مسلح تنظیموں سے جوڑ کر انسانی حقوق کی پامالیوں کو جواز فراہم کی جارہی ہے – بی ایس او آزاد

517

بلوچستان میں متحرک بلوچ طلباء تنظیم بی ایس او آزاد کی جانب سے کہا گیا ہے کہ بی ایس او آزاد کو مسلح جدوجہد سے جوڑنا اور سیاسی کارکنوں کو حراست میں لینا ایک دہائی سے ریاست کی کاؤنٹر پالیسی بن چکی ہے۔

ان خیالات کا اظہار بی ایس او آزاد کی جانب سے سماجی رابطوں کی سائٹ پر کی گئی۔ تنظیم نے امریکی نشریاتی ادارے کے رپورٹ ردعمل میں اظہار خیال کیا۔

امریکی نشریاتی ادارے کے رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسران اور بلوچ طلبہ نے بتایا ہے کہ سیکیورٹی اداروں نے ‘بی ایل اے’ کو افرادی قوت فراہم کرنے کے الزام میں کالعدم طلبہ تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن (آزاد) کے خلاف ازسرِ نو کریک ڈاؤن کا آغاز کر دیا ہے۔

بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کی جانب سے مذکورہ رپورٹ پر کہا گیا ہے کہ بی ایس او آزاد ایک پرامن سیاسی تنظیم ہے جو استعمار کے خلاف جدوجہد کر رہی ہے اور سیاسی جدوجہد کے پرامن ذرائع کو بروئے کار لا کر بلوچ سرزمین کی آزادی کے لیے جدوجہد کر رہی ہے بی ایس او آزاد کو مسلح جدوجہد سے جوڑنا اور سیاسی کارکنوں کو حراست میں لینا ایک دہائی سے ریاست کی کاؤنٹر پالیسی بن چکی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:بی ایس او آزاد کے نومنتخب چیئرمین ابرم بلوچ کیساتھ خصوصی گفتگو

مزید کہا گیا کہ ریاستی اداروں کی طرف سے اس قسم کا بیانیہ واضح طور پر بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کو جواز فراہم کرنے کا ایک حربہ ہے حال ہی میں، ریاست پاکستان بھر کی مختلف یونیورسٹیوں سے طلباء کے اغوا اور لاپتہ ہونے کے واقعات میں تیزی لائی ہے۔ لوگوں کو لاپتہ کرنا بین الاقوامی قانون کے تحت جرم ہے اور اب پاکستان پرامن طلباء کو مسلح جدوجہد سے منسلک کر کے ایسے جرائم کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
مزید کہا گیا ہے کہ ہم انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کے لیے پاکستان کو جوابدہ بنائیں۔ بلوچ نوجوانوں پر اس قسم کے جھوٹے الزامات اس کے جنگی جرائم کا جواز نہیں بن سکتے ہیں۔

بی ایس او کی جانب سے میڈیا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ صحافیوں سے درخواست ہے کہ وہ پرامن سیاسی تنظیم کی کوریج کرتے ہوئے غیر جانبدارانہ رپورٹنگ کریں۔ اپنے موقف پر پردہ ڈالنا اور ریاستی بیانیے کا پرچار کرنے جانبدارانہ صحافت سمجھا جاتا ہے۔