شہید بانک کریمہ بلوچ، انسانی حقوق کے ادارے اور قوم – جورکان بلوچ

725

شہید بانک کریمہ بلوچ، انسانی حقوق کے ادارے اور قوم

 تحریر: جورکان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ 

بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد پچھلے 72 سالوں سے جاری ہے۔ اس جدوجہد نے بہت سے بہادر فرزند جنم دیئے ہیں۔ ان فرزندوں میں کوئی ڈاکٹر اللہ نظر کی شکل میں آیا ہے ، تو کوئی بالاچ کی، کوئی استاد اسلم کی تو کوئی ڈاکٹر منان جان کی شکل میں۔ اس جدوجہد کے دوران بد قسمتی سے عورت کا کردار آٹے میں نمک کے برابر رہا ہے۔ لیکن ان ہی حالتوں میں جنم لینے والی ایک جہدکار اور وطن کی بیٹی بانک کریمہ بلوچ تھی۔

کریمہ پیدا تو دبئی میں ہوئی لیکن اپنے قوم سے محبت کرنے کی وجہ سے اور اپنی قومی غلامی کی احساس کو دل میں رکھنے کی وجہ سے اپنی قوم سے دور نہ ہو پائی اور قومی آزادی کی جدوجہد میں شریک ہوئی۔

کریمہ بلوچ نے 2006 میں بی ایس او آزاد کی پلیٹ فارم سے اپنی سیاسی زندگی کا آغاز کیا۔ کریمہ بلوچ نے بلوچستان کے گاؤں گاؤں ، کریہ کریہ ، گھر گھر جاکر لوگوں کو بلوچ قومی آذادی کی تحریک میں شامل ہونے کی دعوت دی۔

بانک کریمہ بلوچ 2014 میں بی ایس او آزاد کی مرکزی چئیرپرسن منتخب ہوئی۔ تحریک میں پہلی بار ایک عورت اس عہدے پر فائز ہوئی تھی۔
بلوچستان کے حالات پاکستان کی ظلم و جبر کو مدِ نظر رکھتے ہوئے تنظیم نے یہ فیصلہ کیا کہ کریمہ بلوچ کی جان کو یہاں خطرہ ہے تو لہٰذا کریمہ بلوچ بیرونی ملک جاکر بلوچستان کی آواز بن کر اپنی سیاسی زندگی جاری رکھیں اور پاکستان کی ظلم اور بلوچوں کی محکومی کو دنیا کے سامنے رکھی۔ تو ان مسائل اور حالات کو دیکھتے ہوئے شہید بانک کریمہ بلوچ کینڈا چلے گئے۔

بی ایس او سے فارغ ہونے کے بعد بانک نے اپنی جدوجہد بی این ایم کے فلیٹ فورم سے جاری رکھی تھی۔ ابھی حال ہی میں یہ خبر پھیل گئی کہ بانک کریمہ کی لاش کینڈا کے شہر ٹورنٹو میں ندی کنارے ملی ہے۔اس خبر نے پورے بلوچستان اور بلوچ قوم کو صدمے میں مبتلا کردیا۔ بانک کا اس طرح اچانک ہم سے جسمانی طور پر دور ہو جانے سے کئی سوال اٹھتے ہیں مثلاً بانک کے قتل کے پیھچے کون ہے ؟ بانک کو کیوں شہید کیا گیا ؟ یہ قتل کیوں ہوا ؟

ٹورنٹو جیسے شہر میں بانک کو قتل کیا گیا ٹورنٹو کے پولیس نے اس قتل کو ایک خودکشی ظاہر کیا حالانکہ ساری دنیا کو پتا ہے کہ بانک کو کیوں اور کس لۓ شہید کیا اور اس کے پیچھے کون ہے؟تو یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ اقوامِ متحدہ اور عالمی انسانی حقوق کے ادارے کیوں خاموش ہیں ؟

‏‎کیوں پچھلے 73 سالوں سے خاموش تماشائی بن کر بلوچوں کی نسل کشی
میں پاکستان کا ساتھ دے رہے ہیں؟

میں یہ بات یہاں پر واضح کرتا چلوں کہ اقوامِ متحدہ عالمی انسانی حقوق کے ادارے کبھی بھی اس جنگ میں ہمارا ساتھ نہیں دینگے آگے بھی ایسا ہی ہوگا اُس وقت تک جب تک ہم اپنے آپ کو منوانے میں کامیاب نہیں ہونگے ۔

تو اس انتظار میں بیٹھنا کہ اقوام متحدہ یا دیگر انسانی حقوق کے ادارے شہید بانک کریمہ یا دوسرے بلوچوں کو انصاف دینگے تو یہ دن میں تارے دیکھنے کے مترادف ہوگا۔ یہاں بات کریمہ کو انصاف دینے کی آتی ہے کہ بانک کریمہ کو کیسے اور کون انصاف دے سکتا ہے؟ تو شہید بانک کریمہ کو انصاف صرف بلوچ قوم ہی دے سکتا ہے۔ بانک کی فخرو نظریے پر عمل کرکے بانک کریمہ کی راہ پہ چل کے بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد میں اپنا حصہ ڈال کر اور بلوچ قوم کو غلامی کی زنجیروں سے آزاد کرواکر اور اس ناپاک دشمن کے سامنے واضح کرکے کہ بانک کریمہ مرّی نہیں ہے بلکہ بلوچستان کے ہر کونے کونے میں جنم لے چکی ہے۔

تب جاکر ہم شہید بانک کریمہ کو انصاف دلا سکتے ہیں۔ آج کی حالات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ایک سوال اٹھتا ہے کہ کیا مظاہرے احتجاجیں کرکے ہاتھوں میں بینرز پکڑ کر پرزور آواز میں نعرے لگاتے ہوئے ہم کریمہ اور بلوچستان کو انصاف دلا سکتے ہیں؟ کیا یہ مظاہرے اور احتجاج اس ناپاک ریاست کی ظلم و جبر کو کم کر سکتی ہیں؟ کیا اس ناپاک ریاست کو نقصان پہنچا سکتی ہے؟ کیا ہمیں آزادی دلا سکتی ہے؟ تو اِن سوالوں کا جواب مجھے مجبوراً ‘نہیں’ میں دینا پڑ رہا ہے کیونکہ یہ وہ ناپاک دشمن ہے کہ جس کے پاس جنگی اخلاقیات جنگی قاعدو قوانین کوئی معنی نہیں رکھتی ہے۔

ایک ریاست جو جھوٹ پر قائم ہو اور جو پچھلے 74 سالوں سے اپنے ہی عوام کو دین و خدا کے نام سے گمراہ کرتے ہوئے آرہی ہو۔ جو ریاست ایک سرمچار کو شہید کرکے اس کی لاش کو گاڑی کے پیچھے باندھ کر پورے گاؤں میں گھمائے کہ لوگ اِن سے خوف زدہ ہوں۔
تو کیا یہ ریاست مظاہروں اور احتجاجوں کی زبان سمجھ سکتی ہے؟ یہاں پر ان باتوں کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ آپ احتجاج یا مظاہرے نہ کریں۔

یہ سب چیزیں ضرور کریں لیکن ان سب کے باوجود اپنے ذہن میں یہ بات واضح کردیں کہ دشمن اس زبان سے کہیں زیادہ دوسرے زبان کو سمجھتی ہے اور وہی حقیقی راستہ ہے۔ احتجاج اور مظاہرے آذادی کی راہ میں بہت ضروری ہیں اور بقول لینن “مظاہرے اور احتجاج انقلاب کی بیرومیٹر ہوتی ہیں “

احتجاج اور مظاہرے ضروری ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ عملی زندگی میں اپنے جہد کاروں کا ساتھ دینا بہت ضروری ہے۔ دشمن کی زبان میں دشمن کو جواب دینا ضروری ہے ،تب جاکر بانک کریمہ اور دوسرے شہیدوں کو انصاف ملے گی تب جاکر ہمیں آذادی حاصل ہوگی۔

تو ان احتجاجوں اور مظاہروں کے بعد پھر خاموش نہ بیٹھیں اور بانک کے فخر و نظریے کو لیکر مستقل طور پر عمل کرتے ہوئے اپنے بساط کے مطابق اس جدوجہد میں حصہ لیں اور دشمن کے سامنے یہ بات واضح کردے کہ کریمہ ایک فرد نہیں جس کو مار کر ختم کردوگے بلکہ کریمہ ایک فکر ایک سوچ ہے جو ہمیشہ بلوچ قوم میں زندہ رہے گی بقول ڈاکٹر چی گویرا کہ “ تم صرف ایک انسان کو مار سکتے ہو سوچ کو نہیں” ۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں