میرے دیس کی سب گلیاں مقتل کو جاتی ہیں – محمد خان داؤد

162

میرے دیس کی سب گلیاں مقتل کو جاتی ہیں

محمد خان داؤد

دی بلوچستان پوسٹ

 

یہ دیس ایسا نہیں تھا
اس دیس کو ایسا کر دیا گیا ہے
میرے دیس کی سب گلیاں مقتل کو جاتی ہیں
میرے دیس کی سب شالیں مُردوں پہ ڈالی جاتی ہیں
میرے دیس کے گلابوں کی عمریں کم ہیں
میرے دیس کے گلاب مُردوں پہ ڈالے جاتے ہیں
یہ دیس ایسا نہیں تھا
اس دیس کو ایسا کردیا گیا ہے
میرے دیس کی سب گلیاں مقتل کو جاتی ہیں

جس دن سندھ میں ساون رُت کی دوسری برکھائیں برس رہی تھیں۔ اس دن ایک بلوچ ماں اس اذیت بھرے انتظار میں تھی کہ اس کا جسدِ خاکی کب لایا جاتا ہے اور وہ ماں اس سرد جسدِ خاکی کے ساتھ کب سفر شروع کرتی ہے۔ اس دن وہ ماں دو اذیتوں میں گرفتار تھی۔ اک اداس لاش کی آنے کی اذیت اور دوسری اس سرد لاش کے ساتھ سفر کی اذیت۔

ہم جانتے ہیں۔ ہمیں خبر ہے۔ انتظار بہت ہی قاتل ہوتا ہے۔ پر اگر اس انتظار میں یہ کیفیت بھی شامل ہو کہ جب کوئی آئے گا اور انتظار ختم ہوگا تو درد کی کیفیت اور بڑھ جائیگی اور آنکھیں اشک بار ہو جائینگی تو پھر یہ کیسی اذیت ہوگی؟

ہم سفر سے واقف ہیں۔ یہ بہت ہی مشکل ہوتا ہے پر اگر اس سفر میں کسی پیارے کی اداس لاش بھی سفر کررہا ہو تو پھر اس سفر کی کیسی کیفیت ہوگی؟

جس دن سندھ میں ساون زوروں سے برس رہا تھا۔ سب کچھ جل تھل ہوگیا تھا، اس دن بس وہ مائیں ہی اداس نہیں تھیں جن کے پیارے ماں جیسی ریاست کے ہاتھوں گم ہوئے ہیں اور وہ اداس مائیں سخت گرمی میں اور برستی برکھا میں کراچی پریس کلب کے در پر اپنی چادریں واہ کیئے بیٹھی رہتی ہیں کہ شاید کوئی کہیں سے آ لوٹے۔ سندھ کی اور بلوچستان کی اداس ماؤں نے نئے پیر تلاش کر لیے ہیں اور وہ اس جدید دور کے پیر ہیں وہ پریس کلب جہاں گڑنگ صحافی رات کے آخری فون کالز کرکے رات کی آخری سوشل میڈیا چیٹ کرکے انگوری مہ کے آخری گھونٹ پی کر پریس کلب کے چوکیداروں سے کہتے ہیں
،،ان باہر والوں کو یہاں سے دفعہ کرو اندھیرے میں گاڑی نہیں نکل پاتی!،،
وہ گڑنگ صحافی ان باہر بیٹھنے والوں کے دردوں سے واقف بھی ہوتے ہیں تو بس اتنا
اور وہ صحا فی جو مقامی اخباروں کے لیے خبریں بناتے ہیں ان کے قلم بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ ان خبروں کو بھی لکھیں جو اب خبریں نہیں رہیں پر درد بن گئے ہیں۔
دلوں کو اور درد دینے والے درد!
وہ مقامی اخبارات کے صحافی ان ماؤں اور ان کے گم شدہ بچوں کو ناموں سے جاننے لگتے ہیں کہ
کوئی عاقب چانڈیو کی ماں ہے
اور کون مسعود شاہ کی
پر پھر بھی ایسے بے خبر رہتے ہیں جیسے یہ کچھ جانتے ہی نہیں

ہاں تو اس دن اس ماں کا انتظار اور شدید ہوگیا تھا کیوںکہ وہ لوٹ رہا تھا، جس پر وہی الزام تھا جو الزام سُقراط پر تھا کہ سُقراط ایتھینز کے لڑکوں کو خراب کر رہا ہے۔ سُقراط بھی تو باتیں ہی کرتا تھا اور وہ بھی باتیں!
سقراط میں اور اس میں بس یہ فرق تھا کہ سُقراط اپنی باتیں لکھتا نہیں تھا اور یہ اپنی باتیں لکھا کرتا تھا
مجھے نہیں معلوم کہ اس کی لکھی باتوں سے کون خائف تھا
پر یہ یقین ہے کہ کوئی تو اس کی لکھی باتوں سے خائف تھا اگر ایسا نہیں تھا تو اس نے جو یہاں رہ کر اخبارات کے پنوں کے لیے ایڈوٹوریل لکھے تو اس لکھے الفاظ نے اسے اتنا پریشان کیوں کر رکھا؟
ان لکھی باتوں سے وہ اتنا پریشان کیوں رہتا کہ وہ اپنا نام بدل بدل کر لکھتا رہتا
جب سراغ لگانے والے جان جاتے کہ حمل نام کے پیچھے کون ہے؟
تو وہ آزادی مہدک کیوں بن جاتاَ
جب وہ لوگ مہدک تک بھی پہنچ جاتے تو وہ
ساجد،ساجد حسین میں کیوں لوٹ آتا؟
وہ اک شخص کئی ناموں میں کیوں مقیم رہا
کیوںکہ وہ جانتا تھا کہ
،،میرے دیس کی سب گلیاں مقتل کو جاتی ہیں!،،
ایڈوٹوریل پیج کا انچارج اسے خبردار کرتا کہ وہ کمینے جان گئے ہیں اور ابھی ابھی فون آیا کہ کہ ساجد کو اپنے اخبار میں لکھنے مت دیں
تو وہ ایڈوٹوریل پیچ کے انچارج کی بات سن کر کہتا کہ
،،انہوں نے ساجد کو لکھنے سے منع کیا ہے نا میں آج سالک بلوچ کو لاتا ہوں اب سالک بلوچ لکھا کریگا!،،

وہ اپنے لکھے سے پریشان رہتا پر وہ لگاتار لکھتا بھی رہتا، وہ سب حقائق بتانا چاہتا تھا جو وہ جانتا تھا اگر ایسا نہیں تھا تو وہ محمد حنیف کو وہ اسٹو ری کیسے شیئر کرتا جس اسٹو ری کو محمد حنیف نے بی بی سی کے لیے اس عنوان سے لکھا تھا کہ،،اک سرد لاش کا سفر!،،

اب وہی سفر اس کو در پیش ہے جسے لکھنے سے آرام نہیں تھا
جو خوب لکھتا، جم جم کے لکھتا اور پھر وہ الفاظ اسے پریشان کیے رکھتے!
اس کے لکھنے میں ایسا کچھ ضرور تھا جس سے وہ ڈرتے ہیں جو مالک ہیں، ہاں مالک اس سے ڈرتے تھے اسی لیے اسے سفر درپیش رہتے، وہ چلتا رہتا، وہ بھاگتا رہتا۔ کبھی کہاں تو کبھی کہاں
اب مجھے یہ بھی نہیں معلوم کہ جو اس نے ناول کا ایک باب لکھ کر کسی کو امانتاً دیا ہے اور کہا ہے کہ جب میری بچی اٹھارہ سال کی ہو جائے تو اسے دے دینا!
نہیں معلوم اس میں کیا ہے؟
پر اس برستی بارش میں اک سفر تھم گیا جو سفر ساجد حسین بلوچ کا سفر تھا
اب وہ دن تمام ہوئے
اب وہ ماہ و سال بھی تمام ہوئے
اب اک ماں کے دردوں کا سفر شروع ہوا ہے
ایسا سفر جس سفر کو الفاظ کا لبادہ نہیں پہنایا جا سکتا
ایسا سفر،جس سفر کے لیے کوئی اداکا ری بھی نہیں کی جاسکتی
درد، درد ہوتا ہے اور درد کو اظہارنے کے لیے آنکھیں درکار ہو تی ہیں
وہ آنکھیں بس یا تو ماں کی ہوں یا محبوبہ کی
اک سفر شروع ہوا
اور اک سفر تمام ہوا
بھلے ساجد حسین کا سفر آزادی کا سفر نہ ہو
پر وہ سفر علم کا سفر ضرور تھا
جوبلوچستان میں نئے سورج کو طلوع کرتا
اس سے پہلے کہ کوئی بلوچستان میں نئے سورج کو طلوع کرے
ان جسموں کو ہی کاٹ کر مٹی میں دفن کیا جا رہا ہے
جو جسم اپنے کاندھوں پر نئے سورج کو لیے پھرتے
پر میرا دیس مقتل گاہ بن گیا ہے
بس میرے دیس کی سب گلیاں مقتل گاہ بن گئی ہے
آئیں سفر کرتے ساجد
اور کل دفن ہو تے ساجد کی کتبے پہ لکھیں کہ
،،یہ دیس ایسا نہیں تھا
اس دیس کو ایسا کر دیا گیا ہے
میرے دیس کی سب گلیاں مقتل کو جاتی ہیں
میرے دیس کی سب شالیں مُردوں پہ ڈالی جاتی ہیں
میرے دیس کے گلابوں کی عمریں کم ہیں
میرے دیس کے گلاب مُردوں پہ ڈالے جاتے ہیں
یہ دیس ایسا نہیں تھا
اس دیس کو ایسا کردیا گیا ہے
میرے دیس کی سب گلیاں مقتل کو جاتی ہیں


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔