سمی کی چوڑیاں – برزکوہی

1391

سمی کی چوڑیاں

تحریر: برزکوہی

دی بلوچستان پوسٹ

ڈاکٹر دین محمد نے جس سرزمین پر آنکھ کھولیں، جس پر چلنا سیکھا اور جس کے خاک و دھول اور لوگوں سے جنون کی حد تک محبت رکھی، وہ اس سرزمین کی تاریخ، روایات، نفسیات اور حالت زار سے بخوبی واقف تھا۔ وہ جانتا تھا کہ کس طرح جب ایک دودا گورگیج دوپہر کو تھوڑی دیر آنکھ لگادے تو کیسے سردار بیبگر پژ اس سرزمین کے سمی کے مال مویشی لوٹ کر ہانکتے ہوئے لیجاتا ہے۔ وہ جانتا تھا کہ پھر بھی یہ وہی سرزمین ہے جہاں ایک سمی کی مدد کے پکار پر دودا ستر ساتھیوں سمیت اپنی جان قربان کردیتا ہے۔ لیکن ڈاکٹر دین جان وقت کے رفتار کے ساتھ بڑھنے والا شخص تھا، وہ جانتا تھا کہ اب وقت بدل چکا ہے، اب رات کے اندھیروں میں بیبگر پژ محض گائے ہانک کر غائب نہیں کریگا بلکہ اب پورے زندہ انسانوں کو ہزاروں کی تعداد میں غائب کیا جاتا ہے۔ کیونکہ اب دوپہر کو صرف ایک دودا سوا ہوا نہیں ہے بلکہ سارے دودا جاگتی آنکھوں کے ساتھ سوئے پڑے ہیں۔ انہیں اٹھانے کیلئے وقت کے سمی کی پکار کی ضرورت ہے۔ اسی لیئے جب ڈاکٹر دین جان کے گھر بیٹی کی ولادت ہوئی تو اس نے نام سمی رکھ دیا۔

ڈاکٹر دین جان کے دھرتی پر جب ایک میر دودا کے باہوٹ سمی کے لٹنے کی خبر دودا کی ماں کو موصول ہوتی ہے، تو وہ بے چین ہوکر بھاگتی سوئے ہوئے دودا کے دروازے کے سامنے کھڑی ہوکر یہ تاریخی جملہ کہتی ہے ” دودا! جو بلوچیت کی ذمہ داری اپنے کندھوں پر اٹھاتے ہیں، وہ دوپہر کو گھروں میں بے فکر ہوکر نئی بیاہتا بیویوں کے ساتھ آرام نہیں کرتے۔”

آج وقت کا سمی چند پہروں سے نہیں بلکہ 12 سالوں سے محض مال مویشی کیلئے نہیں بلکہ ایک شفیق باپ اور ہزاروں مزید لاپتہ بھائیوں کیلئے آوازیں دی رہی ہے، اور وقت کے دوداوں کی مائیں خوابگاہوں کے دہلیز پر کھڑےبلوچی غیرت کا شگان دی رہی ہیں۔ آج کا سمی اپنے لٹے مال و متاع کیلئے سڑکوں و پریس کلبوں کے سامنے دیوانہ وار مستقل مزاجی سے اپنی تلاش جاری رکھے ہوئے ہے۔ لیکن آج کتنے وقت کے دودا جاگ گئے اور کتنے دوپہر کو نوبیاہتا دلہنوں کے ساتھ سوئے پڑے ہیں؟

آج وہ جو لفاظی حد تک بلوچ رسم و رواج کی بات کرتے ہیں، جو ایک ٹکڑے زمین کی خاطر جرگہ منقعد کرکے آسمان سر پر اٹھاکر دودا بننے کا دعویدار ہیں، لیکن انہیں نظر نہیں آتا کہ پوری سرزمین پر قبضہ ہے۔ آج ہزاروں سمی باہوٹ ہیں لیکن کہاں ہے، وہ بلوچی غیریت و وقار اور بلوچی خوداری؟ کہاں ہے وہ بلوچی ضد و بلوچی بیرگیری؟ یہ لوگ جو بلوچیت کی سیڑھیاں چڑھ کر سرداری، میری، خان و نوابی کے دعویدار ہیں، وہ خود سے لیکر اپنے لوگوں تک کو پنجابیوں کے ٹکڑوں پر پالتے ہیں۔ انکی بلوچیت ایک سمی کے آواز پر کہاں جاگے گی، آج ہزاروں ، سمی، ماہ رنگ، حسیبہ، صبحیہ ،سارین ،سیما ذاکر اور راشد کی ماوں کی صورت صدا دے رہے ہیں۔ لیکن وہ بے ضمیری کی اس حد تک جا چکے ہیں کہ سڑکوں پر خوار بلوچ ماوں اور بہنوں کو بلوچ ہی تصور نہیں کرتے۔ آج یہ دیکھ کر دودا، بالاچ، اکبر، اسلم، نوروز اور محراب خان کا روح ضرور کانپتا ہوگا کہ یہ نمونے اور پنجابی کے استرے سے تراشے ہوئے بت کس بلوچیت، غیریت اور رسم و رواج کی بات کرتے ہیں؟

بلوچیت درحقیقت ہے کیا؟ بلوچیت تو ایک فلسفہ حیات ہے، ایک طریقِ زندگی ہے جو ظلم واندھیرے کے خلاف مزاحمت سے نتھی ہے۔ جو کمزور ترین حالت میں بھی جھکنے کے بجائے باطل سے ٹکرا کر فنا ہوجانے کا درس ہے۔ آج جس بلوچیت پر فخر کیا جاتا ہے، وہ ان لامتناہی عملی مثالوں کے طفیل ہے جو تاریخ میں ہمارے اجداد نے اپنے مزاحمت سے قائم کی۔ تاریخ کے پنوں کو کھنگال کر دیکھیں کتنے قابضین نے یہ دہرایا ہے کہ کمزور بلوچ اپنی سرزمین پر ایک دن آرام سے بیٹھنے نہیں دیتے تو جان جوکھم ڈال کر یہاں قبضہ کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ بلوچ وہی ہے، جو مزاحمت کے اس مقدس بلوچ قدر کو شعار بناتا ہے۔ اور آج سمی اور باقی مائیں بہنیں اسی مزاحمت کا زندہ پیکر بنے ہوئے ہیں۔

ہمارے معاشرے میں جب کسی کو بزدلی کا طعنہ دیا جاتا ہے تو کہا جاتا ہے کہ چوڑیاں پہن لو، یہاں کمزوری کی علامت چوڑی نہیں ہوتی، بلکہ چوڑیوں سے منسلک عورت ہوتی ہے۔ تم بزدل و کمزور ہو یعنی پھر تم عورت ہو۔ لیکن آج معنی بدل رہے ہیں، آج جنہوں نے بلوچیت کے بڑے بڑے دستار سرپرسجائے ہوئے ہیں، وہ قابض کے جوتے چاٹنے کیلئے اتنے جھکے ہوئے ہیں کہ انکی ناک ہی نہیں بلکہ دستار تک دشمن کے جوتوں پر رگڑ رہا ہے، لیکن یہ دشمن جب کسی بلوچ آبادی پر لشکر کشی کرتا ہے تو سب سے پہلے چوڑیوں کے کھنکنے کی آواز آتی ہے اور ایک ماں بڑے لشکر کے سامنے کھڑی ہوکر للکارتے ہوئے کہتی ہے کہ خبردار میرے گدان کی طرف گئے، جب رات کی تاریکی میں بزدل دشمن چھاپہ مارکر کسی بھائی کو اغوا کررہا ہوتا ہے تو پھر انہی چوڑیوں کی کھنکنے کی آواز آتی ہے اور ایک بہن بندوق کے نلوں کے سامنے اپنے بھائی سے لپٹتے ہوئے کہتی ہے کہ خبردار میرے بھائی کو ہاتھ لگایا وہ لڑتی رہتی ہے، چوڑیاں ٹوٹ کر اسکے ہاتھوں میں چھبتے رہتے ہیں لیکن اسکی مزاحمت جاری رہتی ہے۔ جب دشمن ایک لاش سے خوفزدہ ہوکر سارے راستے بند کردیتا ہے تو یہ گھنٹوں پیدل چل کر چوڑیاں کھنکھاتی اپنے منزل تک پہنچتی ہیں، جب جہاں کوئی مظاہرہ و احتجاج ہوتا ہے وہاں یر چوڑیوں کے کھنکنے کی گونج بھی ہوتی ہے، ان چوڑیوں کی آواز ہر پریس کلب میں گونج رہی ہے، آج بھی کوئٹہ سے کراچی اور کراچی سے اسلام آباد تک فرزانہ اور سمی کے چوڑیوں کی کھنکنے کی آواز ہے اور ابھی یہ چوڑیاں پاکستان کے اعلیٰ ایوان کے سامنے موت کے اس آخری گھنٹی کی طرح بج رہی ہیں جو بتاتا ہے کہ تمہارا آخری وقت اب ہوا چاہتا ہے۔

اگر حقیقی بلوچ مزاحمت کی مثال کسی نے قائم کی ہے تو وہ بلوچ ماوں اور بہنوں نے کی ہے اور اگر کوئی حقیقی بلوچ کہلوانے کا حقدار ہے تو یہی مائیں اور بہنیں ہیں۔ آج ہم یہ بھی نہیں کہہ سکتے کہ جنہوں نے قابض سے ساز باز کرکے یا پھر ڈر کر خاموشی کا دامن تھاما ہے، انہوں نے چوڑیاں پہنی ہیں۔ نہیں! کیونکہ آج یہ چوڑیاں بزدلی و کمزوری کی نہیں بلکہ بہادری کی علامت بن چکی ہیں۔ آج یہ چوڑیاں عزم و استقامت کی مثال بن چکی ہیں، یہ چوڑیاں مستقل مزاجی کا بین کرتے ہوئے بلوچی مزاحمت کا اعلان بن چکی ہیں۔

وہ جنہوں نے زندگی کو مزاحمت پر ترجیح دی ہے، وہ جو دستار کے پیچوں میں بلوچیت ڈھونڈتے ہیں، وہ جن کے تخت فوجی بوٹوں کے نوک پر رکھے جاتے ہیں، وہ جو مزاحمت بھائی کے گردن پر چھری پھیرنے، تحمل دشمن سے بدک کر چھپنے اور مفاہمت و مذاکرات قابض کو جگہ دینے کو قرار دے چکے ہیں وہ جان لیں، بلوچیت یہ چوڑیاں ہیں، بلوچیت اسلام آباد میں بیٹھی مائیں بہنیں ہیں، مزاحمت ڈاکٹر دین جان تھا اور مزاحمت سمی ہے۔

اسی بلوچ مزاحمت کے رنگوں کو ملا رگام واشی ان الفاظ میں اتارتا ہے۔
ترجمہ:
“جب کبوتر اور باز ایک جگہ بسیرا کرلیں
اور پاگل بھیڑیا بکریوں کا رکھوالا ہوجائے
اگر بلّی روغن کا پاسبان بن جائے
اگر آگ اور اُون ہمزبان ہوجائیں
اگر آہُو شیر کے ساتھ ہمقدم ہوجائے
انار باجرے کے دانے جتنا چھوٹا ہوجائے
سمندر اتنا خُشک ہو کہ گذرگاہ بن جائے
اور مچھلیاں میدانوں میں دَوڑنے لگیں
اگر اُنتیسویں چاند کی رات کو چاندنی چَٹکے
شاید اُس وقت تم سے میرا نفرت کم ہوجائے
شاید اُس وقت میں تم سے مذاکرات کرلوں”


بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں