بلوچ قوم کا سچ – دیدگ نُتکانی

311

بلوچ قوم کا سچ

تحریر: دیدگ نُتکانی

دی بلوچستان پوسٹ

‎ہمارے ایک عزیز دوست اس بات پہ فکر مند رہتے ہیں کہ “دنیا میں حقیقی المیے صحیح اور غلط کے مابین تنازعات نہیں ہیں, وہ دو ‘صحیح’ کے مابین تنازعات ہیں۔

‎اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں ہے کہ اس جہاں میں کوئی شخص خواہ وہ کسی نظریے, کسی سوچ اور کسی فلسفے کا داعی ہو اور اس پہ عمل پیرا ہو, اُس کیلئے اسکا ‘صحیح’ وہی کچھ ہے, تو سوال یہ بنتا ہے کہ اتنے سچ کے درمیان غلط کون ہے ؟

‎دنیا میں ہزاروں مذاہب , ہزاروں قومیں اور ہزاروں زبانیں وجود رکھتی ہیں اور سب اپنی اپنی شناخت پہ فخر کرتے ہیں اور اسکے گُن گاتے نہیں تھکتے. کہیں اسلام کے ماننے والے خود کو امن سلامتی کا دین تصور کرتے ہیں اور کہیں گوتم کے پرستار خود کو محبت اور عدم تشدد کے فلسفے پہ گامزن سمجھتے ہیں کہیں باچا خان اور گاندھی کے مداح ہیں جو اس فلسفے پہ خود کو کاربند کرتے ہیں کہ “کوئی تمہیں تھپڑ مارے تو دوسری گال آگے کر دو”. کہیں یورپین ممالک خود کو دنیا کے “سِویلازڈ اقوام” تصور کرتے ہیں تو کہیں امریکہ جیسے سُپر پاور نے دنیا کی تمام ممالک کی ‘ترقی اور خوشحالی’ کا ٹھیکہ اٹھایا ہوا ہے.

‎ان سب تھوریز, فلاسفیز اور دلائل کے ہوتے ہوئے سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ سب اتنے ہی مہذب, شعور یافتہ ترقی پسند اور امن پسند ہیں تو دنیا میں اتنی گہما گہمی ,شدت پسندی اور مار دھاڑ کون کر رہا ہے. اگر ہر شخص ہی امن کا خواہاں ہے تو دورِ حاضر کی اتنی جنگیں کیوں اور کس لیئے لڑی جارہی ہیں ؟

‎نطشے نے کہا تھا
‎”ایک راستہ تمہارا ہے ایک راستہ میرا ہے جہاں تک سوال ہے صحییح راستے کا, تو وہ وجود نہیں رکھتا ہے”

‎مسئلہ تب پیدا ہوتا ہے جب ہم ایک “عالمگیریت” پہ مبنی سچ کی تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں. کیونکہ ہمارا معاشرہ مذہبی سوچ کے زیرِ اثر رہا ہے اس لیئے ہم اُس پیرائے میں چیزوں کو دیکھنے کے عادی ہوجاتے ہیں کہ کوئی ایسا سچ ہو جو اس دنیا میں رہنے والے ہر شخص پہ لاگو کیا جا سکے. لیکن عالمگیریت کے اس تناظر میں نقصان ان چھوٹے ممالک, چھوٹی ریاستںوں اور چھوٹی قوموں کا ہے جن کی نمائندگی گُم ہو جاتی ہے.

‎بلوچسان اور بلوچ قوم کے سچ کو سمجھنے کیلئے ہمیں بلوچستان کی تاریخ ,اسکی ثقافت اور ان لوگوں کی نفسیات سمجھنا لازمی ہے جو وہاں رہتے ہیں ورنہ آپ
“State given Narrative”
‎کے ضرور قائل ہو سکتے ہیں جو اس نے آپکو کنٹرولڈسورسز(کتابوں,میڈیا اور پروپگینڈے) کے ذریعے دیا ہے لیکن اسکا حقیقی “سچ” کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہوگا. اب مسئلہ یہاں شروع ہوتا ہے جب ایک شخص جو نہ تو کبھی بلوچستان گیا ہے نہ اسکو وہاں ہونے والی قبضہ گیریت کا پتہ ہے,نہ وہ وہاں کے لوگوں کی رائے جاننا چاہتا ہے تو پھر وہ “سچ” کیسے پا سکے گا؟

‎پاکستان جیسی غیر فطری ریاست کی بات کی جائے تو اس میں ہم دیکھتے ہیں کہ نہ ملک بنانے والوں کو پتہ ہے ہم کس مقصد کیلئے بنا رہے ہیں نہ اس میں رہنے والوں کو پتہ ہے ہم اس ریاست کی بنیادوں کے بارے کیا کچھ جانتے ہیں. جو ہندو مسلم ہزار سال سے ایک ساتھ رہ رہے تھے اچانک انھیں کیسے یاد آگیا کہ ہم دو الگ شناختیں ہیں؟ اور دنیا میں ہمیں ایسی مثال نہیں ملتی جہاں کسی مُلک کو آزاد کرانے والے نے کوئی صعوبتیں تکلیفیں اور مصائب کا سامنا نہ کیا ہو لیکن ملکِ خداد کے بانی نے جیل تک نہیں دیکھی۔

‎ایسا ملک جہاں دو مذاہب کو دو قومیں ظاہر کیں گئیں جہاں پاکستان کو اسلام کا قلعہ بتایا جاتا ہو اور ایسا تصور دیا جاتا ہے کہ جیسے 47 سے پہلے دنیا کا کوئی وجود ہی نہیں تھا۔

‎جہاں عالمی جھوٹ پہ مبنی “آسمانی کتاب” مطالعہ پاکستان پڑھ کر لوگ حق سچ کا فیصلہ کریں۔

‎جہاں 70 سال سے جمہوریت نام کی کوئی چیز نہ ہو جہاں آئین قانون جرنیلوں کی پاؤں کی جوتی ہو لیکن یہاں کہ نام نہاد “جمہوری” دوسروں کو جمہوریت کے ثمرات بتائیں. ایسی ریاست جہاں آپکو مذہبی بھی سٹیٹ پروپیگینڈے کا شکار ملیں اور جہاں پہ ریاست کے مفادات ہوں اسی طرح ان مذہب فروشوں سے فتویٰ لے لیا اور جنت کی لالچ میں کئی معصوم لوگوں کی زندگیوں سے کھیلا جاتا ہو۔

‎ ایسی ریاست جہاں کے نام نہاد “سوشلسٹ” بھی صرف اُس حد تک بات کریں گے جہاں تک انکے آقاؤں نے اجازت دی. جہاں قومی خودمختیاری اور قومی سوال پہ بات کریں تو فاشسٹ اور کیا کیا القابات سے نوازتے ہوں. چے گویرا اور کاسترو جیسے گوریلوں کے تو یہ دلدادہ ہیں اور اُن کے گن گاتے نہیں تھکتے جنہوں نے سامراج کے خلاف مسلح جدوجہد کی لیکن اس ریاست کی قبضہ گیریت پہ بات آئے تو انکا انقلاب پچھلی صدی کا اِک خواب دکھائی دیتا ہے۔

‎سامراج کا جب تک کسی ریاست پہ قبضہ رہتا ہے براہ راست لوٹ مار کرتا رہتا ہے لیکن اگر کسی علاقے میں اسکا رہنا ناممکن ہو جائے تو وہ ایسے ایجنٹ چھوڑ کے چلا جاتا ہے جو اس کیلئے حکمرانی کرتے ہیں.یہی کام انگریز سامراج نے پاکستان بنا کے کیا اور وہی جرنیل جو پہلے سے اسکی غلامی میں تھے آج بھی پاکستان پہ حاکم ہیں لیکن اس سارے تناظر میں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ آخر انگلستان نے پاکستانی قبضہ گیریت پہ کیوں خاموشی سادھ لی ؟ اسکا سادہ سا جواب یہی ہے کیونکہ اس وقت بلوچ سوشلسٹ تحریکوں سے متاثر تھے اور سوویت یونین کے ساتھ اچھے تعلق استوار تھے اس لیئے وہ نہیں چاہتے تھے کہ بلوچ خود مختیار ہوں اور مستقبل میں انکی سامراجیت اور سرمایہ دارانہ نظام کو نقصان پہنچے.
‎بلوچ سچ کو سمجھنے کیلئے ہمیں ہر اس شئے(entity) کو سمجھنا ہوگا جو بلوچ سیاست اور بلوچ تحریک کابراہ راست یا بالواسطہ حصہ رہے ہوں۔

‎مختلف طبقاتِ فکر ,مختلف عقائد اور مختلف نظریات کے حامل لوگوں میں جو ایک چیز مشترک ہوگی وہ”میں” ہوگی,اپنی ذات کی تشہیر اور سستی شہرت اُنکی پہلی ترجیح ہوگی لیکن اسکے مدِمقابل ایک بلوچ قوم کے سیاسی ورکر سیاسی نمائندے اور سیاسی راہنماؤں کو دیکھیں جو چاہے زمینی سیاست کر رہے ہوں یا مسلح, اُن کیلئے “میں” کی تشہیر موت کی علامت ہے. ایسے کئی گم نام انسان گزرے ہیں جنہوں نے قلم و ہتھیار کے ذریعے کئی کئی کارنامے سرانجام دیئے لیکن شائد ہی انھیں کوئی جانتا ہو, کیونکہ یہ وہ واحد “سچ” ہے جس میں ذات, نام,مقام عہدہ اور لیڈری سے بڑی چیز قوم اور وطن عزیز سمجھا جاتا ہے. اور ہر وہ شخص جو بلوچ تحریک کا حصہ ہے یہ بخوبی جانتا ہے کہ وہ کون ہے اُسکا دشمن کون ہے اور وہ کس کے خلاف برسرِپیکار ہے۔

‎لیکن اگر ہم بلوچ سچ کے مدِمقابل دیکھیں تو واضح طور پہ دیکھا جا سکتا ہے کہ اُسکا دشمن کتنا بےشعور,جاہل اور حقیقت سے دور ہے جسے صرف اتنا بتا دیا جاتا ہے کہ بلوچ غدار ہیں,دشمن سے پیسے لے کے لڑ رہے ہیں اور انکے خلاف جنگ جہاد ہے۔

‎آخر میں اُن کیلئے اتنا عرض ہے کہ اگر یہ جنگ پیسوں کیلئے لڑی جاتی تو نواب نوروز سے لے کر,نواب بگٹی اور نوابزادہ بالاچ تک کئی ایسے سردار, امیر رئیس گزرے ہیں جو پہلے سے شان و شوقت کی زندگی گزار رہے تھے آخر کیا ضرورت تھی کہ وہ پہاڑ پہ چڑھ گئے۔

‎اگر یہ جنگ نام کیلئے لڑی جاتی تو استاد اسلم جیسے کردار نہ تو اپنی اولاد شہید کرتے نہ ڈاکٹر اپنے خاندان کے بیسیوں افراد کو موت کے منہ میں دھکیلتا.
‎یہ کھلی نشانیاں ہیں ہر اُس شخص کیلئے جو “بلوچ قوم کے سچ” کو جاننا اور سمجھنا چاہتا ہے۔