی عیدِقربان کے دن سناکہ اسی واقعے میں لاپتہ نثار احمد گرگناڑی کے والد حاجی محمدیعقوب خان بیٹے کے جدائی کا غم لئے انتقال کرچکےہیں تو وہی کیفیات شدت سے محسوس کرتے ہوئے بے اختیار میرے منہ سے یہ الفاظ نکلے کہ “توتک کے ہرگھر کو ماتم کدہ بنانے والو! تم کب مروگے؟”