بالکل ایسا ہے بلوچستان – محمد خان داؤد 

136

بالکل ایسا ہے بلوچستان

 تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ 

”سوچ،اور خیالات کے آسماں سے بہت آگے
برفانی چوٹیوں اورگہرے سمندروں کے پار
سچ کی آبادی میں دل کی آنکھوں سے دیکھتا ہوں
وہ تھوڑا سا دور میرا داغستان ہے
میری زندگی کا احرام،میری زندگی کا صحیفہ
جہاں میری ماں رہتی ہے!
اک کچے مکاں میں
کچے مکاں کے پرانے کمرے میں
میں اس پرانے کمرے کا اک بلاک ہوں
یہ اک بلاک جب تک قائم رہے گا
جب تک میرا داغستان قائم رہے گا
میری ماں جیسا
میری محبوبہ جیسا
میری بولی جیسا
میری محبت کا نشان“

یہ رسو ل حمزہ توف نے اپنے دیس داغستان کے لیے لکھا ہے
وہ بلوچ اپنے دیس کو کن الفاظ میں یاد کرتے ہیں جو دیس کی ہواؤں سے دور بستے ہیں؟
جو دیس کی مٹی سے دور ہیں؟
جن پر دیس کی بارشیں نہیں برستیں؟
جن پر دیس کی شامیں اور صبحیں نہیں ہو تیں؟
جن پر دیس کے جھرنے نہیں بہتے؟
جو دیس کے پانیوں میں گیلے نہیں ہوتے؟
جو دیس سے دور بستے ہیں

ایک وہ ہیں جو دیس کی رگ و پے میں رہتے ہیں جن کا اُوڑنا بچھونا دیس کے پتھر ہیں، جو دیس کے پہاڑوں میں بستے ہیں جن پر سب سے پہلے صبح ہو تی ہے جس پر سب سے بعد میں رات چھاجا تی ہے جن کو سورج سلام کرتے آکاش پر چڑھ جاتا ہے اور جن کو سورج دیکھ کر پہاڑوں کی اُوٹ میں چھپ جاتا ہے، جن سے چاند کی یا ری ہے جن کو چاند نام سے جانتا ہے ”حمل،جئیند،ستار!“ جن کے گھائل ہونے پر چاند اداس ہو جاتا ہے،جن کے لہو لہو ہونے پر چاند سوچتا ہے کہ وہ کسی ندی میں کود کر خود شی کر لے جن کے شہید ہونے پر چاند کئی روز کا ماتم کرتا ہے اور کسی سیاہ بادل سے کوئی سیاہ ٹکڑہ لیکر اپنے تن پر سیاہ بادہ اُوڑ یتا ہے، جن پر بارش عشق کی طرح برستی ہے جورات بھر شبنم میں نہا تے ہیں۔ جن پر سب سے پہلے سفید برف براہ راست گرتی رہتی ہے اور وہ اس سفید برف میں گلابی محبوبہ کا نام لکھتے جا تے ہیں۔ جن پر جب دیس کی ہوائیں چلتی ہیں جو ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وہ پاگل ہو جائیں کیوں ان ہواؤں میں محبت کے سندیسے ہو تے ہیں، پر وہ ہوا ان کے بدن سے مس ہوکر دیوانی ہونے لگتی ہے،
جو پہاڑوں پر کُندہ کر کے اپنی بولی میں
ماں
اور محبوبہ کا نام لکھتے ہیں
“عائیشہ
ہانی!“
اور ان ناموں کو ایسے سلامی دیتے ہیں جیسے کوئی مجاور مزاروں کو سلامی دیتے ہیں
وہ وہ دو نام،چند نام،یا کئی نام ان عاشقوں کی مزاریں ہی تو ہو تی ہیں جہاں وہ ان کو سلامی دیتے نظر آتے ہیں
جہاں وہ پہاڑوں کے دامنوں میں پھول تلاشتے پھرتے ہیں جب ان کا کوئی محبت کرنے والا گھائل ہوکر گزرتا ہے تو وہ اس دن کھانا نہیں پکاتے پر اداس ہوکر دیس کی محبت کی قسم کھا تے ہیں اور دیس سے یہ وچن کرتے ہیں
”ہم کیسے واپس لوٹ جائیں
نہ تو آزاد ہے
نہ مٹی آزاد ہے
نہ ہوائیں آزاد ہیں
اور نہ محبت
ہم جب لوٹیں گے
جب مٹی
ہوا
اور محبت آزاد ہو گی“
جہاں وہ دیس کے لیے جیتے ہیں اور دیس کے لیے مرتے ہیں
جہاں ان کو پہاڑوں سے ایسی ہی محبت ہے جیسے ہمیں اپنے گھروں سے
جہاں وہ پہاڑوں کی باتیں ایسے ہی سنتے ہیں
جیسے سدھارتھ ندی کی باتیں سنا کرتا تھا
ہم تو یہاں انسانوں کی باتیں بھی نہیں سنتے
سدھارتھ نے یہ بات ان کے لیے ہی کہی تھی کہ
”یہ کیسے شانت ہوکر ندی کی باتیں سنتے ہیں جہاں سے میں آیا ہوں وہاں تو انسان،انسانوں کی باتیں بھی نہیں سنتے وہاں تو بولنے کے نام پر معلوم نہیں کیا کچھ بولا جاتا ہے؟“
تو وہ اپنے دیس کو کس طرح یاد کرتے ہیں؟
وہ اپنی ماں کو کس طرح یا دکرتے ہیں؟
وہ اپنی بولی کو کس طرح یاد کرتے ہیں؟
وہ اپنی محبوبہ کو کس طرح یاد کرتے ہیں؟
کیا ان کے دل بھی رسول حمزہ توف کی طرح دھڑکتے ہیں کہ
”سوچ،اور خیالات کے آسماں سے بہت آگے
برفانی چوٹیوں اورگہرے سمندروں کے پار
سچ کی آبادی میں دل کی آنکھوں سے دیکھتا ہوں
وہ تھوڑا سا دور میرا داغستان ہے
میری زندگی کا احرام،میری زندگی کا صحیفہ
جہاں میری ماں رہتی ہے
اک کچے مکاں میں
کچے مکاں کے پرانے کمرے میں
میں اس پرانے کمرے کا اک بلاک ہوں
یہ اک بلاک جب تک قائم رہے گا
جب تک میرا داغستان قائم رہے گا
وہ تھوڑا سا دور میرا داغستان ہے
میری زندگی کا احرام،میری زندگی کا صحیفہ
جہاں میری ماں رہتی ہے!
اک کچے مکاں میں
کچے مکاں کے پرانے کمرے میں
میں اس پرانے کمرے کا اک بلاک ہوں
یہ اک بلاک جب تک قائم رہے گا
جب تک میرا داغستان قائم رہے گا
میری ماں جیسی
میری محبوبہ جیسی
میری بولی جیسی
میری محبت کا نشان!“
اور بیٹھے بیٹھے وہ اک دن ضرور ایسا لکھیں گے کہ
”بلکل ایسا ہے بلوچستان“
اور کافی دیر سوچنے کے بعد مزید لکھیں گے
”ماں کی بولی جیسا
محبوبہ کے گالوں جیسا“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں