بانک کریمہ کی آخری خواہش – آزاد بلوچ

541

بانک کریمہ کی آخری خواہش

تحریر: آزاد بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

ایک طرف بانک کریمہ بلوچ کی اس طرح کینڈین شہر ٹورنٹو میں اغواء کے بعد بہیمانہ قتل پر بلوچستان سمیت پورے دنیا میں غم و غصہ پایا جاتا ہے اور بانک کریمہ بلوچ کی بہیمانہ قتل پے صاف شفاف تحقیقات کرنے پر کینڈین گورنمنٹ پر زور دیا جا رہا ہے اور دوسری طرف اس وقت بانک کریمہ بلوچ کو انصاف دلانے کے لئے بلوچستان سمیت دنیا بھر میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔

بانک کریمہ بلوچ نے اپنی زندگی میں اپنی آخری خواہش یہ ظاہر کی تھی کے میرا آخری خواہش یہی ہے کہ میں چاہتی ہوں کہ میری قاتلوں کو بلوچ قوم پہچان لے۔ تو سوال یہ اٹھتا ہے کے بلوچ قوم بانک کے قاتلوں کو پہچان چکا ہے یا کہ نہیں۔

بانک کے اس طرح قتل کرنے پر بلوچستان میں احتجاجی مظاہروں میں نعرے لگانے اور سوشل میڈیا پے مختلف ایش ٹیگ استعمال کر کے کیمپین چلانے پر جہاں قابض دشمن کی جانب سے سوال اٹھ رہا ہے کہ بغیر تحقیقات مکمل ہوئے کسی ریاست کے خلاف احتجاج کرنا اور کیمپین چلانا ٹھیک نہیں۔

وہی بلوچ قوم ان سب کو مخاطب کرتے ہوئے بتانا چاہتا ہے کہ ہم اپنے دشمن کو اب نہیں بلکہ ستر سالوں سے پہچانتے ہیں اور ستر سالوں سے اس کے خلاف مزاحمت جاری ہے اور جاری رہے گا۔
بانک کا خواہش آج پورا ہوا آج بلوچ قوم کا ہر بچہ بچہ بانک کی قاتلوں کو پہچان چکا ہے اور ان کے خلاف آخری دم تک مزاحمت کرنے کا عہد کر چکے ہیں۔

بانک کی اس طرح اچانک جانے سے جہاں بلوچ قوم کافی کرب کا شکار ہے وہیں پہلے سے زیادہ ابھر چکے ہے۔تم کتنے کریمہ ماروگے ہر گھر سے کریمہ نکلے گی۔ایک اواز کو تو آپ قتل کر سکتے ہو لیکن ایک سوچ ایک فکر ایک نظریے کو اپ کبھی ختم نہیں کر سکتے اپکو یہ پتا ہونا چایے کہ اپ ایک جسم کو مار کر اس کی سوچ،فکراور نظریے کو ہر فرد میں منتقل کر رہے ہو اور یہی آپ کے لئے زہر ثابت ہوگا اور اپکو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کریگا۔

بانک کریمہ بلوچستان میں رہ کر بھی ڈٹ کے قابض دشمن کا مقابلہ کرتی رہی اور بانک کینڈہ جا کر بھی قابض دشمن کا مکرو چہرہ دنیا کے سامنے لانے میں کامیاب رہی۔ وہی کامیابی ہی تھی جو قابض دشمن کو ہضم نہیں ہو رہی تھی جسکی وجہ بانک کی موت بنی۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں