سوات میں لاپتہ افراد کی لواحقین کو احتجاج سے روک کر پولیس سٹیشن میں بند کر دیا گیا – ڈی ایچ آر

492

ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی طرف سے جاری کردہ ایک پریس ریلیز کے مطابق آج 16مارچ کو خیبر پختون خواہ کے علاقے سوات میں لاپتہ افراد اور قیدیوں کی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں نے احتجاجی مظاہرہ کیا اور اپنے پیاروں کی گھر واپسی کی حکومت پاکستان سے درخواست کی –

بیان میں کہا گیا ہے کہ حکومت وقت نے انکی التجا سننے کے بجائے تمام مظاہرین کو پولیس سٹیشن میں بند کر دیا ۔

ترجمان نے کہا کہ چونکہ آج مینگورہ گراسی گراؤنڈ میں وزیراعظم عمران خان کا جلسہ تھا اسی تناظر میں لاپتہ افراد کے لواحقین خصوصاً خواتین وزیر اعظم صاحب کو اپنا پیغام دینےکے لیے احتجاج کر رہی تھیں کہ پولیس نے ان کو گرفتار کر لیا اور ایس ایچ او شہناز ان کو پہلےکانجو پولیس سٹیشن لے کر گئی اور وہاں سے لیڈیز پولیس سٹیشن سوات لے گئی اور ان سے بدسلوکی کی ان کے فون چھین لیےاور مظاہرے میں بنائی گئی ویڈیوز کو زبردستی ڈلیٹ کر دیا گیا اور ان کو ڈرایا دھمکایا حتیٰ کہ مارنے کی کوشش بھی کی۔ ایک گھنٹہ حراست میں رکھنے کے بعد ان کو رہا کر دیا گیا۔

ترجمان نے کہا کہ یہ ظلم صرف اس لیے کیا گیا تا کہ وزیر اعظم صاحب کا جلسہ پر امن رہے۔

اس واقعہ پر ڈیفنس آف ہیومن رائٹس کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ کا کہنا تھا کہ جب میں نے سوات کے مختلف پولیس سٹیشن میں رابطہ کرنے کی کوشش کی اور ان کو صورتحال کے بارے میں آگاہ کرنا چاہا تو انہوں نے مجھے گمراہ کیا اور بتایا کہ سوات میں ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا، لواحقین کے رہا ہونے کے بعد ساری صورتحال کا پتہ چلا۔

آمنہ مسعود جنجوعہ نے واقعہ کی پر زور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ سوات پولیس نے تمام دکھی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کے سا تھ بد سلوکی اور بدتمیزی کی اور ان کو مارنے کی کوشش کی یہ رویہ بالکل بھی قابل قبول نہیں ہے ان کا حکومت سے مطالبہ ہے کہ شہناز SHO تھانہ سوات کو خواتین کے ساتھ بدسلوکی کرنے پر فوری معطل کیا جائے اور بے گناہ قیدیوں کی ماؤں بہنوں اور بیٹیوں کی التجا سنی جائے ان کو فوری انصاف فراہم کیا جائے۔ آٸندہ پولیس کیطرف سے ایسی حرکت پر پورے پاکستان میں احتجاج کی کال دی جاٸیگی۔