بلوچستان میں صحافت کی حالت زار – فتح بلوچ

477

بلوچستان میں صحافت کی حالت زار

فتح بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان میں صحافت مشکل ترین کام بن چکا ہے، گذشتہ روز بارکھان میں مقامی صحافی انور بلوچ کا قتل پاکستان یا عالمی سطح پر نیوز نہیں بن سکا۔ اسکی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ بلوچستان کا لاوارث صحافی تھا۔ انور بلوچ بارکھان میں ترقیاتی منصوبوں میں کرپشن پر سوشل میڈیا پر لکھتا رہا اور اسے گذشتہ ہفتے ایک صوبائی وزیر کے کہنے پر گولیاں مار دی گئیں۔

انور بلوچ پہلے اور آخری صحافی نہیں جو قتل ہوئے ہیں، اس سے پہلے کئی بلوچ صحافیوں کو گولیاں ماری گئیں یا انہیں جبری گمشدگی کا شکار بنا کر بعد ازاں انکی مسخ شدہ لاشیں ملی ہیں۔ جبکہ کئی بلوچ صحافی جلاوطنی کی زندگی گذار رہے ہیں۔

رواں سال اپریل کو ایک معروف بلوچ صحافی ساجد حسین کی لاش سویڈن کے شہر اپسلا ندی سے برآمد ہوا۔ ساجد حسین پاکستانی خفیہ اداروں کے ستائے ہوئے بلوچ سیاسی کارکنوں کی طرح جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے، تاہم ساجد حسین کی مبینہ قتل کی زمہ داری بلوچ حلقے پاکستان کو ٹہرا رہے ہیں۔

بلوچستان میں صحافت انتہائی مشکل کام ہے، اگر صحافی غربت، بیروزگاری، کرپشن پر لب کشائی کریں تو انور بلوچ کیطرح بااثر شخصیات کی طرف سے گولیوں کے نشانہ ہونگے، اگر ریاستی جبر کے خلاف لکھیں تو حاجی رزاق بلوچ، رزاق گل، منیر شاکر یا ارشاد مستوئی الیاس نظر جیسے صحافیوں کیطرح خفیہ اداروں کے ہاتھوں جبری گمشدگی مسخ شدہ لاشیں اور ٹارگٹ کلنگ کے ذریعے قتل کی جائیں گے۔ اس وقت بلوچستان میں 20 سے زائد صحافیوں کو قتل کیا جا چکا ہے۔

ہر صحافی کے قتل پر ایک عدالتی تحقیقاتی کمیشن بھی بنایا گیا لیکن خفیہ اداروں کے کہنے پر ہر کمیشن سرد خانہ کا نظر ہوگیا ہے۔

اس وقت بلوچستان میں دو قسم کے صحافی موجود ہیں، جنکی قلم حق و سچ کی پاداش میں لکھتے لکھتے لہو میں تر ہوجاتے ہیں اور ایک طبقہ وہ جنکی بھر مار ہے۔ زرد صحافت کے ذریعے حکمران طبقہ کی ترجمانی کررہے ہیں۔

ان حالات میں بلوچستان جیسے جنگ زدہ خطہ میں صحیح خبر کو نکال کر باہر لانا انتہائی مشکل ہے اگر بلوچستان کے صحافی سچ کو ڈھونڈ کر اخبار کی زینت بنائیں، تو پھر وہ اخبار توار اور روزنامہ آساپ کی طرح منظر سے غائب ہوجائے گا۔

کراچی اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں بڑے نامور صحافی غیر جمہوری قوتوں پر تنقید کرنے کی وجہ سے اٹھا لیئے جاتے ہیں تو بلوچستان کی دور دراز علاقوں میں صورتحال کیا ہوگی؟


دی بلوچستان پوسٹ:اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔