مقتل میں خبر ہے کہ چراغاں ہوگا ۔ حکیم واڈیلہ

222

مقتل میں خبر ہے کہ چراغاں ہوگا
تحریر۔ حکیم واڈیلہ

بلوچستان ویسے تو گذشتہ سات دہائیوں سے ہی محرومیوں کا شکار رہا ہے، بلوچستان کی قسمت میں فوجی آپریشن، غداری کے الزامات، مقدمات اور بلوچ رہنماوں کی جلا وطنی کے داستان تو کافی مشہور ہیں۔ لیکن جنرل پرویز مشرف کے اقتدار سے شروع ہونے والی تاریخ بلوچستان کے ماضی کے تمام تر واقعات پر برتری حاصل کرتا چلا جارہا ہے۔ جس کی تازہ ترین مثالوں میں سے ایک گذشتہ روز فورسز کی تحویل میں جانبحق ہونے والے گہرام ولد نادل کی کہانی ہے۔ گہرام ولد نادل جنہیں بارہ جون دوہزار اکیس کو انکے گھر سے دوران چھاپہ گرفتاری کے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اور تین دن بعد اسکے گھر والوں کو ایک نامعلوم کال کے زریعے یہ پیغام پہنچتا ہے کہ گہرام زندان میں جانبحق ہوچکا ہے۔

گہرام کو تین دیگر نوجوانوں کے ساتھ جبری گمشدگی کا نشانه بنایا گیا تھا، گہرام کی موت کی خبر پہنچانے والوں نے ان تین دیگر نوجوانوں کے بابت کوئی اطلاع فراہم کرنا بھی گوارا نہیں سمجھا۔

ویسے تو بلوچستان میں عرصہ دراز سے ہی جبری گمشدگیاں جاری ہیں، سیاسی کارکنان، انسانی حقوق کے کارکنان، طلبہ تنظیموں کے رہنما و کارکن یا پھر بلوچستان کا تعلیم یافتہ طبقہ اکثر ہی جبری گمشدگی کا شکار رہا ہے۔ لیکن سال دوہزار اکیس میں جہاں حسیبہ قمبرانی کے آنسووں کے بدولت انکے بھائیوں کو بازیابی نصیب ہوئی، جہاں بلوچستان کے مختلف علاقوں سے جبری گمشدگی کے شکار کچھ لوگوں کو بازیاب کیا گیا۔ وہیں دوسری جانب جبری گمشدگیاں بھی تسلسل کے ساتھ جاری رہی ہیں۔ اس تسلسل میں تیزی جون کے مہینے میں دیکھنے کو آئی ہے جہاں دو ہی ہفتے کے اندر سولہ سے زائد نوجوان لاپتہ کئے گئے ہیں جن میں سے ایک جبری گمشدگی کے دوران جانبحق ہو جاتا ہے۔

جون کے مہینے میں جبری گمشدہ اکثر افراد نوجوان طالب علم ہیں، جن میں خضدار، کوئٹہ اور کیچ سے تعلق رکھنے والے بلوچ نوجوان شامل ہیں۔ جون کے مہینے میں جبری گمشدگی کا شکار ہونے والوں میں کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے کوہ پیما منصور قمبرانی اور براہوئی زبان کے شاعر تابش وسیم شامل ہیں ۔

یہاں ایک اہم نقطہ یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر گہرام کی موت حادثاتی طور پر بھی ہوئی ہے تو پھر بھی اس کی گمشدگی کو وجوہات بیان کی جائیں گہرام سمیت ان کے ساتھ لاپتہ کئے گئے دیگر تین نوجوانوں کی گمشدگی کی وجوہات بتائی جائیں۔

گہرام کا قتل یا موت بلوچستان میں تنہا حادثہ نہیں اس سے قبل گزشتہ سال بلوچستان کے علاقے کیچ میں ہی حیات بلوچ کو ایف سی اہلکاروں نے ان کے والدین اور گاوں کے لوگوں کے سامنے ہاتھ پیر باندھ کر سینے پر گولیاں مارکر شہید کیا تھا۔

بلوچستان میں ہونے والے واقعات کی تعداد ان گنے چنے واقعات سے کافی طویل ہے، لیکن بلوچستان میں آزاد صحافت پر پابندی اور ملکی میڈیا کی عدم دلچسپی کی وجہ سے واقعات اکثر دب جاتے ہیں۔

ان دب جانے والے واقعات میں آواران سے تعلق رکھنے والے مالدار حکیم کے گھر کے خواتین کے ساتھ ہونے والئ جنسی زیادتی کا واقعہ ہے۔ آواران سے ہی تعلق رکھنے والے نور جان کا واقعہ بھی اسی طرح عدم دلچسپی کا شکار ہوکر دب گیا، نورجان جنہیں آواران سے لاپتہ کرکے، یہ فرمان دیا گیا کہ اپنی بیٹی کو ایف سی کیمپ میں حاضر کریں کیونکہ اس کی شادی ایک ایسے شخص سے ہوئی ہے جو پاکستان کو اپنا ملک نہیں مانتا، نورجان اپنی بیٹی کی عزت کو بچانے کی خاطر پھانسی کے پھندے سے لٹک کر خودکشی کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ لیکن نورجان کی موت ایک نیوز ٹیکر تک نہیں بن پاتی۔

بلوچستان میں جاری کریک ڈاؤن کا اصل مقصد بلوچستان میں جاری (آزادی کی جدوجہد) مزاحمت کو روکنا ہے۔ پاکستانی فوج بلوچ مزاحمت کو روکنے کی خاطر عوام اور سیاسی کارکنان سمیت تعلیم کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے افراد کو ہمیشہ نشانہ بناتے رہے ہیں۔ جس کی ایک مثال ڈاکٹر دین محمد بلوچ ہیں جنکا تعلق بلوچ نیشنل مومنٹ سے ہے۔ جو ایک سیاسی جماعت کے طور پر ریاست پاکستان سے آزادی کی تحریک چلارہی ہے، جس کے رہنماوں سے لیکر ممبران تک تمام سرفیس سیاست کرتے اور سیاسی تقاریر سے اپنی بات کہنے کا جمہوری حق استعمال کرتے۔ بلوچستان میں سیاسی عمل سے خائف خفیہ اداروں نے سب سے پہلے بی این ایم کے بانی رہنما اور مرکزی صدر غلام محمد بلوچ کو شیر محمد بلوچ اور لالا منیر کے ہمراہ جبری گمشدگی کا نشانہ بناکر مسخ شدہ لاشیں کیچ کے علاقے مرگاپ ندی میں پھینک دی اور پھر انکے ساتھیوں کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنانا شروع کردیا جن میں سے اکثر کو بعد ازاں مسخ شدہ لاشوں کی صورت میں پھینک دیا گیا۔

ڈاکٹر دین محمد بلوچ جو غلام محمد کے قریبی ساتھیوں میں شمار ہوتے ہیں گزشتہ بارہ سالوں سے لاپتہ ہیں، انکی بیٹیاں سمی اور مہلب کبھی کوئٹہ تو کبھی کراچی اور کبھی اسلام آباد کے سڑکوں پر احتجاج کرتی دکھائی دیتی ہیں اور یہ سوال کرتی ہیں کہ اگر انکے والد زندہ ہیں تو انہیں بازیاب کیا جائے یا عدالتوں میں پیش کیا جائے، اگر انکے ساتھ کچھ کیا گیا ہے تو اہلخانہ کو روزانہ کی اذیتوں سے آزاد کیا جائے اور انکے باقیات اہلخانہ کے حوالے کئے جائیں۔

ڈاکٹر دین محمد کی کہانی، انکی کہانی نہیں ایسے بہت سے سیاسی رہنما، طالب علم، ادیب، شاعر، اساتذہ اور زندگی کے مختلف شعبہ سے تعلق رکھنے والے ہزاروں افراد کی کہانی ہے جو سالوں سے قیدخانوں میں اس لئے قید ہیں کیونکہ وہ سیاسی طریقے سے بلوچستان کی آزاد حیثیت کی بحالی کے لیے جدوجہد کررہے تھے۔

کیا کسی بھی انسان کو صرف اس لئے سالوں جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنے نظریات کی پرچار کرتا ہو؟

کیا کسی بھی شخص کو صرف اس لئے انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنایا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی مادری زبان کو اہمیت دیتا ہو؟

کیا کسی بھی شخص کو صرف اس لئے غدار قرار دیا جاسکتا ہے کہ وہ اپنی ہزاروں سال پر محیط تاریخ و تہذیب کی تحفظ کرنا چاہتا ہو؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں