پابہ زنجیر تمنائیں – حکمت یار بلوچ

172

پابہ زنجیر تمنائیں

 تحریر : حکمت یار بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

” تہذیب جو بنیادی مسائل سے نظر چرائے، وہ ایک بیمار تہذیب ہے”
“تہذیب جو بنیادی مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہے، وہ زوال کی راہ پر گامزن ہے”
“تہذیب جس میں فریب اور ریاکاری اصول بن جائیں۔ اسکا زوال قریب ہے”

ایمی سیزر کے درج بالا جملوں میں نہ کوئی ظاہری شوشہ ہے۔ نہ ہی فصاحت و بلاغت، نہ ہی تشبیہہ کی رنگینی اور نہ ہی استعارے کی دھندلاہٹ، نہ ہی زور بیاں، نہ ہی اشارہ کنایہ۔ مگر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ان جملوں میں گہرے حقائق ڈھکے چھپے ہیں۔ جو کسی مسئلے میں گھرا ہوا فرد یا قوم کو ہی متاثر کرسکتے ہیں۔

بلوچ تحریک کے حوالے سے اگر جائزہ لیا جائے۔ ہم اپنا رشتہ دنیا کے قدیم تہذیب” مہرگڑھ” سے جوڑتے ہیں۔ مان بھی لیا۔ ہم نے زور بازو پرتگیزیوں سے جنگیں لڑیں۔ انگریزوں سے لڑے۔ ہندوستان میں مرہٹوں کو قابل عبرت شکست دی۔ ہر جگہ اپنے پرانے طور طریقوں اور وضع قطع سے کچھ نہ کچھ کر پائیں ہیں۔ مگر بیسویں صدی نصف آخر اور اکیسویں صدی نصف اول میں ہمارے تہذیب کے پاس ہمیں بچانے کے لیے کونسے آپشنز ہے؟ یقیناً اب دنیا وہ نہیں جس کا تصور نوری نصیر خان، یا چاکر کے وقت کی دنیا سے کیا جاسکے۔ اب جدید دنیا میں ٹیکنالوجی نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا ہے۔ ملٹی نیشنل کمپنیاں دھڑا دھڑ زبانوں، ثقافتوں، اور تاریخی اقدار کا صفایا کررہا ہے۔ دنیا میں ایک طرف وہ قومیں ہیں جو سائنس اور ٹیکنالوجی میں برابر آگے قدم بڑھاتے ہوئے اپنی شناخت بچانے میں مصروف عمل ہے۔ دوسری طرف وہ قومیں جو ہر روز ایک نئی پالیسی کے تحت پامال ہوا جارہا ہے۔ جن میں افغان ،کرد، یمنی عراقی شامل ہیں۔ اس صف میں کہاں کھڑے ہیں۔ انتہائی اہم سوال ہے، جس کا جواب جاننا اور اس پر غور فکر کرنا بلوچوں کی مشترکہ زمہ داری ہے۔

پنجابی استعمار نے روز اول ہی سے بلوچ اور بلوچستان کو لوٹنے کے لیے یہاں، میر صادق، میر جعفر اور ابن علقمی جیسے ضمیر فروش کے ضمائر اپنے دست شفقت سے چند ٹکوں کے عوض خرید لیں ہیں۔ مگر دوسرے طرف بلوچ سرشت میں شامل بغاوت بھی کہیں پیچھے نہیں۔ مگر ہونے والے بغاوتوں میں کیا ہم اپنے تہذیب کے گن نہیں گارہے؟ جواب ہوگا کہ ہاں گارہے ہے۔ مگر کیا دور حاضر کے مسائل کو حل کرنے کی صلاحیت ہماری تہذیب رکھتی ہے؟ جواب ۔۔۔۔۔ اتنی آسانی سے جواب دینا یقینا ناممکن ہے۔ اگر جواب ہاں میں دیا جائے سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر ان ستر سالہ دور غلامی میں ہماری ثقافت نے کیا کرشمے دکھائے ہیں۔اگر جواب نہیں میں ہے۔ تو پھر کیا اسکو سمجھنے والا کوئی نہیں اگر کوئی ہے۔ تو اسکی نشاندھی کیونکر نہیں کرتا۔
آئیے مل کر اس پہ سوچیں۔
کیا ہماری تہذیب بیمار، ریاکار ، منافق اور زوال پذیر نہیں؟


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔