ایران؛ کُو، انقلاب، ردانقلاب اور رجیم کی ایک کہانی – میرک بلوچ

374

ایران؛ کُو، انقلاب، ردانقلاب اور رجیم کی ایک کہانی

تحریر: میرک بلوچ

دی بلوچستان پوسٹ

قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کا عراق میں امریکی ٹارگیٹیڈ حملے میں ہلاکت کے بعد بین الاقوامی اور خاص طور پر اس خطے میں ایک ہنگامہ خیز اور ہیجانی کیفیت نے جنم لیا ہے۔ ایرانی حکمرانوں کا اضطرابی رحجان اور غصہ سمٹ کر ہسٹریائی شکل میں بدل گیا ہے ۔ جنرل قاسم سلیمانی ایرانی ریگولر آرمی کے ماتحت نہیں تھے بلکہ وہ ایرانی رہبراعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کے براہ راست جوابدہ تھے ۔ رہبر اعلیٰ کا منصب 1978ء کے ایرانی انقلاب کے بعد وضع کیا گیا تھا اور یہ منصب اعلیٰ سپریم کونسل کے تحت ہے، جو آیت اللہ علی خامنہ ای کے لئے ہی خاص تھا۔ یہ بات بھی یاد رہے کہ آیت اللہ علی خامنہ ای تہران میں نہیں ہوتے تھے بلکہ قم میں ہی مقیم رہے۔ قم کو شعیہ فرقے میں ایک اہم مقام حاصل ہے ۔ گذشتہ دنوں ایرانی عوام نے ایرانی حکمرانوں اور بنیاد پرستی کے خلاف بھرپور مظاہروں کے ذریعے احتجاج کیا تھا اور ان مظاہروں کو ختم کرنے کے لئے انتہائی طاقت کا مظاہرہ کرکے ایرانی فورسز اور پاسداران انقلاب کے ذریعے وحشیانہ طریقے سے کچلنے کی کوشش کی اور فورسز نے مظاہرین پر گولیاں چلا دی جس سے تقریبا 1500 مظاہرین موت کی آغوش میں چلے گئے، ہزاروں زخمی ہوئے تقریبا ابتک 15000 لوگوں کو گرفتار کیا جاچکا ہے ۔ ایرانی عوام کا صبر کا پیمانہ تقریبا چھلک چکا ہے اور چار دہائیوں سے بھی زیادہ عرصے سے ایران پر قابض فاشسٹ ملا رجیم سے ایرانی عوام تنگ آچکے ہیں ۔

موجودہ صورتحال کو سمجھنے کے لیے یہاں مختصر طور پر تاریخ کا جائزہ لینا ضروری ہے ۔ 1940 کی دھائی میں جب دوسری جنگ عظیم عروج پر تھی اس وقت رضا شاہ سپہ دار ایران کے بادشاہ تھے ۔ رضا شاہ سپہ دار ایک فوجی کو دیتا کے ذریعے ایران کے حکمران بن گئے تھے، رضا شاہ نے مصطفی کمال اتا ترک جو جدید ترکی کے بانی تھے سے متاثر ہو کر ایران کو بھی اصلاحات کے ذریعے جدید بنانے کی کوشش کی ۔ چونکہ مصطفی کمال اتا ترک، ترک عوام کے ہیرو تھے اور ترک عوام ان سے بے انتہا محبت و عقیدت رکھتے تھے اس لیے ترک عوام نے اپنے پیارے رہنما کی اصلاحات کو دل و جان سے قبول کیا تھا ۔ جبکہ رضا شاہ سپہ دار ایک آمر و جابر بادشاہ تھے اور ایرانی عوام ان سے نفرت کرتے تھے لہٰذا رضا شاہ نے زبردستی اصلاحات نافذ کئے۔ اس سے یہ ضرور ہوا کہ ایران فرسودہ و جاگیردارانہ نظام سے نکل کر جدید رنگ میں ڈھل گیا، اس وقت رضا شاہ سپہ دار اتحادی ممالک کے دوست تھے۔ مگر دوسری جنگ عظیم کے عروجی دور میں رضا شاہ نے خود کو آریائی نسل قرار دیکر ہٹلر سے دوستی اختیار کی اور جرمن مشیر ایران آنا شروع ہوگئے ۔ لہٰذا اتحادی طاقتوں نے پلٹ کر ایکشن لیا اور رضا شاہ سپہ دار کو بادشاہت سے معذول کرکے اسکے بیٹے رضا شاہ دوئم کو تخت پر بٹھاکر ایران کا بادشاہ تسلیم کر لیا۔ رضا شاہ دوئم نے رضا شاہ پہلوی کا لقب اختیار کرکے بادشاہ کے بجائے خود کو شہنشاہ ایران قرار دیا۔ (بعض مورخین رضا شاہ پہلوی کو رضا شاہ سپہ دار کا چھوٹا بھائی کہتے ہیں جوکہ تاریخی طور پر غلط ہے بلکہ رضا شاہ پہلوی سپہ دار کا بیٹا ہی ہے) شاہ ایران رضا شاہ پہلوی نے تمام جرمن مشیروں کو ایران سے نکال کر دوسری جنگ عظیم کے خاتمے تک اتحادی ممالک کا بھرپور ساتھ دیا۔ یادرہے جنگ کے آخری سال 1945ء میں اقوام متحدہ کے قیام کے لیے اول اجلاس تہران میں ہی ہوئے ۔ ایران نے میزبانی کے فرائض انجام دئے۔ اس اجلاس میں اتحادی ممالک کے سربراہان ،روزو یلٹ( امریکہ) مارشل اسٹالن (سویت یونین )ونسٹن چرچل (برطانیہ )نے شرکت کی۔

اسی دوران ایران میں تیل و گیس وافر مقدار میں دریافت ہوا۔ جس کی مکمل ڈرلنگ اینگلو ایرانین آئل کمپنی نے کی اور یہ کمپنی UK کی ایران میں تیل و گیس کی اجارہ دار اور بڑی کمپنی تھی ۔ اس کے 60 فیصد شیئر برطانیہ و بعدازاں USA کے پاس تھے اور 40 فیصد ایران کے تھے ۔ بہر حال اس تیل کی آمدنی نے ایران کو اس خطے میں مضبوط اقتصادی طاقت بنادیا ۔ اس آمدنی نے شاہ ایران کے جاہ و جلال کو عروج پر پہنچادیا ۔ تیل کی اس پیداوار سے ایران کے دوسرے صنعتوں کو کافی پھیلا دیا۔ لیکن جنگ کے خاتمے کے فوری بعد ایران امریکی و مغربی ممالک کا انتہائی قریبی اتحادی بن گیا، اس وجہ سے سرد جنگ کے آغاز میں سویت اثرات کو روکنے کے لیے مغربی ممالک خاص طور پر USA نے ایرانی افواج کو جدید خطوط پر استوار کیا اور شاہ ایران ایرانی افواج کا کمانڈر چیف بن گیا ۔ اور امریکی اسلحہ کا ایران اس خطے میں سب سے بڑا خریدار ہوگیا ۔ اس وقت ایران تودہ پارٹی (ایرانی کمیونسٹ پارٹی ) ایرانی عوام کی امنگوں کی واحد ترجمان تھی جو ایران کو سوشلسٹ ملک بنانے کی جدوجہد کررہی تھی ۔ لیکن تودہ پارٹی خفیہ تھی اس کے باوجود ایرانی عوام کے وسیع حلقوں میں اثرورسوخ رکھتی تھی۔ دوسری جانب ایک بڑا حلقہ محمد مصدق کے حامی تھے جو ایرانی تیل کو قومیانہ چاہتے تھے۔ محمد مصدق کو دانشوروں اور ایرانی نوجوانوں کی حمایت حاصل تھی ان حالات میں شاہ نے تیل کی آمدنی کو استعمال کرتے ہوئے ایران کو مزید جدید بنانے کے لیے مغربی مشیروں کی تجویز پر ایران میں جدید تعلیمی نظام کو متعارف کیا۔ یونیورسٹیوں اور کالجز کی تعداد کو نہ صرف بڑھایا بلکہ پورے ملک میں سڑکوں، پلوں،اسپتالوں کی بنیاد رکھ دی ۔ تہران کو مغربی شہروں کے ہم پلہ بنادیا ۔اور یہ شہر ایشیاء کا پیرس کہلانے لگا۔

1950ء کی دھائی میں کورین جنگ میں ایران نے کھل کر USA اور مغربی ممالک کی حمایت کی ۔ 1950 میں پاکستان اور ایران کے درمیان تعلقات استوار ہوئے جو کورین جنگ کی وجہ سے تھا۔ 1950 ہی میں ایرانی عوام مزید اصلاحات کا مطالبہ کر رہی تھی اور خاص طور پر ایران میں جمہوریت کا مطالبہ تیز ہوگیا تھا۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے شاہ کے مشیروں نے مشورہ دیا کہ چونکہ شاہ کی ترقیاتی کاموں کی وجہ سے وہ مقبول ہیں اور مزید ہر دل عزیز ہونے کے لیے اپنی ایک پارٹی بناکر ایک ڈھیلی ڈھالی اسمبلی تشکیل دیں ۔ لہٰذا شاہ نے 1950 کی دھائی میں ایران میں الیکشن کا اعلان کیا سوائے تودہ پارٹی کے تمام کو الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت دی۔ جب انتخابات ہوئے شاہ کی پارٹی رستکیز کو شکست فاش ہوئی ۔ اور محمد مصدق کی جماعت ایرانین پیپلزپارٹی واضح اکثریت سے کامیاب ہوئی ۔ جس سے USA اور ایران کے مغربی اتحادی ششدر رہ گئے شاہ کی حالت بھی قابل دید تھی ۔ اس کا خیال تھا کہ محمد مصدق کی پارٹی اسمبلی میں تھوڑی نشستیں ضرور حاصل کرے گی مگر شاہ پرست ہی حکومت بنائیں گے ۔ چونکہ تودہ پارٹی خلاف قانون جماعت تھی لہٰذا تودہ پارٹی نے انڈر گراؤنڈ رہ کر مصدق کی پوری طرح حمایت کی۔ شاہ نے کچھ حیل و حجت کے بعد مصدق کو حکومت سازی اجازت دے دی ۔

مصدق اسمبلی کی اکثریت سے ایران کے پہلے جمہوری وزیر اعظم بن گئے اور فوری طور پر اپنے وعدے کی پاسداری کرکے اصلاحات شروع کیں، مصدق نے پہلا کام ہی یہ کیا کہ اینگلو ایرانین آئل کمپنی کو قومی ملکیت میں لے لیا اور ایک قرار داد کے ذریعے شاہ کے اختیارات کم کرکے انھیں اسمبلی کے ماتحت کیا۔ اس تبدیلی سے ایرانی عوام اور خاص طور پر نوجوانوں میں خوب مقبولیت حاصل ہوئی اور مصدق ایرانی عوام کے ہیرو بن گئے ۔ مگر USA اور دیگر مغربی طاقتوں نے مصدق حکومت کو تسلیم کرنے سے انکار کیا ۔ تیل کی صنعت سے وابسطہ اپنے ماہرین کو واپس بلالیا، اینگلو ایرانین آئل کمپنی کو قومیانے کی پالیسی کو برطانیہ نے ڈاکہ قرار دیا ۔ شاہ ایران نے مصدق کو انتشار پسند کہہ کر اپنے اختیار کو اسمبلی سے مبرا قرار دیا ۔ USA اور برطانیہ نے نئی حکومت سے ہر قسم کے تعاون پر پابندی عائد کردی اور شاہ کو آئینی اور قانونی حکمران تسلیم کیا۔ اس صورتحال سے ایرانی تیل کی پیداوار ختم ہوگئی ۔ تقریباً تیل حاصل کرنا انتہائی مشکل ہوگیا ایران کے اپنے ماہرین تیل کی صنعت میں نہ ہونے کے برابر تھے، مغربی ماہرین کے جانے کے بعد ایرانی معیشت جو صرف تیل پر انحصار کرتی تھی تقریبا ٹھپ ہوکر رہ گئی۔ جس کے نیتجے میں ایرانی عوام میں بے چینی پھیل گئی روز مرہ کے استعمال کی اشیاء بھی تقریباً ناپید ہونے کے قریب پہنچ گئے اسی اثنا میں سویت یونین نے مصدق حکومت کو ہر قسم کی امداد دینے اپنے ماہرین بھیجنے کی پیشکش کی تاکہ تیل کی صنعت بحال ہو مگر مصدق اس صورتحال میں بہت زیادہ ہی تذبذب کا شکار ہوئے۔

مصدق مزید راست اقدام کرنے سے قاصر رہے، گومگوں کی اس کیفیت نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور شاہ کے حمایتی تہران کے سڑکوں پر مظاہرہ کرنے لگے اس کے علاوہ مصدق نے فوج میں کوئی تبدیلی کی کوشش نہیں کی فوج مکمل طور پر شاہ کے ماتحت تھی اور شاہ ہی مسلح افواج کا کمانڈر ان چیف تھے، اس تمام صورتحال سے امریکی CIA نے ایک پلان ترتیب دیا جون فوسٹر ڈلس نے شاہ سے کہا کہ وہ چند دن کے لیے پیرس چلے جائیں، ایرانی فوج کے تمام جنرلوں کو چوکس رہنے اور منظم انداز میں مصدق کو معزول کرکے کنٹرول حاصل کرنے کا کہا گیا ۔ لہٰذا امریکی سفارت خانے سے دوسرے ہی دن شاہ کے حامی مظاہرین کو تہران کے سڑکوں پر پھیلا دیا ۔ ان مظاہروں کے دوران سہہ پہر 3 بجے فوج نے اسمبلی اور وزیر اعظم ہاؤس کو گھیرے میں لیکر مصدق کا تختہ الٹ دیا۔ دوسرے روز شاہ پیرس سے واپس آگئے اور قوم سے اپنے خطاب میں کہا ” حالات اب مکمل قابو میں ہیں، انتشار کا خاتمہ کردیا گیا ہے، میں نے کوشش کی تھی کہ ایران میں جمہوریت آگے بڑھے لیکن نااہل حکومت نے ملک کو شدید نقصان دیا، اب معاشی ترقی کا عمل پھر سے شروع کرینگے اور ایران کو جدید ملک بنائینگے ” دوسرے اعلان میں شاہ نے ایران میں مارشل لاء لگادی تمام سیاسی پارٹیوں پر پابندی عائد کردی، اس کے ساتھ گرفتاریوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ ہزاروں سیاسی کارکنوں کو گرفتار کیا ۔ مصدق کو اس کے گھر میں قید کردیا گیا اور ہزاروں سیاسی کارکن جلا وطن کردیئے گئے USA اور برطانیہ نے ایران پر لگے پابندیوں کا خاتمے کا اعلان کیا، تیل کے مغربی ماہرین واپس ایران آگئے USA نے مزید انقلابات کو روکنے کے لیے شاہ کے مشاورت سے امریکی CIA کی تربیت سے ایک نئ انٹلی جنس ایجنسی “سازمان امینائ کشور (ساواک ) تشکیل دی ۔

اب ایران میں جبر و استبداد کا سیاہ دور شروع ہوا اور امریکی فوجی ماہرین بڑھ کر 20،000 ہوگئے، دیگر ماہرین اسکے علاوہ تھے USA اور دیگر مغربی ممالک نے تیل کے چشموں اور دیگر سیاسی عوامل کی وجہ سے اس خطے کو حساس ترین قرار دیکر ایران ،ترکی، پاکستان اور عراق کے درمیان اتحاد کی تشکیل کی جو بغداد پیکٹ اور بعدازاں سیٹو کہلایا۔ برطانیہ بھی اس کا حصہ بنا۔ 1950، 1960 اور 1970 کی دھائی ایران میں جبر کی سیاہ ترین دھائیاں رہی ساواک ایرانی عوام پر ایک قہر کی مانند تھی ایران اس دور میں USA کا اہم ترین مرکز بن گیا، ایران خلیج میں واحد ملک تھا جس کے اسرائیل سے مضبوط سفارتی تعلقات تھے سیٹو کے تحت پاکستان، ایران،ترکی کے درمیان ایک شاہراہ بنائی گئی جو RCD کہلائی مگر عراق میں بعث پارٹی کے سامراج دشمن انقلاب کے نتیجے میں سیٹو کا خاتمہ ہوا۔ 1971 میں جب مظلوم بنگالی تحریک کو کچلنے کے لئے پاکستان نے فوجی کارروائی کی جس کے نتیجے میں ہندوستان نے مظلوم بنگالی عوام کا ساتھ دیا 1971 میں بنگلہ دیش میں پاکستان کی یقینی شکست کو دیکھ کر ایران نے پاکستان کے زیر قبضہ بلوچستان کی سرحد پر فوج کو مکمل تیاری کے ساتھ جمع کیا ایران کا پلان تھا کہ پاکستان کو اس جنگ میں اگر دونوں جانب سے شکست ہوئی تو ایران پاکستان کے زیر قبضہ بلوچ وطن میں اپنی افواج داخل کرکے اسے مغربی بلوچستان سے ملاکر اپنا حصہ بنا لے گا مگر اس وقت کے امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کی مداخلت پر ایران نے بلوچستان کے بارڈر سے اپنی افواج واپس بلا لی اور اپنا منصوبہ ترک کردیا ۔

جب 1972 میں بلوچ وطن میں نیشنل عوامی پارٹی نے حکومت بنائی تو پیپلزپارٹی مرکز سندھ و پنجاب میں حکومت میں تھی بلوچ وطن میں ایک سیکولر بلوچ حکومت پہلی بار بنی تھی، مگر ایران اس حوالے سے بلوچ وطن میں اس کے حق میں نہیں تھے اور شاہ نے اس حوالے سے بھٹو سے رابطہ کیا بھٹو بھی حیلے بہانوں سے بلوچستان میں مداخلت کرنے پر تلے ہوئے تھے، سردار عطا اللہ مینگل وزیر اعلیٰ اور میر غوث بخش بزنجو گورنر تھے، شاہ ایران نے بھٹو کو ایران کے دورے کی دعوت دی اور بھٹو سے اصرار کیا کہ میر غوث بخش بزنجو کو میرے خصوصی دعوت پر ضرور ساتھ لائیں حالانکہ ہونا یہ چاہیے تھا کہ وزیر اعلیٰ اور گورنر دونوں کو دعوت دیتے بہر حال بھٹو، بزنجو اور شاہ کے درمیان طویل مذاکرات ہوئے مگر شاہ بھٹو اور میر صاحب نے اپنی زندگیوں میں اس طویل بات چیت کو منظر عام پر نہیں لایا، بعض بزرگ بلوچ رہنما اس حوالے سے میر صاحب سے تذبذب کا شکار ہوئے ۔ بعدازاں 1973 میں پاکستانی فوج نے بلوچ وطن پر چڑھائی کی نیشنل عوامی پارٹی کی حکومت کا خاتمہ کیا اس دوران شاہ نے بھٹو حکومت کو بھاری مالی اور فوجی امداد بھی دی۔

1974 میں ایران نے تقریبا 40 ارب ڈالرز سے زائد تیل دوسرے ممالک کو فروخت کی اس کثیر آمدنی سے ایران نے اسلحہ کی خریداری میں اضافہ کیا ایرانی عوام غربت و تنگ دستی شاہ کے جبر اور ساواک کے ہاتھوں بری طرح پس رہے تھے، نوجوان مصدقی اور تودہ پارٹی انڈر گراؤنڈ رہے ایرانی عوام سے رابطے میں تھے لہٰذا 1977 کے آتے آتے ایران میں تحریک کا ابھار ہوا اور 1978 میں مرگ بر شاہ، مرگ بر امریکائی کے نعروں سے گونج اٹھا۔ ادھر پیرس میں 1960 کی دہائی سے جلا وطن ایرانی مذہبی پیشوا آیت اللہ علی خامنہ ای نے فتویٰ جاری کیا کہ اسلام میں بادشاہت حرام ہے۔ ایرانی عوام سے اپیل کی کہ اس ظالم و جابر بادشاہ کو ہر قیمت پر تخت سے بےدخل کرکے جمہوریت اور آزادی کی جانب آگے بڑھو۔ دوسری جانب تودہ پارٹی نے بھی اس موقف کی بھرپور حمایت کی اور تودہ پارٹی کے رہنما و کیڈر نے بھی مولوی بن کر امام بارگاہوں اور مساجد میں زبردست خطابات کئے اور اسلامی انقلاب کے نعرے بلند کئے ۔ بہر حال 1978 کے اواخر میں تمام تر جبر و ستم کے باوجود شاہ اپنے تخت کو نہ بچا سکے اور اپنے خاندان کے ساتھ ایران سے ہمیشہ کیلئے بھاگ گئے وہ پہلے مصر اور بعد میں پنامہ میں جلا وطن ہوئے اور وہیں فوت ہوگئے۔

ادھر انقلاب کے بعد خمینی نے بھی اپنے رنگ بدل دیئے اور دوران انقلاب ساتھ دینے والے سیکولر قوتوں کو کچلنا شروع کیا۔ چونکہ تودہ پارٹی اب خفیہ نہیں رہی تھی لہٰذا سب سے بڑا عذاب اسی پر آیا اور تودہ پارٹی کے جنرل سیکرٹری نورالدین کیا نوری کو اس کے ساتھی سمیت گرفتار کرکے غائب کردیا اور کیانوری اور اس کے ساتھی کبھی بھی منظر عام پر دوبارہ نہیں آئے۔

موجودہ ایران مکمل ایک تھیوکریٹک ریاست ہے اور ایران مشرق وسطیٰ میں مختلف پراکسیوں کی پشت بان ہے۔ ایران اور USA کے درمیان 1979 سے سفارتی تعلقات کا خاتمہ ہوا تھا USA نے ایران پر مکمل اقتصادی پابندیاں عائد کی جس سے ایرانی معیشت دگر گوں ہوگئی، مگر اوبامہ انتظامیہ نے اپنے دور اقتدار میں یورپی اتحادیوں کے ساتھ ملکر ایران سے نیو کلیئر اسلحہ اور افزودگی روکنے کے لیے مذاکرات کئے اور ایران سے ایک معاہدہ کیا کہ ایران ایٹم بم نہیں بنائے گا اور میزائل سازی روک دے، جس سے بتدریج ایران پر پابندیاں ختم کردینے کا فیصلہ ہوا اور امریکہ میں 1979 سے ایران کے منجمد اثاثہ تقریباً ایک بلین ڈالر بھی ایران کو واپس کئے جائینگے اس معاہدے سے عرب ممالک اور اسرائیل نے امریکہ سے اپنی شدید ناراضگی کا اظہار کیا ۔

بہرحال ٹرمپ نے صدر بنتے ہی اس معاہدے کو ختم کیا اور ایران پر مزید سخت پابندیاں عائد کر دی ۔ لیکن یورپ کے اتحادیوں نے اس معاہدے کو برقرار رکھا مگر اس کے علاوہ وہ کچھ بھی نہیں کرسکے، موجودہ صورتحال پر خطر ضرور ہے مگر مکمل جنگ کے امکانات اب تک تقریباً نہیں ۔ قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد ایران میں شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے مگر ایران صرف 20 میزائل عراق میں واقع امریکی اڈوں پر فائر کرکے یہ اعلان کیا کہ ہم نے سلیمانی کا بدلہ لے لیا ہے اور ان حملوں سے 80 امریکی و عراق فورسز سے وابسطہ افراد ہلاک ہوئے ہیں ۔ دوسری جانب صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں اپنے فوجی جنرلوں اور اپنے وزراء کے ساتھ اپنی قوم سے مختصر خطاب کیا کہ اس حملے کو ہم نے بلکل ناکام بنا دیا ہے اور کوئی جانی و مالی نقصان نہیں ہوا ۔ ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ سلیمانی ایک دھشت گرد تھے اور لبنان، شام، عراق اور خطے کے دیگر ممالک میں حزب اللہ اور دیگر دیشت گرد تنظیموں کو مالی اور فوجی امداد دے رہے تھے۔اور یہ لاتعداد امریکیوں کے خون کے بھی ذمہ دار تھے اس نے یہ بھی کہا کہ سعودی آئل فیلڈ پر حملہ بھی اسی کے زیر نگرانی ہوا آخر میں اس نے ایران کو وارننگ دی کہ امریکہ اپنی اعلیٰ ٹیکنالوجی اور اپنی فوجی قوت کی وجہ سے ناقابل شکست ہے لہٰذا ایران مزید کوئی کاراوائی نہ کرے۔

ٹرمپ آخر میں یہ کہتے ہوئے کہ امریکہ شیل آئل کی بدولت تیل و گیس میں نہ صرف خود کفیل ہوگیا ہے بلکہ وہ یورپ وغیرہ میں تیل سپلائی بھی کرے گا اب امریکہ اور اسکے اتحادیوں کو خلیج کے تیل کی کوئی ضرورت نہیں ۔ اس نے ایران کو دعوت دیتے ہوئے کہا کہ آئیے امن و سلامتی کے لیے ملکر کام کریں اور امریکہ امن کیلئے ایران اور ہر کسی کے ساتھ مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ اس نے اس سلسلے میں اپنے یورپی اتحادیوں خاص کر جرمنی، فرانس اور برطانیہ سے کہا وہ اس عمل میں ایران پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کریں۔

بہر حال خطے کی صورتحال بہت پیچیدہ اور حساس ہوچکی ہیں کسی بھی جانب سے چھوٹی سی غلطی بڑی تباہی لاسکتی ہے اس مختصر سے خطاب کے بعد یہ واضع ہوگیا ہے کہ USA نے اپنی لونگ ٹرم اور شارٹ ٹرم پالیسیاں پہلے سے بنا رکھی ہے اور یہ بات واضح ہے کہ امریکہ اس خطے میں بڑی تبدیلیاں لائے گا، جس کی واضح مثال سعودی عرب میں موجودہ اصلاحات اور افغان طالبان سے مذاکرات، رجب طیب اردگان کی رجعت پسند پالیسی سے اختلافات اور سیکولر کردوں کی حمایت اور ایران میں جمہوری اور سیکولر قوتوں کی حمایت کرکے ایران میں جمہوریت کی بحالی وغیرہ۔

اس خطے میں واقع گل زمین بلوچستان کی خاص اہمیت ہے بلوچ وطن کی جغرافیائی اہمیت دو چند ہے بلوچ اس خطے کا اہم کھلاڑی اور اسٹک ہولڈر ہے اور یہ بات خوش آئند ہے کہ بلوچستان میں ایک تحریک موجود ہے ۔ بلوچ قومی آزادی کی تحریک کو قدرت و حالات مواقع فراہم کررہے ہیں اور بال مسلسل بلوچ کے کورٹ میں آرہا ہے ۔ لہٰذا بلوچ قومی آزادی کے رہنماؤں پر بھاری ذمہ داری دوبارہ آگئی ہیں ۔ بلوچ رہنما تدبر، دانائی اور مکمل یکسوئی سے اپنے قومی مفادات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکمت عملی اختیار کریں ۔ بلوچ وطن کو مورچہ نہ بننے دیں کیونکہ ایران بلوچ کا ہمسایہ اور USA اس وقت واحد سپر پاور ہے، USA دنیا میں کہیں بھی کچھ بھی کرسکتا ہے اس بات کا ادراک ضرور رکھیں۔


دی بلوچستان پوسٹ: اس تحریر میں پیش کیئے گئے خیالات اور آراء لکھاری کے ذاتی ہیں، ضروری نہیں ان سے دی بلوچستان پوسٹ میڈیا نیٹورک متفق ہے یا یہ خیالات ادارے کے پالیسیوں کا اظہار ہیں۔