گوادر دھرنا : جماعت اسلامی اور بلوچ ۔ شاہ میر بلوچ

397

گوادر دھرنا : جماعت اسلامی اور بلوچ

تحریر: شاہ میر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

قیام پاکستان کے بعد بلوچستان کی نومولود ریاست کی ساتھ متنازعہ الحاق سے بلوچ و پاکستان کا تعلقات کبھی مثالی نہیں رہا۔ اس وقت کے بلوچ لیڈرشپ نے اپنی تمامتر بشری کوتاہیوں اور کمزوریوں کے باوجود ریاستی پالیسیوں پر ہر سطح پر مزاحمت جاری رکھا۔ ریاستی پالیسیوں کے خلاف مزاحمت اور بلوچ قومی سوال کو ڈنکے کی چوٹ پر پاکستانی نام نہاد جمہوری اداروں ، میڈیا اور عالمی برادری کے سامنے پیش کرتے رہنے کا یہ سلسلہ 1988 کے انتخابات تک انتہائی موئثر انداز میں جاری رہا۔حالانکہ 1948 سے لیکر 1988 تک بلوچ لیڈرشپ کے درمیان چاہے جتنی سیاسی اختلافات پیدا ہوئے مگر تمام بلوچ سیاسی قوتیں بلوچ قومی سوال کے نقطے پر متفق تھے ، جبکہ سیاسی اختلافات کی بنیاد ذاتی مفادات کے تحفظ کے بر عکس سیاسی حکمت عملی کی بنیاد پر پیدا ہوئے تھے۔ ریاستی ادارے اپنی سر توڑ کوششوں کے باوجود بلوچ قیادت کی خریدو فروخت کی کوششوں میں کامیاب نہ ہو سکے(چند ایک استثنٰی کے علاوہ)۔ یہی وجہ تھی کہ ریاست کو اپنی فوج کو موبلائز کرنا پڑا اور بلوچستان میں چار فوجی آپریشن کرنے پڑے، جن میں ہزاروں بزرگ و نو جوانوں نے بلوچ قومی سوال کے منصفانہ حل کے لیے اپنی قیمتی جانوں کی قربانیاں دیں۔

چونکہ ریاست اور اس کے اداروں کو اچھی طرح معلوم تھا کہ بلوچ قومی سوال آسانی سے ان کا پیچھا چھوڑنے والا نہیں اس لیے ان اداروں نے انتہائی بھونڈے انداز میں سیاسی جماعتوں میں اپنے بندے گھسا دیے تاکہ بلوچ قومی حقوق کی تحریک کو کسی نہ کسی طریقے سے کنفیوز کرکے بلوچوں کی تاریخی سیاسی جدوجہد کو چند وقتی سوالات کے گرد گھما کر بلوچ قومی سوال کے متبادل کے طور پر پیش کیا جا سکے۔ بلوچستان کے جملہ پارلیمان پرست جماعتوں نے ریاستی اداروں کے اس سازش میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے 1948کی تاریخی جبر کو زیر پا رکھ کر قومی سوال کے نعم البدل کے طور بلوچ عوام کو اس نعرے کے گرد نچانے کی کوشش کی گئی کہ بلوچ کو بجلی، نلکا نالی جیسی بنیادی سہولیات فراہمی پر راضی کیا جا سکے۔

باوجود اس کے کہ 1988 کے انتخابات میں حصہ لینے کے فیصلے کو قومی حقوق کے حصول کے لیے ایک ذریعے کے طور پر عوام کے سامنے پروجیکٹ کیا گیا جبکہ پس پردہ بلوچ لیڈر شپ اسٹیبلشمنٹ کی بچھائی ہوئی جال کے نرغے میں آچکا تھا۔ بعد میں یہ جال مراعات و کرپشن کے پُرکشش مواقع میں تبدیل ہوکر بلوچ عوام میں اپنی وقعت اور حیثیت کھو بیٹھتے گئے۔

جیسے جیسے پارلیمان پرستوں پر یہ حقیقت آشکار ہوتا گیا کہ ان کی اس تاریخی فریب سے بلوچ عوام کو تا دیر اندھیرے میں نہیں رکھا جا سکتا، اسلیے انھوں نے عوام سے رجوع کرکے اپنی دغابازی پر معافی مانگنے اور عوامی امنگوں کے مطابق رہنمائی حاصل کرنے کے بجائے برائے راست ریاستی اداروں کےدم چلوں کی حیثیت اختیار کرلی۔ خفیہ ریاستی ادروں کی اس حمام میں کیا سردار و کیا نواب، کیا مڈل کلاس و کیا مذہبی جماعتیں سب کے سب یکساں ننگے ہو گئے۔ عوام میں اپنی وقعت کھو جانے کے باعث اسٹیپلشمنٹ کے ہاں ان جماعتوں کے رہنماؤں کی حیثیت اب ایک ٹشوپیپر کی سی رہ گئی ہے جس کا مقدر کچرا دان میں پھینکنا رہ گیا ہے۔

چونکہ ریاستی پالیسی سازوں نے سرے سے ہی یہ فیصلہ کر رکھا ہے کہ بلوچ کو من حیث القوم کسی صورت بھی انسانی وقار کے مطابق اپنی سر زمین پر حق ِحکمرانی سے محروم رکھ کر اس کے وسائل کی لوٹ کھسوٹ کے ذریعے اپنی معیشت اور نام نہاد دفاعی ضرورتیں پورا کرنا ہے۔ اسلیے وہ بھائی کو بھائی اور قبیلے کو قبیلے سے لڑانے کی پالیسیوں پر عمل پیرا ہے تاکہ بلوچ عوام بحیثیت قوم اپنی قومی شناخت سے دستبردار ہوکر بخوشی و رضا غلامی کی زندگی گزارنے پر راضی ہو۔

پارلیمان پرست بلوچ پارٹیوں اور رہنماؤں نےیہ فریضہ بڑے احسن طریقے سے ادا کر کے اپنی روح سیاہی میں کوئی کسر باقی نہیں رکھا۔ شاید اسٹیبلشمنٹ کو اچھی طرح پتہ ہیکہ اب یہ موجودہ پارلیمانی کارتوس بلوچ عوام پر زیادہ دیر تک ایک موئثر ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں ہو سکتے اور بلوچوں کو ان کی اصلیت کا پتہ چل چکا ہے۔ اس لیے ایک اور ٹوپی بردار ڈرامہ باز کے ذریعے حق دو کے نام سے ایک نئے قسم کے جادوگر کو اسٹیج کرکے انہیں قوم کا نجات دہندہ کے طور پر پیش کیا جائے۔ تاکہ اس بار بھی قوم مایوسی کا شکار ہو کر کسی برحق مسیحا کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھ لے۔ اور بلوچ قومی سوال بھی ماہی گیری اور بارڈر ٹریڈ کے نام پر کنفیوز ہو کر رہ جائے۔

حالانکہ اب کی بار ریاستی اداروں کو اپنی پرانی ناکام تجربات کی روشنی میں یہ حقیقت سمجھ جانا چاہیے تھا کہ نلکا نالی اور ماہی گیری کسی صورت بھی قومی سوال کے متبادل کے طور پر وسیع تر قومی قبولیت کا درجہ حاصل نہیں کر سکتا۔ مگر اس بار بھی انھوں نے ایک انتہائی دائیں بازو کی جماعت اسلامی کی شکل میں اپنے ایک پرانے پرجیکٹ کو نئے سرے سے پینٹنگ کرکے میدان میں اُتارا تاکہ بلوچ قومی حقوق کی جدوجہد کو ریڈیکل مذہبییت کے خول میں بند کرکے دنیا کے سامنے سکیولر بلوچ کی ایک گھناؤنا صورت پیش کیا جا سکے۔

دنیا میں محکومی کی تاریخ اُٹھا کر دیکھا جائے تو عام عوام ہمیشہ جذباتی واقع ہوا ہے ۔ وہ ہمیشہ جذباتی نعروں پر اکھٹا ہوا ہے اور بند گلی تک پہنچ کر واپسی کی کوشش میں خود کی بازوؤں کو روندھتا ہوا واپسی کی راہ تلاشتارہا ہے۔

میں اپنے جذباتی بلوچ نوجوانوں سے انتہائی معذرت کے ساتھ مولانا ہدایت الرحمان کی حق دو تحریک اور اس کی منطقی انجام پر اس امید سے چند گذارشات زیر قلم لا رہا ہوں کہ جذباتی نوجوان ان گذارشات پر غوروخوض کرینگے اور انھیں ایک قومی نجات دہندہ کے بجائے ماہی گیروں کے نمائندے کے طور پر سمجھنے کی کوشش کرینگے۔

چونکہ مولانا کی حق دو تحریک کا مرکز و محور ماہی گیروں اور بارڈر پر کام کرنیوالوں کے حقوق کی بازیابی ہے جو کہ مکران میں بالخصوص اور بلوچستان میں عمومی طور پر لوگوں کی معاش کے اہم ترین ذرائع ہیں، اسے لیے لوگ اس تحریک کی طرف کیھچے آۓ اور پھر مولانا نے اس موقع کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی تقریروں میں چیک پوسٹوں پر بلوچوں کی تذلیل ، جبری طور پر گمشدگی کے شکار بلوچوں کے لیے آواز بلند کیا تو ہزاروں لوگوں کو مولانا کی شکل میں ایک حقیقی رہنما دکھائی دینے لگا۔ لوگ انکے گرد اکھٹے ہوتے گئے اور وہ اس عوامی سیلاب کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے اپنی تقریروں میں بے باقی اور جوانمردانہ انداز گفتگو سے قوم کو متائثر کرتا گیا۔

مولانا کی ان بے باکانہ انداز گفتگو سےپیر و جوان سمیت خواتین تک اس حد تک جزباتی ہوگئے کہ کوئی بھی شخص ان کے بارے میں تنقیدی نقطہ نگاہ سننے کو بھی تیار نہیں تھا۔ جذباتیت کی یہ حد تھی کہ لوگ ماما قدیر اور ڈاکٹر ماہ رنگ کو مولانا کے ہاتھوں بیعت تک کا مشورہ دینے لگے۔ گوادر میں خواتین کی ریلی کے بعد ماحول اس قدر جزباتی ہو چلا کہ ایک انڈر گراؤنڈ تنظیم کا سربراہ بھی متائثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا۔ اور اس نے بھی جھٹ سے ایک ٹویٹ داغ دیا ۔

مگر تاریخ سے واقفیت رکھنے والے اور جاننے والے جانتے ہیں کہ مولانا ہدایت الرحمان کا تعلق جس پارٹی سے ہے ، اس کا قوموں کے حقوق کی ڈاکہ زنی میں مقتدرہ قوتوں کے ساتھ کتنا گھناؤنا کردار رہا ہے۔(الشمس اور البدر جیسے کرداروں کو بر صغیر کا کوئی بھی محکوم قوم چاہے بھی تو نہیں بھول سکتا ہے۔ ہمیں تو اس قدر دور جانے کی ضرورت نہیں ۔

پنجاب و اسلام آباد میں زیر تعلیم ہمارے بچوں پر اسلامی جمیعت طلبہ کا مسلسل وحشیانہ تشدد کے واقعات کو کوئی بھی شخص بھول نہیں سکتا۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس جزباتی ماحول کا حتمی نتیجہ یہ ہوگا جس کا خدشہ شبہ الفاظ میں ظاہر کیا جانے لگا ہے۔ کل ہی جناب مولانا سراج الحق صاحب نے جس انداز میں دھرنے میں انٹری مار کر بلوچ قومی سوال کو پس پشت ڈال کر بلوچستان کے مسئلے کو ماہی گیروں کے حقوق اور بارڈر ٹریڈ تک محدود کرکے اسلام آباد اور عالمی برادری کے سامنے پیش کرنے کی کوشش کی ، اس سے اس ساری تحریک کے خدوخال اور مقاصد پر کئی سنگین سوالات اُٹھائے جا سکتے ہیں۔

اگر واقعی جناب ہدایت الرحمان صاحب اس عوامی تحریک کی لاج رکھنا چاہتے ہیں اور اسے بلوچستان کے عوام کی امنگوں کی ترجمان بنانا چاہتے ہیں تو ان پر لازم ہیکہ وہ اس تحریک کو جماعت اسلام سے نتھی کرنے سے بعض رہیں اور اپنے مطالبات کی ایک واضح اور غیر مبہم فہرست مرتب کریں۔ اور اپنے جلسوں میں کی جانیوالی تقریروں اور ٹیلی ویژن چینلز پر انٹرویوز میں ایک باقاعدہ ربط برقرار رہنے دیں۔
اگر دھرنا غیر قانونی ٹرالروں پر پابندی،ایرانی سرحد پر آزادانہ تجارت اور چیک پوسٹوں پر بلوچ عوام کی تذلیل آمیز سلوک کو ختم کرنے کے ساتھ ساتھ جبری طور پر بلوچ لاپتہ افراد کی بازیابی اور ذمہ داروں کے خلاف کاروائی،( گوادر یونیورسٹی ہاسٹل سے تین لاپتہ بلوچوں کے بارے میں ہم نے آج تک ایک لفظ بھی نہیں سُناہے) اور ہزاروں بلوچ شہدا کی شہادت کے ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کے مطالبے پر زور نہیں دینگے تو ان کے اس دھرنے اور جماعت اسلامی اور ریاستی گٹھ جوڑ اور جماعت کے عزائم پر بہت سے سنجیدہ سوالات اُٹھیں گے اور منطقی نتیجے کے طور پر انھیں بھی خفیہ ادروں کا ایک مہرہ تصور کیا جانے لگے گا اور بلوچ عوام ایک مرتبہ پھر ایسی تحریکوں سے مایوس ہوکر اپنے آپ کو ایسی شعبدہ بازی سے الگ تلگ رکھینگے۔

اس لیے جناب ہدایت الرحمان صاحب سے گذارش ہیکہ اس تحریک کو بلوچ عوام کی بنیادی انسانی ، سیاسی ، سماجی و معاشرتی تحریک کے طور پر منظم انداز میں آگے بڑھانے کی کوشش کریں۔ اور اس عوامی جدوجہد پر جماعت کا سایہ نہ پڑنے دیں۔

بصورت دیگر بلوچ کی قومی سیاسی حقوق کو کنفیوز کرنے کی کوشش میں آپ اور آپ کی جماعت اس قدر غیر متعلق ہو کر رہ جائینگے کہ خود آپ کی ذاتی حیثیت بھی داغدار ہو کر رہ جائے گی۔ جبکہ بلوچ نوجوان جلد یا بہ دیراپنے لیے ضرور کوئی راستہ نکال ہی لیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں