لاپتہ افراد کے لیے قائم کمیشن دنیا کے آنکھوں میں دھول جھونکنے کے مترادف ہے – بی ایس او آزاد

207

بی ایس او آزاد کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں کہا ہے کہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کا مسئلہ آئے روز سنگین شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ جبکہ دوسری جانب دنیاکے آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لیے ریاست نے گزشتہ گیارہ سالوں سے ایک کمیشن کی تشکیل دی ہے جس کی نوعیت ایک کٹھ پتلی کے سوا کچھ نہیں ہے بلوچستان میں آئے روز درجنوں افراد کی جبری گمشدگی تسلسل کے ساتھ جاری ہے اور ہزاروں کی تعداد میں مختلف طبقہ ہائے فکر سے تعلق رکھنے والے افراد سالوں سے زندانوں کے نظر ہو چکے ہیں۔ بلوچ لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے گزشتہ بارہ سالوں سے سراپا احتجاج ہیں۔ جبکہ دوسری جانب لاپتہ افراد کے اِس سنگین مسلئے پر عالمی دنیا خاموش ہے۔

ترجمان نے کہا کہ بی ایس او آزاد پر ریاستی عتاب کے شروع دن سے لیکر آج تک سینکڑوں کارکناں اور رہنما لاپتہ کیے جا چکے ہیں۔ تنظیم کے سابقہ وائس چیرمین ذاکر مجید اور سابق چیئرمین زاہد بلوچ جبکہ سابق انفارمیشن سیکرٹری شبیر بلوچ سمیت سینکڑوں کارکناں سالوں جبری گمشدگی کے بعد تاحال لاپتہ ہیں۔ سابق چیئرمین زاہد بلوچ کی بازیابی کے لیے تنظیم کی جانب سے ایک بھوک ہڑتالی کیمپ لگائی گئی جو عالمی انسانی حقوق کے اداروں کی یقین دہانیوں کے بعد ختم کی گیا۔ عالمی اداروں کے یقین دہانیوں کے باوجود تاحال زاہد بلوچ کو منظر عام پر نہیں لایا گیاجو عالمی انسانی حقوق کے اداروں کی مذکورہ مسلئے پر غیر سنجیدگی کی وضح دلیل ہے۔

ترجمان نے مزید کہا کہ بلوچستان میں جاری جبری گمشدگیوں پر جہاں عالمی انسانی حقوق کے ادارے خاموشی کا مظاہرہ کر رہے ہیں تو دوسری جانب ریاست مختلف حربوں کا استعمال کرتے ہوئے عالمی دنیا کے آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہے۔ گزشتہ گیارہ سالوں سے قائم کردہ کمیشن کی حیثیت ایک ایسے ادارے کی ہے جو لاپتہ افراد کے مسلئے کو حل کرنے کے بجائے مزید بگاڑنے کا کردار اد ا کر رہی ہے۔ کمیشن اپنے قیام سے لیکر آج تک کسی کیس کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے اور ہر سال ہونے والے سماعتوں میں لاپتہ افراد کے کیسز کو نئی روپ دیکر لواحقین کو مزید ازیتوں میں مبتلا کرتے ہیں۔

اپنے بیان کے آخر میں ترجمان نے کہا ریاست پاکستان کی جانب سے قائم کردہ کمیشن رسمی نوعیت کی ہے جس کا واضح مقصد لاپتہ افراد کے مسلئے کو مزید پیچیدہ بنا کر ایک الگ شکل دینی ہے۔لاپتہ افراد کا مسلۂ آئے روز سنگین شکل اختیار کی جارہی اور اِس حوالے سے عالمی اداروں کی خاموشی ریاست کو انسان حقوق کی سنگین پامالیوں کو جاری رکھنے کے لیے توانائی فراہم کررہی ہے۔