کیا محمود صرف دین کے لیئے لڑا – لیاقت فراز

490

کیا محمود صرف دین کے لیئے لڑا

تحریر: لیاقت فراز

دی بلوچستان پوسٹ

ہمارے ہاں محمود غزنوی اور اسکے سلطنت کو ایک مذہبی سلطنت ظاہر کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑا جاتا آیئے آج ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں…

محمود غزنوی کے باپ سبکتگین الپتگین کے غلام تھے، الپتگین سامانی سلطنت(819تا 999) کے عبدالملک کے وقت خراسان کا حاکم تھا۔ عبدالملک کی وفات ہوتی ہے الپتگین سے نئے امیر کے سلیکشن کیلئے مشورہ مانگا جاتا ہے، الپتگین عبدالملک کے بھائی کے حق میں مشورہ دیتا ہے اور جواز یہ پیش کرتا ہے کہ عبدالملک کا بیٹا منصور کم سن ہے لیکن منصور اپنے وزیر کی مدد سے سلطنت حاصل کرلیتا ہے۔ جب یہ اطلاعات الپتگین تک پہنچتی ہے تو وہ خوف میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ کہیں منصور میری جان نہ لے، اسی خوف کے نتیجے میں وہ منصور کو مبارکبادی دینے کے بجائے اوراپنی جان ضائع ہونے کے خوف سے بغاوت کردیتا ہے اور962ء میں غزنی پر قبضہ کرکے اپنی سلطنت کا اعلان کرتا ہے. منصور کئی بار غزنی پر بھرپور حملے کرتا ہے لیکن ہر بار شکست اسکا مقدر بن جاتا ہے غزنی پر حملے اور منصور کیخلاف جنگوں میں سبکتگین بھی اسکے ساتھ رہاکرتا تھا۔ اسی لئے اس نے الپتگین کی اتنی قربت حاصل کی تھی کہ الپتگین نے اپنی بیٹی سبکتگین سے بیاہ دی.

الپتگین کے وفات کے بعد اسکا بیٹا ابوالاسحق حکمران ہوتا ہے اور سبکتگین کی وساطت سے سامانیوں سے صلح کرلیتا ہے، اسکے بعد دو غلام پری تگین اور بلکتگین تخت نشین ہوکر نااہل ثابت ہوتے ہیں اور اقتدار کا کبوتر سبکتگین کے سر بیٹھ جاتا ہے.سبکتگین ایک قلعہ پر قبضہ کرنے کیلئے پاتور ار طغا نامی دو جنگجوؤں سے لڑپڑتا ہے. اسکے بعد سامانی سلطان امیر نوح کے کہنے پر خراسان کے گورنر فائق,ابو ابو علی ہمجویری اور جرجان کے فخرالدولہ ویلمی سے نبرد آزما ہوتا ہے انھیں شکست دینے کے بعد سبکتگین خود بھی چھپن سال کی عمر میں وفات پاتا ہے. ان جنگوں میں محمود بھی اپنے باپ کے ساتھ شامل سفر رہتا ہے. سبکتگین اپنے بیٹے اسماعیل کو ولی عہد نامزد کرتا ہے اور اسماعیل تخت پر براجمان ہوتا ہے لیکن محمود اپنے چچا معزالحق کے ہمراہ اسماعیل کو بلخ کے مقام پر شکست دے کر جرجان کے قلعے میں قید کردیتا ہے، خود اپنی تخت نشینی کا اعلان کرتا ہے۔

سامانی سلطنت سے لیکر قیام سلطنت غزنہ اور محمود کے تخت نشین ہونے تک تمام واقعات سیاسی نوعیت کے ہیں۔ یہاں کسی بھی قسم کے شواہد نہیں ملتے کہ سلطنت غزنہ اسلام کی خاطر وجود میں لایا گیا ہو سلطنت غزنہ کا وجود محض ایک سیاسی واقعہ تھا۔

محمود 997 میں تخت نشین ہوتا ہے، سامانی سلطنت کے امیر منصور خراسان کا حاکم ہکتوزن کو بناتا ہے اس فیصلے سے محمود ناراض ہوتا ہے کیونکہ خراسان اس کا خاندانی علاقہ تھا۔ جہاں اس کا باپ حکومت کرتا رہاتھا. لہذا محمود اپنے تخت نشین ہونے سے ہندوستان پر حملوں تک کے تین سالوں میں محمود سامانی سلطنت کے خلاف ہی بر سر پیکار رہتا ہے اور اسکے بعد اس کا رخ ہندوستان کی خزانوں کی طرف ہو جاتا ہے. جن میں سے ہم چند حملوں کا ذکر کرتے ہیں۔

ملتان پر ایک مسلم حکمران ابوالفتح داؤد پر محمود دو حملے(1006 اور 1011)کرکے اس کی حکومت کا تختہ الٹ دیتا ہے 1006 میں داؤد سالانہ دس ہزار اشرفیاں(بعض جگہ 20 ہزار) دینے کا وعدہ کرکے اپنی جان چڑا لیتا ہے اس حملے میں انند پال ایک ہندو ہوتے ہوئے بھی روشن خیالی کا ثبوت دے کر جی کھول کر داؤد کی مدد کرتا ہے اور یہاں تک کہ انند پال لشکر لیکر پشاور کے مقام پر محمود کا مقابلہ کرتا ہے تا کہ محمود ملتان نہ پہنچ پائے۔

1011 میں محمود پھر ابوالفتح کو گرفتار کرکے غزنی کے قلعے کی ذینت بنادیتا ہے، جہاں وہ اجل کو لبیک کہتا ہے۔

محمود یہیں بس نہیں کرتا بلکہ اپنے ایک سپہ سالار عبدالرزاق کو سندھ پر قبضہ کرنے کیلئے بھیج دیتا ہے، جہاں پہنچ کر عبدالرزاق عرب حکمرانوں کیساتھ ٹھٹھہ اور سیہون کے مقام پر جنگیں لڑتا ہے اور عرب حکمرانوں کو ملک سے بے دخل کردیتا ہےیہ جنگیں صرف سیاسی نوعیت کے ہی لگتے ہیں…. خیر یہ تو برصغیری واقعات تھے جہاں محمود نے اپنے ہی مسلموں کیخلاف جنگیں لڑیں۔

1014 میں محمود تھانیسور پر حملہ کرنے کے بعد ایک دفعہ عباسی خلیفہ القادر باللہ کے ہاں اپنے سفیر بھیج کر پورا خراسان خلیفہ سے مانگ لیتا ہے۔ اس وقت خلافت عباسیہ اپنے زوال کے منازل طے کررہی ہوتی ہے. ان میں اتنی طاقت و قوت نہیں ہوتی کہ وہ محمود کا مقابلہ کرسکے، لہذا القادرباللہ پورا خراسان محمود کے حوالے کردیتا ہے اور اسی میں اپنی مصلحت سمجھتا ہے…لیکن محمود اس پر بس نہیں کرتا بلکہ ایک اور پیغام القادر باللہ کے نام بھیج کر تاریخی و ادبی مرکز سمرقند کا مطالبہ کردیتا ہے القادر باللہ محمود کے اس مطالبے پر غضبناک ہوکر پیغام بھیجتا ہے کہ اگر آپ(محمود)نے سمرقند کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی دیکھا تو آپ کی آنکھیں نکال دوں گا۔ تمام دنیا کو تیرے خلاف کردوں گا یہ یاد رکھیں کہ یہ زمانہ خلافت کے زوال کا زمانہ تھا لیکن تمام مسلمان کے دلوں اب بھی خلیفہ کیلئے عزت و پیار موجود تھا.

محمود یہ جواب پاکر غصے میں آتا ہے اور کہتا ہے کہ میں اپنے ہاتھیوں سے بغداد کو روند کر پورے خلافت کا ملبہ غزنی لاؤں گا.

خلیفہ نے یہ جواب پاکر ایک خط سفیر کو دے کر روانہ کردیتا ہے، سفیر یہ خط لے کر غزنی پہنچتا اس خط میں صرف (الم) لکھا ہوتا ہے یہ لفظ محمود کے سمجھ میں آتا ہے، نہ ہی درباری علماء کے….محمود بڑا بے چین ہوکر اور حملے سے بڑھ کر وہ اس خط کا مطلب جاننے کا متلاشی ہوتا ہے، تمام اکابرین اس کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں لیکن کسی کے سمجھ میں نہیں آتا آخر کار ابوبکر قہستانی نامی ایک شخص جو بعد میں امیر محمد کا گورگان میں وکیل بنا پڑھ کر بتاتا ہے کہ آپ نے خلیفہ کو ہاتھیوں کی دھمکی دی تھی۔ قران شریف کی 105 ویں سورہ فیل” الم” ہی سے شروع ہوتی ہے اس سورہ میں اللہ تعالی نے ابرہہ کے لشکر کے ہاتھیوں کو تباہ کرنے کا ذکر کیا ہےجو کعبہ ڈھانے آئے تھے…. اور اس خط سے خلیفہ نے یہ پیغام بھیجا کہ آپ مجھے ہاتھیوں کی دھمکی دیتے ہیں یہ یاد رکھے کہ آپ ابرہہ کے نقش قدم پر چل رہے اور اللہ تعالیٰ ہی آپ کا مقابلہ کرے گا۔

یہ محض چند مختصر واقعات ہیں، جو میں نے آپ کے سامنے پیش کی ہیں، اس جیسے کئی واقعات اور تجزیات اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ سلطنت کا قیام اور اسکے دوسرے سلطنوں اور راجوں پر حملوں کے پیچھے محض سیاسی اور مالی فوائد تھے. ہاں ایک بات ضروری ہے کہ ان حملوں سے ایرانی تہذیب جس نے اسلامی تہذیب رنگ دھار لیا تھا، ہندوستان میں پھیلنے لگا لیکن یہ محض صوفیائے کرام اور عام لوگوں کی مرہون منت تھی، جنھوں نے یہی بودوباش کرکے کئی لوگوں کو اپنے اعمال سے دین محمد میں منتقل کردی.


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔