کوئٹہ: اساتذہ اور طلباء کا مطالبات کے حق میں احتجاج، مظاہرین گرفتار

121

بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں بلوچستان کے مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے اساتذہ جن میں مرد اور خواتین شامل ہیں، میٹرو پولٹین میں اپنے مطالبات کے حق میں سراپا احتجاج ہیں۔

احتجاج میں شامل خواتین اساتذہ نے کہا کہ پولیس نے ان کے ساتھیوں کو گرفتار کیا ہے، جبکہ کوئٹہ پولیس کا موقف ہے کہ گرفتار اساتذہ کو رہا کردیا گیا ہے۔

احتجاجی مظاہرے میں شامل اساتذہ کا کہنا ہے کہ پانچ سال سے ہمیں اپنا حق نہیں دیا جارہا ہے۔ شدید سردی میں ہم احتجاج کرنے پر مجبور ہوگئے ہیں۔

ان کا موقف ہے کہ گذشتہ پانچ سال سے ہمیں مستقل نہیں کیا جارہا ہے۔ صوبائی حکومت نے پانچ سالوں سے ہمیں صرف جھوٹے دلاسے دی ہے۔ جبکہ سات سات مہینوں تک تنخواء بند کی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم مطالبہ کرتے ہیں کہ جی پی ای اساتذہ کو مستقل کیا جائے۔

خیال رہے کہ گذشتہ مہینے ضلع کیچ سے آئے اساتذہ نے اپنے مطالبات کی حق میں 23 روز تک کوئٹہ پریس کلب کے سامنے علامتی بھوک ہڑتالی کیمپ قائم کی تھی۔

تاہم بلوچستان حکومت نے انکی مطالبات پر گوش گزار نہیں کیا تو انہوں نے تادم مرگ بھوک ہڑتال کا فیصلہ کیا۔

مکران سے تعلق رکھنے والے 11 اساتذہ جن میں پانچ خواتین بھی شامل تھیں، تادم مرگ بھوک ہڑتال پر بیٹھ گئے جس کے باعث انکی حالت غیر ہوگئی تھی بعد ازاں بلوچستان حکومت نے معطل اساتذہ کو بحال کردیا۔

بلوچستان میں سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کا نمائندہ جماعت گورنمنٹ ٹیچرز ایسوسی ایشن کے مطابق بلوچستان میں اساتذہ کو درپیش مسائل کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ ہمیں اپنے مطالبات کے حق میں بلوچستان حکومت کو جگانے کے لیے ہمیشہ پریس کلبوں کا رخ کرنا پڑتا ہے۔

دریں اثناء بلوچستان یونیورسٹی کے طلباء نے اپنے مطالبات کے حق میں بلوچستان یونیورسٹی کے سامنے سریاب روڈ کو ہر قسم کی ٹریفک کیلئے بند کرکے احتجاج کیا۔

طلباء کا موقف ہے یونیورسٹی آف بلوچستان کے انتظامیہ کی نا اہلی اور حالیہ ایم اے کے فارم ریجیکٹ کرنے کے خلاف ہم سراپا احتجاج ہیں۔

کئ گھنٹوں تک طلباء نے سریاب روڈ کو بند کرکے اپنے مطالبات کے حق میں نعرہ بازی کی۔ احتجاجی طلباء پر پولیس نے لاٹھی چارج کرکے انہیں گرفتار کیا ہے۔

گرفتار طلباء میں بی ایس او کے مرکزی سیکرٹری جنرل منیر جالب، اقبال بلوچ سمیت دیگر طلباء شامل ہیں۔