عظمت کی بلندی پر کھڑا سپاہی ۔ اسداللہ

280

عظمت کی بلندی پر کھڑا سپاہی

تحریر: اسداللہ

دی بلوچستان پوسٹ

وہ مستقبل کا لیڈر تھی، یہی خوف ان کے قتل کا سبب بنا، بانک اگر زندہ رہتی تو بلوچ تحریک کے پاس ان کی موجودگی میں ایک توانا اور مضبوط اعصاب کے مالک لیڈر موجود ہوتا۔ ان کی شھادت سے بحرحال قیادت کا ایک خلا پیدا کیا گیا۔

بانک کریمہ ایک نام نہیں دراصل مکمل تحریک ہے، ایک چھوٹی سی لڑکی نے کم عمری میں ایک بڑے تحریک کی بنیاد رکھا اور عمر کے ساتھ اسے پروان چڑھاتی پختہ کرگئی، آج جبکہ بلوچ تحریک توانگر ہے، پختہ ہے، مضبوط بھی ہے اسے مگر کریمہ کی سرپرستی حاصل نہیں۔

اپنی غالباً سولہ سالہ زندگی میں ایک چھوٹی سی لڑکی نے بی ایس او جیسی مدر آرگنائزیشن تک کو لیڈ کیا لیکن کبھی ایک لمحے کے لیے اس کے سیاسی و ذاتی کردار و عمل پر مجال کہ آج تک کوئی انگلی اٹھاسکے، پختگی اور مضبوطی ایسا کہ جب تک کریمہ یہیں تھی لیڈنگ رول کے باوجود کسی نے اس کے چہرے تک کو نہ دیکھا۔ یہ شان نہیں بلکہ فکر و عمل کی مضبوطی کی ایک مثال ہے۔ کینیڈا گئیں تو تب اسے دیکھا گیا۔
کوئی سولہ سترہ برس قبل اطلاع آئی تمپ سے کچھ لوگ تربت احتجاج کے لیے آرہے ہیں، جب وہ آئیں تو بیشتر نوجوان لڑکیاں تھیں ان کا قائد کریمہ تھا، ہاں وہی کریمہ بلوچ جنہوں نے بعد میں بلوچ سیاست میں ہلچل مچادی، اپنے ایک رشتہ دار کی بازیابی کے لیے احتجاج کناں کریمہ بلوچ اس وقت بی ایس او کی ممبر نہیں تھی مگر انہی دنوں جب وہ مسلسل احتجاج کے لیے اپنی ہم عمر لڑکیوں کے ساتھ تربت احتجاج کے لیے آتی گئیں تو وہ بی ایس او کی کارکن بنی۔

کریمہ بلوچ، میرے لیے اسے شہید لکھنا بہت مشکل ہے ایک ماورائی کردار کی مانند رہی اس کے اندر طاقت تھی وہ مضبوط اعصاب کی مالک تھی، پہلی بار اپنے کچھ ساتھیوں کے ہمراہ انہوں نے تمپ تا تربت پیدل لانگ مارچ کیا، راستے میں ان کے قافلے کا گھیراؤ ہوا، ان پر لاٹھی چارج کی گئی، تشدد مگر سہتا ہوا وہ آخر کار تربت پہنچ گئی اور ثابت کیا کہ وہ غیر معمولی انسان ہی نہیں مستقبل کے لیڈر ہیں۔

بی بی سی نے انہیں سو بااثر شخصیات میں شامل کرکے ثابت کیا کہ وہ عام نہیں بلند پائیہ شخصیت ہیں، جب بی ایس او آزاد پر افتاد پڑی کارکنان اغوا، قتل اور مسخ لاش کی صورت پھینکے جاتے رہے تب بھی وہ اکیلی میدان میں کھڑی رہی آپ کے پائے استقامت میں لغزش نہ آئی آپ کا سر نہ جھکا۔

جب بانک بی ایس او آزاد کو لیڈ کررہی تھی، حالات ہر طرف سے نامواقف تھے مگر آپ نے دلیری اور بہادری سے مقابلہ کرکے تنظیم کے ساکھ پر آنچ نہ آنے دیا۔

وہ بہادر شیرنی بنی کارکنوں کے درمیان رہ کر ان کا حوصلہ بڑھاتی رہی، ان کی سیاسی زندگی میں روایتی عیوب مٹ گئے تھے، بی ایس او کو منظم رکھنے کے لیے کریمہ بلوچ موٹر سائیکل پر سوار ہوتے یہ کبھی سوچا نہیں کرتی کہ وہ ایک نیم قبائلی سماج کی لڑکی ہے، اس پر الزام لگیں گے، اس کی ذات پر کیچڑ اچھالے جائیں گے، اگر ایسا سوچتی تو بھلا لیڈر کیسے بنتی تب ہی آپ نے ایسی بے ڈھنگی روایات کا خیال کیے بغیر بلوچ روایات کو مضبوطی سے تھامے رکھا۔

ایک جانب ریاست، ان کے اداروں کی قہر شانیاں تھیں تو دوسری طرف مخالف سیاسی جماعتوں کی زہر آلودگیاں تیسری جانب وہ دوست جو بظاہر تحریک سے منسلک تھے لیکن اب وہ مخالفت پر کمربستہ رہ کر دشمنی کی حد تک کردار کشی کررہے تھے، انہوں نے سائنٹیفک انداز سیاست کا نعرہ لگاکر کردار کشی کی انتہا کردی، گالیاں بکیں، غلیظ زبان استعمال کی، نفرت انگیزی میں اس حد تک گئے کہ دشمن کی توبہ لیکن سامنے معمولی شخص نہیں کریمہ بلوچ پہاڑ بنا کھڑا رہا کسی کو زبان سے کچھ نہ کہا مگر سب کچھ کہہ ڈالا وہ غارت گئے ناکام ہوئے اور کریمہ ایک الگ شان سے سرخرو ٹہرے۔

کریمہ بلوچ نے کتنا عرصہ سیاست کیا، زیادہ سے زیادہ کوئی سولہ سترہ برس، چاروں اور مخالفین تھے، موقع کی تلاش میں تھے کہ معمولی سا کمزوری ہاتھ لگے لیکن 21 دسمبر تک کسی کو کچھ ہاتھ نہ آیا اس لیے آج تک کوئی بھی شخص بشمول ریاست اور اس کے ادارے ان کے خلاف ایک معمولی کمزوری ثبوت کے بطور پیش نہیں کرسکتے۔

مزاحمت کی علامت، جدوجھد کی سمبل، اس نہتی لڑکی نے نہ صرف سیاست کی بلکہ ایک نیم قبائلی سماج میں عورتوں کو منظم کرکے سیاست کی طرف لانے کی کامیاب کوشش کی، آج جب بلوچ سیاست میں ہزاروں لڑکیاں متحرک دکھائی دیتی ہیں ان سب کا رول ماڈل بانک کریمہ بلوچ ہے۔

بانک کریمہ کے بدولت بلوچ سماج کی فرسودہ روایات توڑ کر لڑکیاں سیاست کے خار زار میں متحرک ہوئیں اور مزاحمت کرتی بلوچ سیاست کو لیڈنگ رول دے رہی ہیں، تمپ سے نکل کر پورے بلوچ سماج کو متاثر کرتی اس لڑکی نے دراصل بلوچستان کو متاثر کیا بلکہ بلوچ تحریک ہی کو متاثر کیا۔

بانک کریمہ ایک لافانی کردار، بہادر لڑکی، بے مثال قائد شفیق بہن ملنسار ماں کے درجہ کی حامل خاتون جس نے بطور لیڈر بلوچستان میں بی ایس او کے ہر زون نہیں تو بیشتر زونز کا دورہ کیا، ہر کارکن سے تعلق اور واسطہ رکھا، قریبا ہر کارکن سے ان کی دعا سلام رہی، سب کو ایک آنکھ دیکھا، میری معلومات کے مطابق شاید غلط ہوں بی ایس او کے تین ایسے چیئرمین رہے ہیں جنہوں نے تمام بلوچستان یا بلوچستان کے بیشتر حصوں میں تنظیمی یونٹ اور زون کا دورہ کیا، ان میں ایک حبیب جالب دوسرا شہید سنگت ثناء بلوچ تیسرے بانک کریمہ ہیں۔

بانک کریمہ میں بلا کی استقامت تھی، تنظیم اور تنظیمی اداروں پر ان کی گرفت بے مثال تھی، ان میں صبر و برداشت یگانہ تھا، سب کی سنتا، اپنی رائے دیتا اور فیصلہ سازی میں جو تحریک اور تنظیمی مفاد میں بہتر سمجھتا بلا جھجک وہی کرتا۔

وہ زمانہ جب بی ایس او کو اپنوں کی جانب دباؤ کا سامنا تھا، بغاوت کرکے تنظیم کو توڑنے کی سازش سے بڑھ کر عملی کوشش کی جارہی تھی حتی کہ اپنے طور توڑ کر تنظیم کا الگ دھڑا بنانے کا اعلان کیا جاچکا تھا یہ بانک کریمہ تھی جنہوں نے سب کے سامنے کھڑے رہ کر حالات کا مقابلہ کیا، تنظیم کو بچایا، کارکنوں کو حوصلہ دیا ان کے ساتھ رہا اور کامیابی سے باغی گروہ کو نابود کردیا۔ ان کی جگہ اور کوئی ہوتا تو شاہد بی ایس او آزاد کی تاریخ میں الگ دھڑے کا اضافہ ہوچکا ہوتا کیونکہ سامنے جو لوگ تھے وہ بزعم خود تحریک کے کرتا دھرتا تھے وقت و حالات نے ثابت کردیا کہ وہ کون تھے کیا چاہتے تھے لیکن اس کامیابی کے پیچھے بانک کریمہ کی شبانہ روز کی کوششیں سخت محنت انتہا کی حوصلہ اور بلا کی برداشت شامل تھی۔

بلوچستان سے کینیڈا کے سفر اور بعد میں بھی ان پر الزام لگانے والے کردار باز نہ آئے لیکن آپ نے تحریک کی خاطر شھادت کا رتبہ پاکر ثابت کردیا کہ وہ وطن کی حقیقی بیٹی تھی، بلا شبہ بانک کریمہ ایک منظم تحریک تھی اور وہ تحریک اپنی زات میں پورا بلوچستان تھا۔ یہ ہے کہ بلوچستان ہر بلوچ کے لیے ماں جیسی قدر رکھتی ہے۔ کریمہ ماں ہے اور ماں بلوچستان ہے اس لیے کریمہ بلوچ زندہ ہیں زندہ رہیں گے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں