ک،م اور پانچ لاشیں – سفر خان بلوچ

924

ک،م اور پانچ لاشیں

تحریر: سفر خان بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

مستونگ کی خون جما دینے والی یخ بستہ ہوائیں، جنوری کی آخری رات، گولیوں کی گنگرج، پانچ لاشیں، پانچوں لاشوں کی سر پہ لگی گولیوں کے نشانات، مگریہ لاشیں کس کی ہیں؟ کون تھے؟ کہاں کے رہنے والے تھے؟ مارا کس نے اور یہ مرے کیوں؟ لا وارث تو نہیں ہوسکتے مگر وارث ہیں کس کے؟ لاشوں کے پاس پڑے خون سے لت پت کاغذ اور قلم یہ چیخ چیخ کر بتا رہے تھے، یہ بے تعلیم اور جاہل لوگ نہیں ہیں، تعلیم یافتہ اور عالم لوگ ہیں، جو علم اور ادب سے بخوبی واقف بھی ہیں۔ اگر کوئی علم اور ادب سے بخوبی واقف ہوتا ہے تو یہ لوگ دہشتگرد اور انتہا پسند بھی نہیں ہونگے، پھر ان کے سرپہ لگی گولیوں کے نشانات کیوں یہ چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں یہاں ایک خونریز جنگ بھی چھڑ چکی ہے اور علم اور ادب سے واقف لوگوں کو جنگ سے کیا واسطہ؟ چہرے سے لگتا ہے دو آدھے عمرکے لوگ تھے جن میں سے دو شادی شدہ بھی لگ رہے تھے اور دو نوجوان جنہیں ابھی مزید نوجوانی کی سیڑھی چڑھ کر اوپر جانا تھا، شاید ابھی تک دونوں نے شادی بھی نہیں کی تھی۔ اوران دونوں نے شادی بھی کی ہے اور شادی شدہ لوگوں کے ضرور بچے بھی ہونگے کیا حالت ہوگی ان کے بچوں کی مگر یہاں پھر کیوں کوئی نہیں ہے؟

باہر نکل کر دیکھتے ہیں ضرور کوئی ہوگا۔ اُف اللہ یہ سردی! گھر سے نکلتے ہی یخ بستہ ہواؤں نے مجھے اپنے آغوش میں لے لیا۔ چاروں طرف خاموشی اور اسی خاموشی میں ٹوٹے پھوٹے جھونپڑی کے سامنے بیٹھی بوڑھی عورت نازینک گنگنا رہی تھی۔

ہیلو۔! ہیلو۔!امی جان۔
خاموشی کے سوا کچھ بھی نہیں، مگر بوڑھی عورت کی آواز اس خاموشی کو چیرتی ہوئی مزید بلند آواز میں نازینگ گانا شروع کردیتی ہے۔

ایک بار پھر۔ہیلو۔! ہیلو۔! دادی اماں۔ مگر بوڑھی عورت اپنی دنیا میں جی رہی تھی، اس طرح لگ رہا ہے بوڑھی عورت کسی دولہے کو سجانے کی تیاری میں ہے اور بہت خوش بھی ہے۔ مگر دلہن کا کوئی پتہ بھی نہیں، کہاں ہے کون ہے کیسی ہے۔ شادی کا ماحول بھی نہیں لگ رہا تھا۔ پھر سے میں سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ ان پانچوں میتوں کے بارے میں ضرور کسی کوبتانا پڑے گا۔ کس کو بتاؤں؟ دل کر رہا تھا بلند آواز سے آواز لگاؤں ضرور کوئی سنے گا اور ضرور یہاں پہ آگئے۔ لمحہ بھر خاموشی کے بعد بلند آواز میں، کوئی مجھے سن رہا ہے؟ کوئی ہے یہاں؟ میرا بلند آواز آسمان کو چیرتی ہوئی چاروں طرف گونج رہا تھا، ایک لمحے کے بعد پھر سے وہی خاموشی چھاگئی۔ پھر میں نے آواز لگائی پھر سے میرا آواز آسمان کو چیرتی ہوئی چاروں اطراف گونج رہا تھا۔ اب کی بار وہی بوڑھی عورت میرے پیچھے آتی ہے اور پیٹ پہ ٹپ ٹپی ہوئی اپنی شہادت کی انگلی اپنے منہ پہ لگا کر مجھے اشارہ کرتی ہوئی“ہشششش،،(خاموش ہوجاؤ)اور پھر دھیمی آواز میں کہتی ہے خاموش ہوجاؤ دولہے سو رہے ہیں۔

کون دولہا ؟ کیسا دولہا؟ کہاں کا دولہا؟ کہاں ہے شادی؟ میں چیختا ہوا بولا پاگل ہو کیا؟ اور یہ پانچوں میتیں کیسی ہیں؟ اور کس کے ہیں؟ یہ کون ہیں؟ بوڑھی عورت بڑی نرمی سے کہتی ہوئی، بس خاموش ہوجاؤ دلہے جاگ جائینگے۔ پھر سے میں چیختا ہوا بول پڑا اٹھ جاؤ، میرے راستے سے پاگل بوڑھی عورت، میں کسی کو ڈھونڈتا ہوں کوئی انہیں پہچاننے میں میری مدد کرے۔

میں چیختا رہا کوئی مجھے سن بھی نہیں رہا تھا اور پانچوں لاش مجھے مزید الجھا رہے تھے، کون ہیں؟ کہاں سے آئے ہیں؟ کیوں انہیں مار دیا گیا؟ ویران بستی میں کوئی اولاد آدم کیوں دیکھائی نہیں دے رہا ہے، صرف خاموشی، میں اور بوڑھی عورت، مجھے مزید پریشانی کی حالت میں دھکیل رہا تھا اور میں کچھ بول بھی نہیں پا رہا تھا، مگر بوڑھی عورت خوشی سے ناچ رہی تھی اور مزید بلند آواز میں نازینک گا رہی تھی اور میرا سر درد سے پھٹ رہا تھا، یہ ٹھنڈی ہوائیں اس وقت مجھ پہ آگ کے گولے برسا رہے تھے اور دوسری جانب یہ بوڑھی عورت مجھے مزید پریشانی کی حالت میں دھکیل رہی تھی۔ اسی سوچ میں تھا کیا کروں کہاں جاؤں تاکہ ان لاشوں کے بارے میں مجھے کچھ معلوم ہو۔

چلو اس بستی سے نکل کر کسی اور بستی میں جانے کی کوشش کرتے ہیں، شاید کوئی مل بھی جائے تاکہ اس الجھے ہوئے معلوم سے مجھے نکلنے میں مدد مل جائے، چلتے چلتے کچھ بچے کھیلتے ہوئے مجھے دکھ گئے، مگر دور ہیں شاید میں وہاں تک پہنچ بھی نا سکوں اور شب مجھے اپنے آغوش میں لے اور میں راستے سے بھی بھٹک جاؤں، مگر دوسری جانب کھلے میدان کے سوا کچھ بھی نہیں، شاید بچوں کے پاس ضرور کوئی بستی ہوگی، مگر بچے دور تو ہیں کروں تو کیا کروں، جاؤں یا نہیں اور بچوں کی طرف جاؤں یا پیچھے اسی بوڑھی عورت کے پاس جاؤں، جہاں صرف بوڑھی عورت اپنے خیالی دنیا میں کھیل رہی ہے، سوچتے سوچتے مجھے میرے پاؤں خود بخود ان بچوں کی جانب دھکیلتے گئے، آخر میں جب آنکھیں کھلی تو وہ بچے جو کوسوں دور تھے میرے سامنے کھڑے تھے۔

پانی پیوگے؟ انہی بچوں میں سے کسی نے بڑی معصومیت سے پوچھا۔ رکو! سانس لینے دو، پھر باتیں کرینگے، پتہ نہیں کیوں میں نے اپنے من یہ بات بٹھا لیا تھا کہ میں ستر سال کا سفر مکمل کرکے منزل تک پہنچ چکا ہوں پھر سے یاد آیا میں ابھی تک سفر میں ہوں، پیچھے وہی پانچ لاشیں پڑی ہیں، انہی کی شناخت کے لئے نکلا ہوں اور میں تھکابھی نہیں ہوں، پتہ نہیں کیوں مجھے تھکن محسوس ہورہا ہے اور مجھے پیاس بھی نہیں لگا ہے اور یہ بچے کیوں مجھے پانی کے لئے پوچھ رہے ہیں۔ یہاں پاس میں کوئی بستی ہوگی؟ بغیر سانس لئے میں نے پوچھا۔ بستی جہاں انسان رہتے ہیں؟ سوالیہ انداز میں انہی بچوں میں سے کسی نے پھر سے پوچھا۔ جی ہاں انسانوں کی بستی۔ جی نہیں جواب میں صرف انہی بچوں نے ایک ساتھ یہی کہہ دیا اورایک ساتھ چل پڑے، روکنے کی کوشش میں نے بہت کیا، مگر وہ رکنے کے بجائے مزید تیزی کے ساتھ چلنے لگے، میں چلاتا رہا رک جاؤ، ان لاشوں کی شناخت اور ٹھکانے لگانے کے لئے مجھے آپ لوگ درکار ہونگے، رک جاؤ خدا کے لئے، رک جاؤ خدا کے رسول کے لئے، رک جاؤ میں اپنے بے بسی کی میت کو ان بچوں کے ساتھ جاتے ہوئے اپنے آنکھوں سے دیکھ رہا تھا مگر وہ رکنے کے بجائے مزید تیزی کے ساتھ جا رہے تھے۔ میں بے بسی کی حالت میں صرف انہیں دیکھ رہا تھا، ان کا پیچھا کرنے کے لئے میرے پاؤں جواب دے رہے تھے اور مجھے مزید ان پانچ لاشوں کی جانب دھکیلنے کی کوشش کر رہے تھے، میں سوچ رہا تھا جاؤں یا نہیں جاؤں پیچھے، پھر سے وہی سنسان بستی اور بوڑھی عورت مجھے ملیں گئے، اور وہی پانچوں لاش پھر سے مجھے مزید پریشان کرنے کے لئے تیار ہیں، کروں تو کیا کروں؟ سوچ رہا تھا، آنکھوں کو بند کیا، جب آنکھیں کھلیں تو میں نے اپنے آپ کو اسی سنسان بستی میں پایا جہاں وہی خاموشی تھی اوراس بار بوڑھی عورت ناچ رہی تھی، میں اسی کمرے کی جانب بھاگتا گیا، وہاں لاش نہیں تھے، خون سے لت پت کاخذ اور قلم ابھی بھی پڑی تھی، میں فوراً وہاں سے نکل آیا اور بوڑھی عورت کے سامنے چیختارہا، لاش کہاں ہیں؟ کون لے گیا اور اس بستی میں مزید خاموشی کیسی ہے؟ مگر بوڑھی عورت مجھے سننے کے بجائے اپنی دنیا میں ناچ رہی تھی اور خوشی میں اڑنے کی کوشش بھی کررہی تھی، میں نے بوڑھی عورت کو پکڑ کر جھنجوڑنے کی کوشش کی بوڑھی عورت نے مجھے دھکا دے دیا، میں زمین پر گر پڑا اور عورت مزید تیزی کے ساتھ ناچ رہی تھئ اور میں خاموشی کے ساتھ بس نظارہ دیکھتا رہا۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔