عشقیہ داستان – سلطان فرید مشکئی

828

عشقیہ داستان

تحریر : سلطان فرید مشکئی

دی بلوچستان پوسٹ

بلوچستان وہ سرزمین ہے جس نے بے شمار دانشور، ادیب، ، راہشوان ،شاعر ، بہادر مرد اور عورت جنم دیئے ہیں- بلوچستان کی آپ کو بہت سی عشقیہ داستانیں ملیں گی، جن میں شیریں فرہاد، چاکر و ہانی ، شہداد ومہناز، حمل و ماہ گنج ، سموو مست توکلی ، کیا وسدو، سسئی وپنوں، شئے مرید و ہانی لیکں ان ہی داستانوں میں سے ایک داستان کیچ مکران کے عاشق پنوں کے دیس میں پیدا ہونے والے شیر دل غیب کا اور مستونگ کے اس شہزادی کا ہے جس کی زندگی سرداری اور قبائلی نظام کی وجہ سے اجیرن ہوگئی تھی۔

عابد میر صاحب شیر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ
” دوسرے طالب علموں کی طرح ماں باپ کے خوابوں کیلئے سینکڑوں میٹر پار کر آنکھوں میں ہزارے خواب سجائے مکران سے شال آنے والے ہزاروں جوانوں کہ طرح یہ بھولا بلوچ بھی اکیسویں صدی کے اولیں برسوں میں کوئٹہ پہنچا شیر کے زندگی کے کتاب میں اس نئے سبق کا آغاز تب ہوا جب وہ دوسرے طالب علموں کی طرح اپنے مستقبل کو سنوارنے کیلئے سرگرداں تھا شیر اپنے ناول “تیرے فراق میں” میں لکھتا ہےکہ ایک دن اچانک میں نے اپنے کلاس فیلو کے ساتھ ایک لڑکی کو دیکھا تب مجھے اس پر بے حد پیار آیا، شیر دل کی زندگی میں اس باب کا وجود 27 مئی 2010 کو ہوا شیر لکھتا ہے کہ
وہ غزل ہے وہ کنول ہے
وہ سر ہے وہ ساز ہے
وہ بجھن ہے وہ راگ ہے

پہلی ملاقات میں ہی محبوبہ نے اقرار کیا کہ میں ایک ایسے معاشرے سے تعلق رکھتی ہو جہاں اپنے خواہشات کا اظہار کھل کر نہیں کیا جاسکتا ہے جس ماحول میں میری پرورش ہوئی ہے وہاں تقدیر کے فیصلے سردار،ٹکری اور قبائلی معتبر کرتے ہیں اور جس قبیلے سے میں تعلق رکھتی ہو وہ خود کو اعلیٰ اور سردار کہتا ہے بظاہر میں ایک عام اور معمولی سی لڑکی ہوں میں ان کے فیصلوں کا احترام کرتی ہوں اور ان کا ہر فیصلہ میرے لئے قابل قبول بھی ہے- اور جہاں شیر دل کی پرورش ہوئی تھی وہاں نہ قبائلی قید و بند ہے اور نہ کسی فیصلے پر کسی سردار یا ٹکری کا معمور ہے ۔ ان باتوں کو سننے کے بعد پھر بھی شیر نے محبت نبھانے کا ٹھان لیا۔

یوں محبت چلتی رہی
ملاقاتیں چلتی رہی
مدتیں بیت گئیں
پھر اچانک ہی شیر کی اس حسین زندگی میں ایک عجیب سا واقعہ21 جنوری کو رونما ہوا جب وہ اپنی محبوبہ کے ساتھ کوئٹہ کینٹ کے سامنے سیر کررہاتھا۔

21 جنوری کا وہ منحوس دن جسے شیر نے اپنے دل میں خون جگر سے گول دائرہ لگا رکھا ہے، دوران سیر اس کی محبوبہ نے اس سے یہ سوال پوچھ کر گویا اس پر تکتو کا پہاڑ آن گرادیا اور 11 ہزار واٹ بجلی کی ننگی تار اس کے ہاتھ میں تھما دیا-
شیر ! ایک مرد کے ہزار انتخاب کیوں ہوتے ہیں؟
اور عورت فقط ایک ہی مرد کا انتخاب کرنے پر کیوں مجبور ہوتا ہے؟
شیر ! ممکن ہے میں تمہارا آخری انتخاب ہوں لیکن یہ اب سچ ہے کہ اب میں کسی اور کا انتخاب ہوں اور اب میں کسی اور کا ہونے جارہی ہوں۔
آخر کار وہ ہوگیا جس کا ڈر تھا – آخر وہی اس کے محبوبہ کو کرنا پڑا جو اس نے شیر کو پہلے دن ہی کہا تھا
سرداری اور قبائلی نظام نے آخر کار اس محبت کی جان لے لی جو صدیوں سے چل رہی تھی، وہ خوابیں خواب ہی ہوکر رہ گئی جو ان دونوں نے مل کر دیکھے تھے، وہ وعدے ادھورے رہ گئے جو دونوں نے ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کئے تھے –

عطا شاد نے کہا تھا
بڑا کٹھن ہے راستہ جو آسکو تو ساتھ دو
سچی محبت ایک دائمی آگ ہے جو سدا جلتی رہتی ہے – محبت کبھی سرد نہیں ہوتی۔ محبت کبھی بیمار نہیں پڑتی ۔ محبت کبھی منہ نہیں موڑتی ۔ محبت کبھی نہیں مرتی ۔
شیر کا قلب بدستور
بلوچستان کے مانند جلتا رہا !
منیر نیازی نے کہا تھا کہ
جانتا ہوں ایک ایسے شخص کو میں بھی منیر
غم سے پتھر ہوگیا ، لیکن کبھی رویا نہیں
سب سے خطرناک نشہ انسانی نشہ ہے کسی کی
آواز کا نشہ
باتوں کا نشہ
آنکھوں کا نشہ
ساتھ کا نشہ
اور جب یہ نشہ نہیں ملتا تو ہمارے جسم کی دیوار میں سے ایک اینٹ کھینچ لی جاتی ہے اور یہ وہ خلاء ہے جو ہمارے وجود کے تمام اینٹوں کو اپنی جگہ سے ہلا کر رکھ دیتی ہے اور ہمارے جسم کے اندر بے چینی برپا کردیتی ہے۔
کاش شیر کا قسمت اس مہران جیسا ہوتا جس کو اس کا جدا ہوا سمین کئی سالوں بعد مل گیا۔
مدتیں بیت گئیں
وعدے ہوا ہوئے
قسمیں دم توڑ گئیں

جامعہ بلوچستان کا کوٹی نمبر 52 جو شیر کیلئے مندر ،مسجد ،چرچ سب کچھ تھا وہ اب شمشان گھاٹ کے سوا اور کچھ نہیں تھا -وہ کھڑکی جو اس کمرے سے محبت کی سبب بنی جہاں سے شیر کے آنکھیں اس بوسیدہ عمارت پر پڑتی تھی جہاں اس کی محبوبہ کا بسر تھا اب شیر نے اس پر اخبار چسپاں کردئے ہیں۔
بھلا یہ سب کچھ کرنے سے کوئی بھلا یا جاسکتا ہے؟

ایک مدت سے ترستا ہوں ترے وصل کو میں
بن دیا ہجر کی مکڑی نے تو جال مجھ پر
ڈاکٹر یاسیں عاطر

ایک دن اچانک شیر کو اس کے محبوبہ کا کال آیا، اس پیغام میں یہی کہہ کررابطہ منقطع ہوگیا کہ میں اپنی خیریت تحریری صورت میں لکھ ڈرائیور خداداد کے ساتھ بھیجوں گا لیکں خداداد تو وہ پیغام پہنچا کر غائب ہوگیا آگے شیر لکھتے ہیں کہ اس تحریر کا جواب آج بھی میرے پاس جیب میں اس امید سے پڑی ہے شاید کسی نہ کسی دن خداداد مل جائے –

وہ منصور جو شیر کا سچا اور کھرا راہشون تھا۔
وہ منصور جو شیر کے تنہائیوں اور تاریکیوں کا ساتھی تھا
وہ منصور جو شیر کو رات کے کسی پہر آکر مشغول کرتا تھا
وہ منصور جو شیر کو موٹر سائیکل پر بٹھا کر گونڈیں دشت لے جاتا تھا، شیر کی بڑی خواہش تھی کہ وہ اپنے محبوبہ کے ساتھ ایک دن گونڈین دشت میں گزارے لیکں افسوس وہ پورا نہیں ہوسکا لیکن دشت شیر کے تنہائی کا معبد ہے اور دشت جیسے ویران جگہ میں شیر بیٹھ کر اپنے ویرانیاں لکھ کر خود کو سونپتا تھا کہ شاید ایک نہ ایک دن کہیں نہ کہیں اس کو اس کا محبوبہ مل جائے اور وہ اپنے لکھی ہوئی تمام خطوط اس کو سونپ دے۔
کچھ دروازے آج بھی منتظر ہیں
جانے والوں کے دستک کے

منصور کے متعلق شیر اپنے ناول “آخری خط ” میں لکھتا ہے کہ منصور کو اسلحہ سے سخت نفرت تھا کیونکہ یہی اسلحہ ہی اس کے محبت کے خاتمہ کا سبب بنا اور آخر کار اس کی اپنی زندگی کا بھی _ منصور کو جس سے محبت تھی اسی کا اکلوتا بھائی منصور کی اندھی گولی کا شکار ہوا_
کاش! منصور کو شکار کھیلنےکا تصور ہی نہیں ہوتا –
منصور جو ہر وقت کہتا تھا کہ کاش ! اسلحہ کا وجود نہ ہوتا خوف زدہ کرکے رکھ دیا ہے بنی نوع کو اس کے دہشت نے، اس کی تباہی سے گھر اجڑتے ہیں، عظیم انسانی رشتے مسمار ہوجاتے ہیں فنا ہوجاتے ہیں منصور کہتاتھا کہ کاش! میں بلوچستان کے ایسے قصبے میں پیدا ہوتا جہاں اسلحہ کا وجود نہیں ہوتا- آخر کار شیر کے زندگی کا یہ قندیل بھی گل ہوگیا راتوں کی تاریکیوں میں ساتھ دینے والا یہ چراغ بجھ گیا گویا شیر یہ خبر سن کر پھول کی طرح مرجھا گیا نہ اس میں مہک رہی اور نہ ہی خوشبو جب منصور نے اس غلیظ سسٹم کی وجہ سے خودکشی جیسی عمل کو ترجیح دی۔

وہ شیر جس کو پہلے محبوبہ کی جدائی کا غم اندر ہی اندر دیمک کی طرح کھا رہا تھا، وہ شیر جس کے کانوں میں لاپتہ افراد کی ماوں کی چیخیں گونجتی تھیں وہ شیر جس کو بلوچستان کا غم کھارہا تھا اس کو منصور کے موت نے اور کمزور کردیا –

وہ منصور جو خود کہتا تھا کہ خودکشی حرام ہے ڈرپوک ہیں وہ لوگ جو اس غلیظ سسٹم کو برداشت نہیں کرسکتے اور خودکشی کرلیتے ہیں ۔ اپنا آخری خط چھوڑ کر منصور اس فانی دنیا سے ہمیشہ کیلئے رخصت ہو گیا اس آخری خط میں منصور نے وہ اسباب بیاں کئے تھیں جو اس کی خودکشی کی وجہ بنیں۔

وہ گلستان جس کے پہلے ہی کئی پھول مرجھا چکے ہوں، اس گلستان کے ایک اور پھول مرجھانے سے لوگوں کو کیا فرق پڑے گا وہ بلوچستان جس کے باسی ہر آئے روز روڈ ایکسیڈنٹوں،غربت اور کینسر سے بلک بلک کر مر رہے ہو وہاں خودکشی ہی آخری قدم ہوسکتی ہے_

ٹھیک ہی کہا تھا شیر نے کہ میری حالت مشکے ،خضدار اور پنجگور جیسی ہے۔ میرا علاقہ وادئ مشکے کی حالت آج شیر جیسی ہی ہے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس کا محبوب بھی اس کو چھوڑ کر گیا ہے مشکے اب لاوارث ہوچکا ہے جو ہوتا ہے جو کرتا ہے اس کا اب کسی کو فرق نہیں پڑتا ہر کسی نے اپنے منہ پر سیاہ پٹی باندھی ہے۔

شیر دل غیب کی اس دکھ بھری مکمل کہانی اس کی اپنی لکھی ہوئی ناولوں ( تیرے فراق میں ،آخری خط ) سے پڑھی جاسکتی ہے۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔