عرفان بلوچ نے دیپک کے سینے سے گولی کیوں نہ اتاری؟ – محمد خان داؤد

251

‎عرفان بلوچ تم نے دیپک کے سینے میں گولی کیوں نہ اتاری؟

‎تحریر: محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

‎جب گلے میں پڑا کچھ اونس وزن کا منگل سوتر صلیب جیسا محسوس ہو
‎جب مانگ میں لگا سُندروبار جیسا محسوس ہو
‎جب ساتھ میں کھائے سات پھیرے عیب محسوس ہوں
‎جب سات وچن کوئی دیو مالائی قصہ محسوس ہو
‎تو ایک سکھی کیا کرے؟
‎ویسے اس کے گلے میں منگل سوتر تھا بھی نہیں وہ ایک کامریڈ ہے۔اور کامریڈوں کے گلے میں کیسے منگل سوتر؟وہ سدا سہاگن ہے پر اس کی مانگ کبھی ایسی نہیں رہی جس کے لیے ایاز نے لکھا تھا کہ
‎”پھول تنھنجا کڈھن نہ مرجھائیجن
‎سیندھ تنھنجی کڈھن میری نہ تھئیے!“
‎اس کی مانگ میں کبھی پھول نہیں رہے اور اس کی مانگ ہمیشہ میلی ہی رہی

‎جدید دور کی ماڈرن لڑکیوں کے لیے ویسے بھی سات پھیرے اور سات وچن تو کوئی دیو مالائی قصہ ہی ہو تے ہیں وہ اپنے ور کے ساتھ سات پھیرے بھی لیتی ہیں اور سات وچن بھی کرتی ہیں پر وہ سات وچن کون نبھاتا ہے؟

‎اس نے بھی ساتھ پھیرے لیے تھے اور ساتھ وچن کیے تھے،پر گذشتہ کئی ماہ سے اسے وہ سات پھیرے اور سات وچن گلے کا طوق محسوس ہو رہے تھے یا نہیں معلوم اسے وہ گلے کا طوق محسوس ہو رہا تھا جس سے اس نے وچن کیے اور پھیرے لیے؟
‎اب اس نے وہ ساتھ پھیرے سات وچن گلے میں پڑے طوق کی طرح اتار پھینکے ہیں پر معلوم نہیں کہ اس نے وہ وچن اور سات پھیروں کا طوق اتارا ہے یا اسے اپنے گلے سے اتار پھینکا ہے جس کی بانہوں میں وہ بانہیں ڈالیں اپنے جدید موبائل سے فوٹو کیپچر کیا کرتی تھی؟

‎اب بس سوشل میڈیا پر تصویریں رہ گئی ہیں
‎وہ اس گھر نما مندر سے چلی گئی جہاں بس جلتا دیپک ہی رہ گیا
‎عرفان بلوچ نے تو دیپک کو ہاف فرائی کیا تھا۔وہ دیپک کو فل فرائی کر گئی ہے
‎عرفان بلوچ نے تو دیپک کے نیچے دھڑ میں گولیاں برسائیں تھیں جس سے وہ مفلوج ہوا
‎پر وہ دیپک کے سینے میں گولی پیوست کر گئی ہے اب دیکھنا یہ ہے کہ بن مورتی کہ وہ دیپک کتنی دیر تک جل سکتا ہے؟
‎مندر رہے گا
‎مورتی میں جان پڑ گئی
‎اپنے پیروں سے چل کر گئی
‎اداس مندر میں اکیلا دیپک جل رہا ہے
‎اداس مندر میں کوئی پُجا ری بھی نہیں
‎پر یہ اکیلا دیپک کب تک جلتا رہے گا

‎یہ سوال ہر اس رہ گزر کا ہے جو اس مندر کے سامنے سے گزرتے وقت سُنیتا نامی مورتی کے سامنے ہاتھ جوڑے کھڑا ہوجاتا تھا اوراپنے من میں کچھ اشلوک پڑھ کر آگے بڑھ جاتا تھا اب جب وہ کل وہاں سے گزریں گے اور اس اداس مندر میں سُنیتا نامی مو رتی نہ ہوگی بس اداس مندر میں اکیلا دیپک جل رہا ہوگا تو وہ جا تے رہ گزر کیا سوچیں گے؟
‎یہی کہ
‎”تا پھر نہ انتظار میں نیند آئے عمر بھر
‎آنے کا عہد کر گئے،آئے جو خواب میں!“
‎اور وہ راہ چلتے اپنے من میں ایسی پراتنا ضرور کریں گے کہ
‎”عرفان بلوچ اسی وقت تونے اس دیپک کے من میں ایک ہی گولی کیوں نہ اتار دی
‎وہ جلتے جلتے بجھ جاتا
‎یوں بجھتے بھجتے جلنے کی کوشش تو نہ کرتا
‎اور اب تو بجھ ہی جائے تو اچھا ہے
‎رام رام رام

‎سوال یہ نہیں ہے کہ سُنیتا بھی کیا کرتی وہ بھی تو انسان ہے؟
‎پر سوال یہ ہے کہ اب دیپک کیا کرے کہاں جائے؟
‎اس کی روح اور محبت کا قتل ہوا ہے اور وہ آج ہوا ہے وہ اتنے سالوں سے اپنی روح کی بقا اور محبت کے واسطے زندہ رہا۔وہ جیسا تیسا جیتا رہا اسے یقین تھا کہ وہ اسے کبھی نہیں چھوڑے گی وہ اسے چھوڑ کے جا ہی نہیں سکتی اسے یقین تھا کہ سُنیتا اسے انصاف لیکر دیگی اور وہ دونوں انصاف کے جزیرے میں محبت کی سانسیں لیں گے۔وہ تو یہ نہیں جانتا تھا کہ محبت کی مات ہو جائیگی اور انسانی ضروریات کی فتح ہوگی

‎آج محبت اپنی معصومیت کے ساتھ قتل ہو گئی اور انسانی جبلتوں کی جیت ہوئی
‎ایسے قتل کی ایف آئی آر کہاں درج کی جائے
‎ایسے رویوں کی پٹیشن کہاں داخلِ دفتر ہوگی؟
‎سُنیتا تو مومن کا لبادہ اوڑھے سب حساب کتاب سے آزاد ہوگئی
‎پر وہ کافر کہاں جائے جو یہاں بھی عذاب میں ہے
‎اور وہاں بھی عذاب میں ہوگا؟
‎”کب سے ہوں،کیا بتاؤں،جہاں خراب میں
‎شب ہائے ہجر کو بھی رکھوں گر حساب میں“

‎سُنیتا حساب تمام کرگئی اور دیپک نے اپنا ناتمام بھی سُنیتا کو دے دیا
‎سُنیتا کے ہو تے دیپک کا پانی قریب تر تھا اب سُنیتا دیپک کی پیاس بڑھا گئی اب دیپک پیاس لگنے پر کس کو کہے گا سُنیتا پانی تو پلاؤ!
‎دیپک پہلے بھی روتا تھا اور اب بھی روئیگا پر اب تو وہ دامن یار رہا ہی نہیں جس دامن میں دیپک اپنا تمام تر دکھ آنسوؤں کی صورت میں جذب کر دیتا تھا۔اب نہ وہ دامن رہا نہ آنچل رہا
‎ وہ یار تو اس دامن کو ہی اتار پھینکا
‎وہ بھی کیا کرتی جب درد بھرے آنسو اس دامن اور آنچل کو جلا ڈالتے تو وہ اس آنچل اور دامن کو اتارتی نہیں تو اور کیا کرتی؟
‎اب دیپک ایسا کوئی خواب نہیں دیکھے گا جس میں اس کے دونوں پیر سلامت ہیں اور وہ اپنی بانہوں میں سُنیتا کو اُٹھائے کسی پہاڑ پر چل رہا ہے
‎پر اب جب بھی وہ خواب میں دیکھا تو اس عرفان بلوچ کو دیکھے گا اور اس سے ہاتھ جوڑ کر کہے گا
‎”سائیں بس ایک اور احسان کر دو
‎میرے سینے میں گولی اتار دو
‎سائیں! تھک گیا ہوں!!“


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔