کافر ماؤں کے کافر بچے ۔ محمد خان داؤد

314

کافر ماؤں کے کافر بچے

محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

کیا میں اپنی بات،اس بات سے شروع کروں
”بندوں کا خدا اپنے بندوں کو ہنستا،مسکراتا دیکھنا چاہتا ہے
ریاست اور حکومت،پادری،مُلا کا خدا جانے کیسا ہے رُلاتا ہی رہتا ہے ڈراتا ہی رہتا ہے!“
کیا میں اپنی بات اس بات سے شروع کروں
”جب مائیں مر جائیں تو بچے یتیم نہیں ہو تے
پر جب معصوم بچے مارے جائیں تو مائیں بھی یتیم ہو جاتی ہیں!
آ ج پشاور کی مائیں یتیم ہو ئی ہیں!“
کیا میں اپنی بات اس بات سے شروع کروں
”ظلم یہ نہیں ہے کہ کوئی قتل ہو جائے تو تب بھی دنیا چلتی رہتی ہے
شام ہو تی ہے،رات ہو تی ہے،جیسی تیسی صبح ہو تی ہے
پر ظلم یہ ہے کہ گھر کے تمام لوگوں کے مر جانے پر بھی مائیں چند گھڑیوں کے لیے ہی
پر سوتی ہے،انہیں نیند آتی ہے،وہ خواب دیکھتی ہیں اور ان خوابوں میں وہ آتے ہیں
جو اس وقت سرد خانوں میں اپنے دفن ہونے کی گھڑیاں گن رہے ہوتے ہیں
کیا میں اپنی بات اس بات سے شروع کروں
”جب عبادت خانوں میں ناحق قتل ہو تے ہیں تو اس رات قیامت زمیں پر اتر آتی ہے اور ہر اس چیز کو گھیر لیتی ہے جن کے لوگ مارے جاتے ہیں شہیدوں کی ماؤں کی آنکھیں بس لہو سے نہیں بھری ہو تیں پر وہ اپنی آنکھوں میں قیامت بھی بھر لیتی ہیں
صبح قیامت
شام قیامت
ہر گھڑی قیامت!“
کیا میں اپنی بات اس بات سے شروع کروں
”جب بم دھماکوں میں معصوم بچے مارے جائیں تو سب سے پہلے مائیں ان کی بند مُٹھیاں کھولتی ہیں اور دیکھتی ہیں کہ ان بند مُٹھیوں میں وہ دس بیس روپئے یا وہ ٹوفیاں ہیں یا نہیں جنہیں وہ گھر سے لے کر نکلے تھے اور مائیں دیوانہ وار ننگے پیر،ننگے سر وہاں دوڑتے ہیں جہاں وہ مفت میں قربان ہوئے!“
کیا میں اپنی بات اس بات سے شروع کروں
”جب معصوم بچے بم دھماکوں میں مارے جائیں تو کیا بس ایک قبر بنتی ہے؟
نہیں دو قبریں بنتی ہیں
ایک زمیں کے سینے پر
اور ایک ماں کی دل میں.
زمیں کی قبر کی دھول اُڑ جا تی ہے قبر کے نشان مٹ جاتے ہیں
اور دل کی قبر ہمیشہ گیلی رہتی ہے ماں کا دل اس قبر کے آس پاس
دئیے کی ماند ہمیشہ سُلگتا رہتا ہے!“
آخر میں اپنی بات،کس بات سے شروع کروں؟
میں اپنی بات اس بات سے شروع کرتا ہوں کہ
”گریز از صفِ ما ہر کہ مردِ غوغا نیست
کسے کہ کشتہ نشد از قبیلہ ء ما نیست“
”وہ ہماری صف سے نکل جائے جو آواز اُٹھانے والا نہیں جو قتل نہ ہوا وہ ہمارے قبیلے سے نہیں!“
ہاں بات تو شروع کرنی ہے اور ہم نے اپنی بات شروع کر ہی لی ہے
وہ آواز اُٹھانے والے بھی تھے،وہ اس سے پہلے قتل بھی ہوئے تھے
ہاں یہی ہمارے قبیلے سے ہیں
ان کے لیے ”امن“ لکھے غبارے فضا میں مت بھیجو
ہوا بھرے غبارے خدا کے پاس نہیں پہنچتے،وہ ہوا میں تحلیل ہو جاتے ہیں
اب تو معصوم بچے خدا کے پاس جا رہے ہیں اور خدا کے پاس پہنچ رہے ہیں
اور ان پر ”امن“ لکھا ہوا نہیں
ان کے مسخ شدہ چہرے
ان کے ٹوٹے ہاتھ
ان کے جلے جسم
ان کے کٹے پیر
اور ان کے معصوم پیر جوتوں سمیت
اپنے جسم کے بغیر
خدا کو کہہ رہے ہیں کہ
“ہم ہی کافر
ہم ہی کفر
ہم ہی بُت
ہم ہی کبعہ
ہم ہی مطلوب
ہم ہی قتل ہو آئے“
ان کے معصوم جسموں کی آگ اور ان کے معصوم جسموں پر لکھی ہوئی بارود سے تحریرسے بھی پہلے
ماتم کرتی ماؤں کی آہ
وہاں پہنچ جاتی ہے جہاں ہوا سے بھرے ”امن“ لکھے غبارے نہیں پہنچتے
عرش ہل جاتا ہے.
کائینات دہل جاتی ہے
اور فرشتے انکار کر دیتے ہیں وہ لکھی تحریر جو معصوم جسموں پر بارود سے لکھی گئی ہو تی ہے
فرشتے روتے ہیں
مائیں ماتم کرتی ہیں
اور خدا۔۔۔۔۔؟
اور خدا خود پڑھتا ہے اس تحریر کو جو مسلمانوں نے معصوم کافروں کے جسموں پر بارود سے لکھی ہو تی ہے
”جلا ہے جسم تو دل بھی جل گیا ہوگا
کُریدتے کیا ہو جستجو کیا ہے!“
خدا پڑھتا ہے اور روتا ہے اور بارش برستی ہے
رات ہو تی ہے
جیسی تیسی صبح ہو تی ہے
خدا پڑھتا ہے اور روتا ہے
فرشتے آکاش کا بوجھ اُٹھائے اُٹھائے نہیں تھکتے
پر ماؤں کے آنسو
اور پیروں کے سوا
لحو لحو جوتے اُٹھائے تھک گئے ہیں
خدا!
ان فرشتوں کے کاندھوں سے معصوم جوتوں کا بار بار گراں ہٹا لو
خدا!
ان فرشتوں کے کاندھوں سے معصوم یسوعوں کی صلیب اُٹھا لو
ہم نے تو کافروں کو ہی قتل کیا تھا
یہ فرشتے کیوں لرزاں ہیں؟
ہم نے تو کافروں کو قتل کیا تھا؟
یہ مائیں کیوں ماتم کناں ہیں
کوئی تو انہیں بتائے کہ مائیں تو کافروں کی بھی ہو تی ہیں
کوئی تو انہیں بتائے کہ کافر مائیں بھی بچے جنتی ہیں
کوئی تو انہیں بتائے کہ کافر ماؤں کے کافر بچے بھی بُت کدوں میں جاتے ہیں
کوئی تو انہیں بتائے کہ بارود کافروں کے بچوں کو بھی پرزہ پرزہ کر دیتا ہے
کوئی تو انہیں بتائے کہ بارود پیر اور جوتوں میں فرق نہیں سمجھتا
کوئی تو انہیں بتائے کہ جب کافر ماؤں کو معلوم ہوتا ہے کہ اب کچھ باقی نہیں
تو وہ گھرو ں سے ننگے سر،ننگے پیر ہی دوڑتی چلی جاتی ہیں
جب تک بہت دیر ہو چکی ہو تی ہے
خدارا فضا میں ”امن“ لکھے غبارے مت بھیجو


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں