بلوچستان میں جبری گمشدگیوں میں مزید اضافہ ہوا ہے – لانگ مارچ رہنماء

452

ریاستی اداروں کے تحویل میں رینے والے افراد کی تعداد میں کمی کی بجائے مزید خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے کو ملا۔ ان خیالات کا اظہار “پیدل لانگ مارچ” رہنماء گلزار دوست بلوچ نے کوئٹہ پریس کلب میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر ماما قدیر بلوچ، غفار بلوچ، بی ایس او کے رہنماء زبیر بلوچ اور لاپتہ راشد حسین بلوچ کی والدہ بھی موجود تھی۔

پریس کانفرنس سے خظاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ گذشتہ دو دہائِوں سے بلوچستان میں نوجوانوں، بزرگوں و خواتین کو جبری طور پر لاپتہ کرنے کا سلسلہ تیز ہوا ہے اور گذشتہ 14 سالوں سے وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی جانب سے احتجاجی کیمپ لگاکر لاپتہ افراد کے بازیابی کیلئے کوششیں جاری ہیں۔ کئی سالوں سے لاپتہ افراد کے لواحقین و وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے زیر اہتمام کئی احتجاج کیے گئے اور ایک طویل لانگ مارچ کیا گیا جو کوئٹہ سے کراچی اور اسلام آباد تک کیا گیا لیکن ریاستی اداروں کے تحویل میں رینے والے افراد کی تعداد میں کمی کی بجائے مزید خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے کو ملا۔

انہوں نے کہا کہ 27 فروری کو تربت سول سوسائٹی کے فیصلے کے مطابق ننگے پاوں کیچ تا کوئٹہ لانگ مارچ شروع ہوا یہ لانگ مارچ سول سوسائٹی کیچ کے کنوینئر کے سربراہی میں شروع ہوا جو کیچ سے ہوتا ہوا پنجگور، بسیمہ، سوراب، قلات، مستونگ سے ہوتا ہوا 21 مارچ کو شال پہنچ گیا جہاں کیمپ پہنچ کر مارچ کو احتجاجی شکل دی گئی۔

انہوں نے مزید کہا کہ اس احتجاج کا مقصد لاپتہ افراد کو ریاستی اداروں کی تحویل سے نکال کر قانون کے مطابق عدالتوں میں پیش کرنا ہے اور ریاستی سرپرستی میں چلنے والے ڈیتھ اسکواڈ جو منشیات فروشی جیسے گناہ میں شامل ہیں، کا راستہ ایک پرامن طریقہ سے روکنا ہے جبکہ اس مارچ میں ہم نے ایف سی کی آبادیوں سے انخلاء و چیک پوسٹوں پہ تذلیل بند کرنے کے مدع کو بھی شامل کیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ حالیہ واقعات کو دیکھ کر ہم نے یہ فیصلہ لیا تھا کہ ہم سلو مارچ کا آغاز کرینگے جو پورے بلوچستان کے گلی کوچوں سے گزر کر بلوچ عوام کے لخت جگروں کو عقوبت خانوں سے نکالنے کے لیے آواز بلند کریگی۔ جہاں ایک طرف ہم طلبہ و طالبات، نوجوان، خواتین و بزرگوں کو ٹارچر سیلوں سے نکالنے کے لیے کوشاں ہے دوسری طرف ہمارے اوپر مزید ظلم و جبر کے پہاڑ توڑے جارہے ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر ہمیں لاپتہ و پروفائلنگ کا سلسلہ جاری ہے۔

رہنماوں نے کہا کہ بلوچستان یونیورسٹی سے لاپتہ سہیل و فصیل بلوچ ہو یا پھر قائد اعظم یونیورسٹی کے طالب علم حفیظ بلوچ ہو یہ تمام وہ واقعات ہیں جس کے باعث ہم احتجاج کرنے پر مجبور ہیں۔

دریں اثناء وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے بھوک ہڑتالی کیمپ کو 4621 دن ہوگئے۔ اظہار یکجہتی کرنے والوں میں ہائی کورٹ بار کے سابقہ صدر رائب بلیدی بلوچ، ایڈووکیٹ اماں اللہ کاکڑ نے کیمپ آکر اظہار یکجہتی کی۔

وی بی ایم پی کے رہنماء ماما قدیر بلوچ نے وفد سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مارچ کے مہینے میں پاکستان فوجی جارحیت نہ صرف جاری ہے بلکہ بلوچستان کے طویل و عرض میں پاکستان فوج کی بربریت درندگی میں مزید شدت دیکھنے میں آئی ہے، وقت کے ساتھ ساتھ پاکستانی مظالم میں اس بات کی واضح دلیل ہے کہ وہ بلوچ نسل کشی میں کسی بھی حد تک جانے سے نہیں ہچکچاتے ہیں۔

جبکہ خضدار سے لاپتہ سیاسی کارکنوں کے اہلخانہ نے ‏26 مارچ کو سہہ پہر تین بجے لاپتہ کبیر بلوچ، عطاء اللہ بلوچ اور مشتاق بلوچ کی جبری گمشدگی کو 13 سال کا طویل عرصہ مکمل ہونے پر کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاجی مظاہرے اور شام 6 بجے سے رات 12 بجے تک سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر کمپین EndEnforcedDisappearances# چلانے کا اعلان کرتے ہوئے تمام سیاسی جماعتوں،طلباء و انسانی حقوق کی تنظیموں سے مظاہرہ اور کمپین میں بھر پھر شرکت کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے وہ ہمارے پیاروں کی بازیابی کے لئے ہمارا ساتھ دے کر اپنا انسانی و اخلاقی حق ادا کریں۔