بلوچستان کی سیاسی پس منظر ۔ شاہ میر بلوچ

314

بلوچستان کی سیاسی پس منظر

تحریر: شاہ میر بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

اگر بلوچستان کی سیاسی تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو ہزاروں نام ایسے ملیں گے جنہوں نے قومی مفادات کی خاطر اپنی زندگیاں قربان کی ۔ یہاں کی پارلیمانی سیاست قوم پرستاتہ سیاست تھی. یہاں کی سیاست میں چار اہم شخصیات تھے جن کے بغیر سیاسی تاریخ مکمل نہیں ہوسکتی؛نواب خیر بخش مری, غوث بخش بزنجو, نواب اکبر خان بگٹی اور عطاء اللہ مینگل جو کہ یہاں کی سیاست میں بہت پرجوش اور ایکٹیو تھے. غوث بخش بزنجو جوکہ نیپ حکومت میں گورنر بلوچستان بھی رہا بعد میں اپنی پارٹی پاکستان نیشنل پارٹی بنائی تھی لیکن بزنجو صاحب کے بعد اس کی پارٹی بھی اس نام سے نہ چل سکی. بزنجو خاندان کی سیاست اب نیشنل پارٹی سے وابستہ ہے ۔ نیشنل پارٹی غوث بخش بزنجو کو اپنا سیاسی استاد سمجھتے ہیں اور اس کی یاد میں پرگروام بھی کرتے ہیں . وہ الگ بات ہے کہ مکران میں ان لوگوں نے 1988 کے الیکشن میں غوث بخش بزنجو کو ہرایا تھا جسکی وجہ سے وہ دل برداشتہ ہو گئے تھے.

نواب اکبر خان بگٹی جس کی اپنی پارٹی جمہوری وطن پارٹی کے نام سے تھی . نواب بگٹی زندگی کے آخری لمحات میں پاکستان کے ساتھ جنگ کر رہا تھا مگر پھر بھی اس کی پارٹی پارلیمنٹ کا حصہ تھی. نواب بگٹی کے بعد جمہوری وطن پارٹی بھی ٹوٹ پوٹ کا شکار ہوئی۔ براہمدگ بگٹی نے بی -آر -پی کے نام سے ایک پارٹی بنائی جو اب کبھی کبھی یورپ میں احتجاج کر کے پارٹی ہونے کا ثبوت دیتی ہے . جمہوری وطن پارٹی کو اس وقت نواب بگٹی کے نواسے گہرام بگٹی اور شازین بگٹی چلارئے ہیں اور موجودہ حکومت کے حصہ بھی ہیں مگر اب گہرام بگٹی بھی جام کمال کی وجہ سے حکومت سے الگ ہوگیا ہے، شاید !

نواب خیر بخش مری بہت سالوں میں افغانستان میں جلاوطنی کی زندگی گزارنے کے بعد واپس بلوچستان آئے مگر یہاں سیاسی جماعتوں کا نہ حصہ رہے نہ کہ اپنی سیاسی جماعت بنائی ۔وہ صرف حق توار کے نام سے ایک سرکل کے ذریعے لوگوں کو سیاسی تربیت دیتے تھے.
وہ اپنی زندگی کے آخر تک علحیدگی کی بات کرتے تھے۔ ان کی خاص بات یہ تھی کہ وہ دور اندیشی کرتے تھے اور سیدھی بات کرتے تھے .

سردار عطاء اللہ مینگل جو کہ ون یونٹ ٹوٹنے کے بعد نیپ حکومت میں بلوچستان کے پہلے وزیر اعلی بنے تھے لیکن یہ حکومت بھی چند ماہ میں ختم کرائی گئی ۔سردار مینگل نے بلوچستان کی سیاست میں بہت ذیادہ وقت گزارا تھا۔ لندن جلا وطن بھی رہا ،اپنے بیٹھے کو سیاست میں لانے کے بعد انہوں نے بی این پی بنائی۔ سیاست کے آخر تک بی این پی میں تھے۔ بی این پی سردار عطاء اللہ مینگل کو اپنا سیاسی استاد مانتی ہے . شاہد جب وہ سیاست میں تھے تو اس وقت بلوچستان کی سیاست کچھ حد تک بہتر تھی پارٹیوں کے اندر سیاسی عمل ,سیاسی تربیت تھی۔ سیاست میں ہر کوئی ایک پروسس کے تحت سیاست میں سامنے آتا تھا .

شاید اس وقت راتوں رات کوئی پارٹی نہیں بنایا جاتا تھا اور نمائندے سیاسی تھے . خفیہ معاہدے کے تحت کوئی وزیر نہیں بنا یا جاتا تھا.
جس طرح 2013 میں ڈاکٹر مالک بلوچ کا وزیر اعلی بنا بلوچستان کی تاریخ میں پہلا وزیر اعلی کا اعزاز تھا جن کا تعلق مکران سے تھا اور نہ سردار اور نہ نواب تھا البتہ کچھ لوگ ڈاکٹر مالک بلوچ کو بھی سیاسی سردار کہتے ہیں مگر وہ وزیر اعلی شپ بھی ایک معاہدہ نکالا ڈائی سال بعد وزیر اعلی سے دستبردار ہونا پڑا.

لہذا بلوچستان میں ہر چیز ممکن ہے. 2018 میں بلوچستان عوامی پارٹی کے نام سے ایک پارٹی بنتی ہے اور وہ اسی سال جنرل الیکشن میں بلوچستان کی سب پارٹیوں سے زیادہ سیٹ لاتی ہے۔ 2018 کے الیکشن میں بی این پی کو بھی کچھ سیٹیں مل گئی تھی، مگر وہ صوبائی اور وفاقی حکومت میں اپوزیشن میں بیٹھنے کا فیصلہ کرتے ہیں. پی ٹی آئی کی حکومت کو سپورٹ کرنے کے باوجود کوئی وزارت نہیں لیا.

سردار اختر مینگل نے حکومت کو 6 نکات پیش کیےتھے کہ ہم تب تک آزاد بینچوں پر بیٹھیں گے جب تک بلوچستان کے ان مسائل کو حل نہیں کیا جاتا ۔ان 6 نکات میں اہم مسئلہ لاپتہ افراد کا تھا مگر یہ سلسلہ اب تک ختم نہ ہوسکا . البتہ اگر کوئی بھی بازیاب ہوجاتا تو بی این پی کے کارکن شکریہ سردار صاحب سے سوشل میڈیا ٹرینڈ چلاتے ہیں اور اگر کوئی لاپتہ ہوجاتا یہ خاموشی اختیار کرتے ہیں۔

ان سیاسی جماعتوں کی کمزوری تھی یاکہ یہ چاہتے بھی یہی تھے بلوچستان کے اندر سیاست کو چند لوگوں تک محدود کرنا نظریاتی اور قوم پرست رجحانات سے زیادہ مفاد پرستی اور طبقاتی مسائل کو فروغ دینا ۔

شکر ہے کہ بلوچستان کے سیاسی استاد آج زندہ نہیں ہیں وہ اس وقت کی سیاست کو دیکھتے پارلیمنٹ میں ان کے نمائندے اور ان کے فیصلے دیکھتے ان کو کس طرح برداشت ہوتا .

جام کمال جس پارٹی کے صدر بنے تھے اور پھر وزیر اعلی اور حکومت کس طرح بنائی یہ ایک جادو سے کم نہ تھا اور اب اسی پارٹی سے فارغ وزیر اعلی سے دست بردار ہوئے. جس باپ پارٹی کو پارٹی مانے کو جو تیار نہیں تھے آج اسی پارٹی کے اندرونی اختلافات سے سیاسی جماعتوں اور قوم پرستی کے دعوے داروں کو موقع ملا۔ ان کو بھی اس میں کچھ اچھے تو کچھ غلط نظر آنے لگے. جام کے جانے سے ان میں ایک خوش فہمی نظر آنے لگی۔ ہر کوئی کریڈٹ حاصل کرنے کی کوشش میں مصروف ہے، کچھ لوگ یہ بھی بیان دے رہے ہیں کے فلاں کو نیا وزیر اعلی بنایا جائے جیسے ان سے مشورہ لیا جارہا ہے. اور کچھ وقت پہلے جو اپنے لیڈر کا تصویر جام کمال کے ساتھ لگاتے تھی آج جام کے جانے کے بعد اپنے دفتروں میں خوشیان منا رہے ہیں جیسے جام کو انکے کہنے سے نکالا گیا ہو. مگر ان کے نزدیک سیاست میں سب کچھ جائز ہے.

اپوزیشن اور باپ کے کچھ ناراض ارکان ایک ساتھ ملکر جام کو بگانے میں کامیاب تو ہوگئے. بقول ان کے تبدیلی آگئی. عمران خان کی تبدیلی نہ ہو دیکھتے ہیں اب جام بھی نہیں 40 ارکان مل کر ایک نیا وزیر اعلی کو سپورٹ کریں گے، بلوچستان کے حالات بدلیں گے یاکہ ان کو زیادہ مراعات ملیں گے. بلوچستان کی سیاست میں سب کچھ ممکن ہے اس وجہ سے آج بلوچستان کے اندر سیاست کے لفظ سے عام شہری ڈرتے ہیں.

اس وقت ان سیاسی جماعتوں سے سوال کرنا ہوگا کہ بلوچستان کے مظلوم عوام کے نام پر سیاست کیا جارہا ہے اتنے سالوں میں آپ لوگوں نے قوم کو کیا فائدہ دیا ہے؟نوجوان سیاست کا حصہ بنے ماضی کی کمزوری کا مطالعہ کرکے سیاسی اداروں کو مظبوط کریں تاکہ آنے والے وقتوں میں یہ نہ ہو کہ ہمارے سیاسی فیصلے دوسرے کریں. اس وقت ایک منظم سیاسی ادارے کی ضرورت ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں