یہ بچہ بھی لے جا جہاں انکا باپ ہے ۔ زیردان بلوچ

667

یہ بچہ بھی لے جا جہاں انکا باپ ہے

تحریر: زیردان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

 

آہ، غلامی کتنی بدصورت اور اس کا چہرہ کتنا بھیانک و متوحش ہوتا ہے یہی غلامی ہے اگر ابد تک قوموں پر برقرار رہا قوموں کی وجود کو فنا کر دیتی ہے ، یہ پانچ دن کا بچہ اور اسکی نیم زندہ ماں کی ریاست کے خلاف نفرت اور بے حس معاشرے کے سامنے اپنی لاچارگی کو ایک ساتھ بیان کرنا عام سی بات نہیں یہ اوقات تلخ ہیں۔

دوستوں ! یہ وہ تصویر ہے  جس کی پرکھائی ایک ذاتی نمود و نمائش آدمی کے لئے کافی نہیں  ، لیکن ایک حاملِ وقار بلوچ کے لئے ریاست کی طرف وہ تشدد اور وحشت کو ظاہر کرتی ہے جس کی تمثیل کہیں نہیں ملتی۔

شاید نام نہاد بلوچ ہوں یا اسلام کے نام نہاد سرتاج جنہیں کشمیر ، فلسطین ، شام برما کہیں ہزاروں کلو میٹر ماضیِ بعید یا بعید تو نظر آتا ہے لیکن اپنے قدموں تلے پڑا ظلم ، جبر ، تشدد اور دہشت انگیز جابرانہ عمل دیکھنے کو نہیں مل پاتا۔

بے سہارہ بلوچ ماؤں کی دردناک حسبِ معمول داستان آہ و زاری کو دیکھتے ہی جس انسان کا روح نہیں کانپتا، شاہد وہ تو انسان نہیں خود ایک وحشی درندہ صفت انسانی نمونہ ہوگا۔

کیونکہ یہ بلوچستان کی ہر گھر میں ہر ماں کی نہ ختم ہونے والے سسکیاں ضرور ہیں لیکن ایک بات کہا جاتا ہے آپ آج اگر وقت حاکم ہو لیکن اتنا ظلم کرنا کل تمہیں انہی ظلم کا جواب دینا پڑے گا تو سہہ سکوگے ؟

ہماری ماؤں کی ہر گرتے آنسووں کا ایک ایک خطرہ شاہد آپ کے لئے پانی کی بے کار بوندیں ہوں ، لیکن جب یہ آنسووں کے ایک ایک قطرے اپنی مٹی پر گر کر یہی گواہی دیتا ہے یہ آنسو آپکی سج دھج اور شان کی خاطر گر رہے ہیں گواہ رہنا ۔۔۔

بلوچ ماں بہنیں جس صدی میں سڑکوں چوراہوں میں انصاف اور حق کی خاطر در در کی ٹھوکریں کھائی جا رہی تھیں اور جن دروازوں کو نم آنکھوں اور لرزاں ہاتھوں سے دستک دے رہے تھے ان بند دروازوں کے پیچھے اور نہیں بلکہ بلوچ بیٹھے تھے لیکن وہ دروازے کھلی تو سہی لیکن فریاد سننے سے پہلے دھکے نصیب میں لکھے تھے کیونکہ جرم یہ تھا کہ ایک بلوچ ماں اپنی زندگی کو کھونا نہیں چاہتی تھی ایک بہن سب کچھ جانتے ہوئے بھی اپنی فریاد کے ساتھ ہاتھ جوڑتے رہے لیکن ملا دھکے اور خاموش ہونے کو سرخ آنکھیں دیکھنی پڑی ، جہاں ان آنکھوں کو سرخ ہونا تھا وہاں نظریں جھکی بوٹوں کی ستائش میں لگے تھے۔

اِن ماں بہنوں کو یہی نصیب تھا، ہم سے ہماری لخت جگر دنیا کی بے قیمت دولت ہمیشگی سے نا چھینا جائے ، ہمیں دھکے کھانا کیوں نہ پڑے اور نقطہ کیوں نہ لگایا جائے لیکن ہم پھر بھی اپنی بے بسی اور حقِ فریاد کو در در لے کر جائیں گے ، ایسے کیسے ہم چین سے بیٹھ سکتے ہیں ہمارا وہ زندگی ہم سے چھینی جا چکی ہیں جن کو کبھی غلطی سے کوئی کانٹا چھبتا تو آسمان سر پر بیٹھ جاتا تھا آنکھوں کی روشنی چلی جاتی تھی اور آج ہم گھر میں کیسے بیٹھ سکتے ہیں کس امید سے آنکھیں بند کرکے منتظری کے دنوں کو گنتے رہیں گے۔

آج ہماری مائیں ہمارے حوصلے بن چکے ہیں اور بہادر بہنیں ہماری طاقت ، لیکن جس معاشرے میں عورت کی قدر شناسی نہ ہو یا انہیں گھر کی نوکرانی سمجھ کر انہیں زنجیر نما سوچ سے کس کر باندھا جائے تو سمجھ لینا غلامی نے بہت بے رحمی سے آپ کو اپنے مضبوط گرفت میں رکھا ہے شاہد آپ کو اس وقت باتوں کی نہیں گولیوں کی بوچھاڑ و کسرت کی آوازیں سنائی دیں تاکہ آپکا بہرہ پن کہیں ختم ہو جائے۔

کہنے کا مطلب یہی ہے ان ماں بہنوں کی سسکیاں تو ہمیں سنائی نہیں دے پا رہی ہیں، گرتے آنسو ہمیں نظر نہیں آ رہی ہیں کیونکہ آخر اس مرض کا علاج تو کرنا ہوگا تاکہ ہمارا اندھا پن اور بہرگی ختم ہو جائے اور شعوری عمل سے ہر ایک بہرہ مند ہو کیونکہ غلامی کی بدبودار سوچ اور بے حسی کو خاتمے تک پہنچانا اور نورِ آگاہی سے سرشار کرنا ایک شعوری معاشرہ کی مرہون منت ہے ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں