کون لوٹے گا؟ ۔ وش دل زہری

464

کون لوٹے گا؟

تحریر: وش دل زہری

دی بلوچستان پوسٹ

قلات، بلوچستان کے تاریخی پنوں میں ایک منفرد حیثیت سے جانا جاتا ہے ہمیشہ اس نے بیرونی قابضوں کو آتے اور جاتے دیکھا ہے، اس پر طرح طرح کے حملہ آور اپنی زور آزمائی کرکے گذرے ہیں، مگر ہربوئی کے پہاڑ آج بھی سینہ تان کر اپنے بُلند و بالائی پر نازاں ہیں، جنہوں نے کبھی بھی خود کو خم ہوتے محسوس نہیں کیا، یہاں افغانوں نے ہمارے جاہِ سجدہ پر تیر چلائی، انگریزوں نے ہمارے دہلیز کو لہو سے رنگ دیا اور قلات نے جنگ کے کئی رنگیں دیکھیں، یہاں پر کئی بلوچ شہنشاہوں  نے سر کے ساتھ اپنا کمر بھی خم کرکے دشمنوں کو قبضے کا موقع فراہم کیا اور یہیں پر کئی حسین کرداروں نے اپنا سردے کر اس مادر دھرتی کو شرف بخشا، یہی وہ قلات ہے جو بلوچستان کو آج بھی وہ کردار عطا کر رہا ہے، جن کا بدل ہم میں نہیں ملتا وہ عظیم ہیں جو قلات کے آغوش سے اُٹھ کر اور بیدار ہوکر پورے قوم کو آزادی کا پیغام پہنچا رہے ہیں.

مجھے نہیں پتہ اس بیس سالہ مسلسل آزادی کے تحریک میں اس ماضی کے تختِ شہنشاہی کا باقی بلوچستان کو کیا دِین رہا ہے لیکن میں نے چند ایسی ہستیاں یہاں سے نکلتے دیکھے، جن کیلئے اُن کا مقصد مست توکلی کے عشق اور سسی کے قربت سے بھی زیادہ عظیم تھا، فرہاد نے تو پہاڑوں کو چیر کر دودھ کا نہر بہایا تھا لیکن میں نے یہ دیکھا ہے کہ شور پارود سے نکل کر بلوچستان کے دوسرے علاقوں تک آزادی کے پیغام کو پہنچانے والوں نے اپنے ہلک سے خون دے کر آزادی کے شجر کو سینچا ہے.

شہید امتیاز کو یہ بات ہر وقت سوچنے پر مجبور کرتا ہیکہ اُس کا آبائی علاقہ اس تحریک کی شمولیت سے کیوں محروم ہے آیا وہاں درد خور اب نہیں رہے، کیا میرگھٹ بانجھ پڑ گیا؟ کیا مولہ کے پہاڑوں نے اپنے چھاتیاں چیر کر خود کو میدان بنا ڈالا؟ کیا زہری میں اب ہر پتھر سرکاری مخبری پر فخریہ محسوس کرتا نظر آرہا ہے؟ کیا اب بھی وہاں سرداروں کی ننگی وحشت راج کر رہی ہے؟ کیا وہاں ماؤں نے نوروز خان کے نام پر لوریاں دینا چھوڑ دی ہیں؟ کیا سفر خان کے بہادری کا قصہ اب قصہ پارینہ رہ گیا ہے؟ کیا سوہندہ بدکرداروں کیلئے اپنا پانی ابھی تک پویتر کرکے بہہ رہی ہے؟ کیا ہوا اس دھرتی کو جس سے ہمارا رشتہ ماں بیٹے کا ہے، محبوب و محبوبہ کا ہے، عاشق و معشوق کا ہے اس پر ہمیں وہ پیش قدمی کرنی ہوگی جیسے توکلی نے سمو کیلئے پہاڑ پہاڑ ندی ندی میدان میدان ننگے پاؤں سفر کیا تھا ہمیں اب قلات شور پارود سے نکل کر وہاں اس شدت سے پہنچنا ہوگا جس طرح شکسپیئر کے افسانوں کا کردار اپنے محبوبہ کے بانہوں سے نکل کر ماں کے گود کیلئے بھاگتا دوڑتا اور تڑپتا ہوا خود کو پہنچاتا ہے ہمیں اب وہاں ضرور جانا ہوگا کیونکہ ہم فرہاد نہیں لیکن اپنے دھرتی کے عاشق ضرور ہیں جو دودھ کا نہر تو نہیں کم از کم چار بوندیں خون کے تو بہا سکتے ہیں.

شہید امتیاز جو باتونی قسم کا انسان تھا سیاسی، معاشی، جغرافیائی، عمرانی، اکنومی اور نہ جانے کن کن موضوعات پر ہر وقت سوال کرتا رہتا خود جواب ڈھونڈتا دوستوں سے ڈھونڈنے کا موقع تلاش کرتا شاید یہ تربیت اُسے قلات کے دھرتی شور پارود میں تحفتاً نصیب ہوا تھا، جہاں پر امیر کی شاعری، بشیرزیب کے سیاسی سرکلز، کسی کی مہر و محبت، حفیظ و سلیمان کی تمسخر اور کئی سنگتوں کے الگ الگ صلاحیتیں مل کر امتیاز اور دلجان جیسی ہستیاں تیار کر رہے تھے یہ سب اُن کے محنت کا دِین ہے.

ایک وقت آیا شہید امتیاز کو بولان نے صدائیں دی اور اُس نے لبیک کہا اور وہاں پہنچ گیا لیکن وہ ارمان اُس کے دل میں اب بھی تازہ تھا کہ میرگھٹ کب جانا ہے، بدقسمتی سے اُس کا وہ مشن وہ پلان تب ادھورا ہوا جب وہ بولان محاذ پر جامِ شہادت نوش کرکے ایسے محو خواب ہوئے جیسے پنہوں آخری بار سسی میں لپٹ کر ہمیشہ کیلئے زیرزمین چلا گیا مگر اُس کا مشن دلجان کیلئے ایسا رہ گیا جیسے ہمارے لئے سسی کے قدموں کے نشان اور اُس کے قربتوں کی داستان باقی رہ گئی۔

ایک وقت آیا شہید امتیاز کے ارمان لئے دلجان زہری کے دامن میں اپنا پیر رکھتا ہے، وہ ایک دم قلندر کی طرح جھوم اُٹھا کہ میرا جنم جہاں ہوا وہاں پھر لوٹ آیا ہوں، مگر قلندر بے مقصد جھومتا نہیں اُس کے ہر جھوم میں ایک حکمت ہے ایک دانائی ہے جھومتے جھومتے دلجان بول اُٹھا کہ یہاں کی ہوائیں وفادار نہیں ہیں، مگر عاشقوں کو کھٹن راہوں سے ہی چلنا ہے کیونکہ وطن اور راج عشق ہوں تو دیوانہ ہر پتھر پر سرٹکرانے کیلئے آگے بڑھتا ہی رہتا ہے،

دلجان کو کانٹے چھبتے ہیں مگر وہ قلات کے گود میں لوریاں سن کر آیا ہے وہ کانٹوں میں چلنا سیکھا ہے، وہ مست ہے راہوں کی تلخیاں زہر نہیں بلکہ بزرگوں کے ہاتھوں کا بنایا ہوا بھانگ سمجھ کر نوش فرما رہا ہے، تب ہی تو اہلِ سیاست نے ہمیں مہم جو کہا ایڈوینچر کا نام دیا لیکن خود ایسے خاموش اور ساکن ہوئے جیسے پتھر کے مورت ہوں لیکن دلجان آج بھی مولہ چھٹوک کے پانی کی طرح بڑے شان اور خوبصورتی سے بہہ رہا ہے.

شہید دلجان شہید امتیاز کا آرزو لیکر قلات شور پارود کا سیکھا ہوا سب کچھ زہری میں آزمانا چاہا مگر یہاں کے ہوا نے منہ پھیر دیا جاکر دشمن کے ساغر میں برف کا ٹکڑا ثابت ہوا لیکن دلجان کے پسینوں کی مہک اس میں تحلیل تھی، وہ زہر بن کر ایک دن دشمن کو موت کے منہ میں لے ڈوبے گا، شہید امتیاز نے کھلے آنکھوں سے خواب دیکھا دلجان نے عملی طور پر ان حسین خوابوں کو تعبیر کرنے نکلا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ایک شاویز اور ایک آفتاب شہید امتیاز کا مورچہ سنبھالنے بولان پہنچ گئے۔

بدقسمتی ہمارا دیکھئے وہ بھی ہم میں زیادہ دیر تک رہ نہیں پائے اور خوش قسمتی اُن کی دیکھئے کہ دونوں بولان کے بانہوں میں ہمیشہ کیلئے سو گئیں مگر شہید امتیاز کے آرزوؤں کا مہک ابھی تک تازہ ہے، کون آئےگا شور پارود سے بولان سے اور مکران سے اب تو میرگھٹ بانہیں پھیلائے منتظر ہے کہ کوئی آجائے تاکہ میں اُس کو بانہوں میں لیکر مکمل ہوجاؤں، اُسے لوریاں سناؤں اُسے باغیوں کے قصے سنا دوں انقلاب کے بیج اُس کے سینے میں بو دوں۔

کون آئے گا قلات کی یخ بستہ چوٹیوں سے کہ میں اپنی بُلندی اور اُونچا کردوں اُس کا استقبال کروں، کوہِ شاہموز نے اب آبشاریں بہانا شروع کردیں کہ کوئی تو آجائے اُس کو نہلا دوں اُس کو نوروز کردوں سفرخان بنا دوں یکبوزی کے قبرستان میں ایک بیرک بڑے شدت سے اس انتظار میں ہے کہ مجھے سلامی ٹھوکنے کوئی باغی قلات کی راہ سے اچانک رونما ہوجائے اور میری رنگوں کا پیغام ہر سو پھیل جائے اور میں فخر سے لہراتا رہوں اور سیف اللہ کے عظیم کردار اور بہادری کا پیغام بکھیرتا رہوں.

اب یہ دھرتی ایک ماں کی طرح جھولی پھیلائی ہوئی کہہ رہی ہے کہ شاید وہ سپوت لوٹ آئے گا جو کبھی یہاں سے چشمِ نم لئے نکلا تھا جس کے جگر میں انگاروں کا دھواں اور دل میں دوزخ سی کیفیت تھی اور اُس کے چمکتے ہوئے آنکھوں میں ایک امید کی کرن دکھ رہا تھا، وہ سپوت لوٹ آئے گا جسکا پیدل چلنے سے اب پیروں میں چھالیں پڑے ہونگے جس کے پسینے کا مہک شور پارود کے ہواؤں میں جھوم رہا ہوگا، یہ دھرتی ایک محبوبہ کی طرح ٹھوڑی گُھٹنوں میں دے کر اس خیال میں گم ہیکہ  شاید وہ میرا عاشق لوٹ آئے گا جس کو ملغوے کے زلفوں سے اُلفت تھی، شاید وہ مست لوٹ آئے گا جس کیلئے یہاں پر اُس کا سمو برسوں سے راہیں تک رہی ہے، اس دھرتی کا ہر وہ باسی اب اس گمان میں ہے کہ شاید وہ غمخوارِ راج لوٹ آئے جس کو یہاں کے کسان، مزدور، چرواہا اور ہر اُس طبقے کا دکھ و درد، غلامی اور بزگی اپنا ہی محسوس ہوتا تھا جو یہاں کے سرکار، سردار اور مخصوص اشرافیہ کے ظلم تلے جی رہے ہیں.

آج وشین کا سرآب، شاویزِ نورگامہ اور سیف اللہ کا یکبوزی بھی یہ سوال کر رہے ہیں کہ کون لآئے گا تاکہ دھرتی ماں سے ظلم کی زنجیریں اتاریں جا سکے، محبوب دھرتی کہہ اُٹھی ہے کہ کب اُس کا چاہنے والا آئے اُس میں گھل مل جائے، ایک ظلم و ستم سے لعل دھرتی چیخ رہی ہے کہ کون لوٹ آئے گا مجھے سرخ سے سبز کردے گا، لوٹ آؤ کہ میرگھٹ اب ظلم کی داستانین سہہ نہیں پائے گا، ملغوے یہ بےحسی دیکھ کر اپنا خوبصورت چہرہ نوچ نوچ کر برباد کر دیگی، گزان میں دھول مٹی اور گرد و غبار ہوگا، یہاں ڈیموں میں پانی ہوتے ہوئے بھی مچھلیاں موت کے آغوش میں چلی جائینگی، چشمہ دُگن کے نوجوانوں کا کتابوں سے جستجو تھم جائےگی، سنگین اور کاندھی میں پُرانی اور غیرفطری روایتیں مضبوطی پکڑ لیں گے لوٹ آؤ کہ اس دھرتی کی بیٹیاں ان روایتوں کے سولی پر بے دردی سے چڑھائی جا رہی ہیں، کوئی روک ٹوک نہیں کوئی کہنے والا نہیں کوئی وکالت کرنے والا مسیحا نہیں اب تیرے لوٹ آنے کا انتظار سب کو ہے لوٹ آؤ کہ قوم کے غیرت کا جنازہ اب بہت ہی سستے لوگ اُٹھا رہے ہیں ہر کوئی اب کہہ رہا ہے کہ اُنہیں سنوارنے کون لوٹ آئےگا؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں