تربت: عید کے دوسرے روز جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج

319

عیدالاضحٰی کے دوسرے روز بلوچستان کے ضلع کیچ کے مرکزی شہر تربت میں پاکستانی فورسز کے ہاتھوں بلوچ طلبا اور سیاسی کارکنوں کی جبری گمشدگیوں کے خلاف احتجاج کیا گیا۔

بلوچ طلبا کی جانب سے پریس کلب سے ایک ریلی نکالی گئی۔

ہاتھوں میں لاپتہ افراد کی تصویریں اور پلے کارڈز اٹھائے شرکاء نے جبری گمشدگیوں کے خلاف نعرہ بازی کرتے ہوئے شہید فدا احمد چوک پر احتجاجی مظاہرہ کیا۔

احتجاج میں خواتین،بچے اور لاپتہ افراد کے لواحقین شامل تھے۔

اس موقع پر مظاہرین نے پاکستانی فورسز اور خفیہ اداروں کے ہاتھوں لاپتہ بلوچ طلبا اور سیاسی کارکنوں کی بازیابی کا مطالبہ کیا۔

مقررین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ 14سالوں سے بھی لوگ لاپتہ ہیں اور انکی زندگی کے بارے میں لواحقین کو کوئی معلومات نہیں دی جاری ہے،مملکت اللہ داد ان لاپتہ افراد کو اپنے عدالتوں میں پیش کرے۔

دو سال قبل تربت سے لاپتہ ہونے والا وسیم بلوچ کی ہمیشرہ نے اس مواقع پر کہا کہ ہم دو سالوں سے بھائی کے لیے اذیت سہہ رہے ہیں۔ریاست اور اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ بھائی کو بازیاب کیا جائے اگر وہ مجرم ہیں تو عدالتوں میں پیش کیا جائے اس طرح بلوچوں کو ازیت نہ دی جائے۔

احتجاجی مظاہرے سے رواں سال مئی کو راولپنڈی سے لاپتہ ہونے والے طالب علم فیروز بلوچ کے کزن نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جب فیروز لاپتہ کیا گیا تو شروع میں ہمارا ایف آئی آر تک درج نہیں کی گئی بعد ازاں ایمان مزاری کی کوششوں سے ایف آئی آر درج ہوا اور کیس کی سماعت شروع ہوا۔

انہوں نے کہا کہ دوسرے سماعت تک جج کو ہٹایا گیا اور کیس کو بھی ختم کیا گیا اس نظام سے لوگوں کا اعتماد اٹھ چکا ہے لاپتہ افراد کی لواحقین کو بھی ہراساں کیا جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمارے نوجوانوں کو گھروں، بسوں اور تعلیمی اداروں سے لاپتہ کیا جاتا ہے اب ریاست یہ بتائے ہم کیا کریں بلوچ کہاں جائیں؟

انہوں نے کہا کہ عید کے دنوں ہمارے ماں بہنیں سڑکوں پر ہیں ہم شوق سے نہیں مجبوری پر سراپا احتجاج ہیں ۔

اس احتجاج میں نیشنل ڈیموکرٹیک پارٹی کے لاپتہ رہنماء ڈاکٹر جمیل بلوچ کے لواحقین نے خطاب کرتے ہوئے کہ میں بارکھان سے یہاں آیا ہوں تاکہ جمیل بلوچ کا مقدمہ پیش کروں۔

انہوں نے کہا کہ جمیل بلوچ کی بیٹی اس ریاست سے بابا کی بازیابی کا مطالبہ کررہی ہے لیکن ریاست بلوچوں کو نہیں سنتا ہے،ہمیں ایک دوسرے کا آواز بننا ہوگا۔

کیچ سے تعلق رکھنے والا لاپتہ اسرار بلوچ کے بھائی نے کہا کہ میرے بھائی کو 2015 کو کوئٹہ سے لاپتہ کیا گیا میں نے عدالتوں اور اداروں کے دروازے کھٹکٹائے لیکن کہیں سے کوئی انصاف نہیں ملا۔

انہوں نے کہا کہ میرے بھائی کو ایف سی والوں نے لاپتہ کیا جو کئی سالوں سے لاپتہ ہے اور ہمارے گھروں میں خوشیاں ماند پڑھ گئی ہیں۔

احتجاج میں ضلع کیچ کے مختلف علاقوں سے لاپتہ ہونے والے افراد کی لواحقین نے اپنے پیاروں کی تصویریں اٹھا کر انکی بازیابی کا مطالبہ کیا۔

لواحقین نے کہا کہ ہم ریاست سے مطالبہ کرتے ہیں ہمارے پیاروں کو بازیاب کرکے بلوچ قوم کو اذیت دینا بند کرے۔