ہرنائی: کوئلہ کان میں حادثہ، دو کانکن ہلاک

242
فائل فوٹو

بلوچستان کے علاقہ ہرنائی نصرت کول میں کوئلے کے کان میں حادثہ پیش آنے سے دو کانکن ہلاک ہوگئے۔ حادثہ حاجی عثمان نامی ٹھیکیدار کے کول لیز میں پیش آیا ہے۔

ہلاک مزدوروں کی شناخت عبداللہ ولد محمد علی اور رسول جان ولد شائستہ خان کے ناموں ہوئے ہیں جن کا تعلق افغانستان سے بتایا جاتا ہے۔

مقامی لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ایک لاش کو نکال دیا جبکہ دوسرا لاش ابتک ملبے تلے دبا ہوا ہے۔

مقامی لوگوں کے مطابق انتظامیہ کی جانب سے ابتک کوئی مدد نہیں پہنچی ہے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل بھی ہرنائی میں کوئلے کے لیزوں میں کئی حادثات کے واقعات پیش آچکے ہیں تاہم کان میں کام کرنے والے مزدوروں کا کہنا تھا سہولیات کے عدم دستیابی کے باعث ایسے حادثوں میں کئی کانکن اپنی جان کی بازی ہار چکے ہیں۔

ایک رپورٹ کے مطابق سال 2000 سے 2019 تک پاکستان میں تیرہ سو سے زیادہ کان کن کوئلے کی کانوں میں دھماکوں، مٹی کا تودہ گرنے اور مختلف حادثات کی وجہ سے جاںبحق ہوئے ہیں جن میں ایک بڑی تعداد بلوچستان میں پیش آنے والے حادثات کی شامل ہے۔

کوئلہ کانوں میں کام کرنے والے مزدور پھیپڑوں، گردوں اور دیگر بیماریوں کا بھی شکار ہوتے ہیں۔

بلوچستان میں کائلہ کانوں میں مزدوروں کو جہاں سہولات میسر نہیں وہی انہیں مزدوری کے بدلے بہت قلیل معاوضہ ملتا ہے جس سے بمشکل وہ اپنا گھر چلاتے ہیں۔

بلوچستان میں مائننگ کے شعبے کے ماہر عمر حیات کہتے ہیں کہ یہاں مائننگ سیکٹر اور اس سے متعلقہ قوانین میں بہت خامیاں ہیں جن پر نظر ثانی وقت کی اولین ضرورت ہے: ”جغرافیائی لحاظ سے اگر بات کی جائے تو یہاں مائننگ کا شعبہ ملک کے دیگر حصوں سے کافی مختلف ہے۔ یہاں کی کوئلہ کانیں بہت گہری ہیں اور ان کانوں میں موجود گیسز کی مقدار جانچنے کے لیے باقاعدہ ایک جامع میکنزم کی ضرورت ہے۔ جب تک ایک مؤثر سسٹم اس حوالےسے فعال نہیں بنایا جاتا ان کانوں میں کاربن ڈائی آکسائیڈ یا میتھیں نامی گیس کی مقدار مانیٹر نہیں کی جا سکتی۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام کانوں میں ایک کنٹرول سسٹم نصب کیا جائے تاکہ گیس کی خطرناک حد تک مقدار جمع ہونے کی صورت میں خطرے کی گھنٹیاں بجا کر کسی ممکنہ دھماکے سے قبل ہی کان کنوں کو کان سے باہر نکالا جا سکے۔‘‘